اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب WhatsAppFacebookTwitter 0 18 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہائی پاور سلیکشن بورڈ کے ذریعے گریڈ 22 میں ترقی کے فیصلوں کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے پر ابتدائی دلائل مکمل ہونے کے بعد حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔
کیس کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی، شعیب شاہین، قمر افضل اور دیگر وکلا پیش ہوئے۔ سابق سیکریٹری اطلاعات سہیل علی خان، سابق آئی جی عامر ذوالفقار سمیت متعدد افسران عدالت میں موجود تھے۔
درخواست گزاروں کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق اسٹبلشمنٹ رولز میں اچانک ترمیم کی گئی، جو مبینہ طور پر مخصوص افسران کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔ انہوں نے مزید مؤقف اپنایا کہ ہائی پاور سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کے بجائے نائب وزیر اعظم نے کی، جو غیر معمولی اقدام ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے ان ترامیم کے دفاع میں تفصیلی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلوگوں کو انصاف دلائیں گے، پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے: چیف جسٹس لوگوں کو انصاف دلائیں گے، پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے: چیف جسٹس راولپنڈی: نان کسٹم سگریٹ کے خلاف کارروائی، ایف بی آر ٹیم پر جان لیوا حملہ، مقدمہ درج پاکستان نے غزہ کی صورتحال کو انسانیت کے ضمیر پر دھبہ قرار دے دیا ایران میں اسرائیلی حملے سے شہادتوں کی تعداد 585 تک جا پہنچی، 1326 زخمی مودی نے ٹرمپ سے کہا ہے بھارت پاکستان سے تنازع پر کبھی ثالثی قبول نہیں کریگا، وکرم مسری ہم صیہونیوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ایCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: گریڈ 22 میں ترقی اسلام ا باد
پڑھیں:
ججز طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں، جسٹس منصور کا عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا فرض ہے اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں اپنے فیصلے نے کہا کہ ججز اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں، اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے، بے وفائی نہیں۔
انہوں نے لکھا کہ ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، ججوں کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے، ججز کواندروانی اور بیرونی تمام تجاوزات کا مقابلہ کرنا ہے۔
فیصلہ کے مطابق ججز کو عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے کا خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججوں کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ایسے فوائد محض وہم اور عارضی ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اصول کے دفاع میں ثابت قدم رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جج کی فقہی وراثت خوشامد پر نہیں، اصولی انحراف پر استوار ہوتی ہے، جب انصاف کی روح کو خطرہ عدالتوں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں کو آئینی اخلاقیات کا مینارہ اور جمہوری سالمیت کے محافظ ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جو اپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں، تاریخ ایسے ججز کو ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ محض تنازعات کے حل کا فورم نہیں، سپریم کورٹ قوم کا آئینی ضمیر بھی ہے۔
Post Views: 2