اسرائیل کا حملہ ٹرمپ کی دھمکی، ایرانی قوم کسی کے آگے سر نہیں جھکاتی، بےرحم جواب ناگزیر ہے: علی خامنہ ای کا سخت ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلانیہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ “صہیونی دہشت گرد ریاست پر رحم کا وقت ختم ہوچکا” اور “سخت جواب دینا ناگزیر ہے”۔
آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ (سابق ٹوئٹر) پر دو اہم پیغامات میں کہا: “جنگ کا آغاز ہوچکا ہے” اور “صہیونی ریاست پر رحم نہیں کیا جائے گا”۔
یہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انتباہ کے بعد سامنے آئے جس میں انہوں نے کہا: “ہم جانتے ہیں خامنہ ای کہاں چھپے ہوئے ہیں، وہ آسان ہدف ہیں، مگر فی الحال ہم انہیں مارنے کا ارادہ نہیں رکھتے… لیکن ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے۔”
دوسری جانب خامنہ ای نے بدھ کے روز سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “ایران پر امن یا جنگ مسلط نہیں کی جا سکتی، اور ایرانی قوم کسی دھمکی کے آگے سر نہیں جھکاتی۔”
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب جمعہ کے روز اسرائیل نے ایران کے مختلف اہداف پر بمباری شروع کی تھی، اور امریکی صدر نے ایران سے “غیر مشروط سرنڈر” کا مطالبہ کیا تھا۔
خامنہ ای نے اسرائیل پر واضح کیا کہ: “اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے سنگین غلطی کی ہے، اور اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ: “جو لوگ ایران کی تاریخ اور قوم کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ دھمکیوں کا جواب ہم کیسے دیتے ہیں۔”
خامنہ ای کا یہ اعلان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایران کسی بھی ممکنہ امریکی یا اسرائیلی حملے کا بھرپور جواب دے گا، اور موجودہ کشیدگی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خامنہ ای نے
پڑھیں:
ایران میں رجیم چینج بڑی غلطی، حملہ تباہی لائے گا،میکرون کا ٹرمپ کو دوٹوک جواب
کاناناسکس(نیوز ڈیسک)فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایران کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ مؤقف پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فوجی کارروائی کے ذریعے ایران میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی گئی تو خطے میں تباہ کن افراتفری پھیل سکتی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا کے شہر کاناناسکس میں ہونے والے جی-7 اجلاس کے بعد میکرون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے سخت مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری معاہدے اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر مذاکرات شروع کیے جائیں۔
میکرون کا کہنا تھا، “ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں، مگر سب سے بڑی غلطی یہ ہوگی کہ ہم فوجی حملے کے ذریعے حکومت بدلنے کی کوشش کریں، کیونکہ اس کا انجام مکمل افراتفری ہوگا۔”
ٹرمپ کا سخت مؤقف
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف بیانات میں شدت لاتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا کہ امریکہ ایران سے “غیرمشروط ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کرتا ہے اور اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ٹرمپ نے میکرون کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ وہ جی-7 اجلاس سے ایران اسرائیل جنگ بندی کے لیے جلدی روانہ ہوئے تھے۔
اسرائیلی اور جرمن قیادت کا مؤقف
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو صدام حسین جیسا انجام بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح صدام کو 2003 میں ہٹایا گیا، ویسا ہی کچھ ایران میں بھی ہو سکتا ہے۔
ادھر جرمن چانسلر فریڈرک مرز نےکہا ہے کہ اسرائیلی فوج مغرب کے لیے “گھناؤناکام” کر رہی ہے، مگر اگر امریکہ نے حمایت نہ کی تو ایران کی زیرزمین تنصیب “فوردو” کو تباہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اگر ابھی اسرائیل کا ساتھ نہ دیا گیا تو اسرائیل ہتھیاروں کی کمی کا شکار ہوجائےگا۔
میکرون کا تاریخی حوالہ
میکرون نے عراق اور لیبیا میں امریکی مداخلت کے تباہ کن نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “کیا کسی کو لگتا ہے کہ عراق پر 2003 کا حملہ اچھا فیصلہ تھا؟ یا لیبیا میں کارروائی کامیاب رہی؟ نہیں!”
فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ خطے میں پہلے ہی بہت سے ممالک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، جن میں عراق اور لبنان شامل ہیں، اور انہیں مزید عدم استحکام نہیں بلکہ استحکام کی ضرورت ہے۔
مزیدپڑھیں:بھارت نے ایران کا ساتھ چھوڑ دیا