ڈکٹیٹروں کا پشتی بان امریکا اور ایک ادیب کی چشم کشا تقریر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
کچھ عرصہ قبل ممتاز شاعر احمد مشتاق نے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں بتایا کہ وہ بہت برسوں بعد ڈی ایچ لارنس کے مضامین کا مجموعہ ’اسٹڈیز ان کلاسیک امریکن لٹریچر‘ دوبارہ پڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کی سائیکی کو جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے کیوں کہ ان مضامین کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا آج دنیا میں کیا کرنا چاہ رہا ہے۔
احمد مشتاق نے لارنس کے طرزِ تحریر اور نثر کی بڑی تعریف کی، ان کے بقول ان مضامین کا انداز بے تکلف گفتگو جیسا ہے۔ انہوں نے ہرمن میلول کے ناول ’موبی ڈک‘ پر لارنس کے مضمون کی تعریف کی اور ہاتھورن کے ناول ’حرفِ سرخ‘ (سکارلیٹ لیٹر) سے متعلق مضمون کا تذکرہ کیا۔ احمد مشتاق نے ’حرفِ سرخ‘ پر لارنس کے مضمون کے جس حصے کا خاص طور حوالہ دیا اسے آپ ان کے عزیز اور ذی علم دوست مظفر علی سیّد کے ترجمے کی صورت میں ملاحظہ کیجیے:
امریکیوں کا عمدی شعور، اتنا خوش شکل اور نرم کلام مگر تحتِ شعور اس قدر شیطانی۔ برباد کرو، برباد کرو، برباد کرو، تحتِ شعور گنگناتا رہتا ہے۔ پیار کرو، اور پیار کرو، پیار کرو اور پیار کرو، بالائی شعور اعلان کرتا رہتا ہے۔ اور دنیا صرف پیار کرو، پیار کرو کا اعلان سنتی ہے اور نیچے تحتِ شعور کی تباہ کن گنگناہٹ پر کان دھرنے سے انکار کرتی ہے، اس وقت تک کہ جب اسے سننا ہی پڑے۔ امریکا برباد کرنے پر مجبور ہے، یہی اس کی تقدیر ہے۔‘
(بحوالہ: فکشن، فن اور فلسفہ، ڈی ایچ لارنس کے منتخب مقالات: ترجمہ، توضیحات، تعارف: مظفر علی سید)
افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنے اعمال سے بار بار ڈی ایچ لارنس کی رائے درست ثابت کی ہے۔ لارنس کا یہ بیان علامہ اقبال کے اس مصرع کی یاد دلاتا ہے:
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
ڈی ایچ لارنس 1930 میں انتقال کر گئے تھے، اسی برس انگلینڈ میں ہیرلڈ پنٹر پیدا ہوئے جنہوں نے ڈراما نگار کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل کیا اور 2005 میں ادب کے نوبیل انعام کے حق دار ٹھہرے، نوبیل انعام ملنے کے موقعے پر انہوں نے بذریعہ ویڈیو جو تقریر کی اس میں امریکا کی ’برباد کرو، برباد کرو، برباد کرو‘ کی دیرینہ پالیسی کا تیاپانچہ کیا تھا۔ اس میں انہوں نے عراق پر امریکی حملے کے خلاف اپنا مؤقف بھرپور طریقے سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کی سفارت کاری کی سیاہ کاری پر روشنی ڈالی تھی جس سے ہم جمہوریت کے چیمپیئن اور انسانی حقوق کے علمبردار کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔
ہیرلڈ پنٹر نے ایک بڑے پلیٹ فارم کو سپر پاور کی چیرہ دستیاں بیان کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس صورت حال میں ادیب کے کردار کو بھی زیر بحث لائے۔ اس تقریر میں انہوں نے تھوڑا ذکر اپنے ڈراموں کا بھی کیا لیکن ان کی گفتگو کا محور امریکا کی دراز دستیوں کی حقیقی تصویر پیش کرنے پر رہا تھا۔
ہیرلڈ پنٹر کی یہ چشم کشا تقریر میں نے 2009 میں کراچی سے شائع ہونے والے معتبر ادبی جریدے ’آج‘ میں پڑھی تھی۔ اس کا ترجمہ رسالے کے مدیر اور ممتاز مترجم اجمل کمال نے کیا ہے۔ اس تقریر کی ایک اور خاص بات پنٹر کی جرات رندانہ ہے اور اسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بے باکی ہر ادیب کے بس کا روگ نہیں ہے، موجودہ حالات پر قلم اٹھاتے ہوئے اسی تقریر سے روشنی اور روشنائی لی گئی ہے۔
آج ایران کو عراق بنانے اور اس کے سپریم لیڈر کو صدام حسین جیسے انجام تک پہنچانے کی باتیں کھلے بندوں ہو رہی ہیں، ایسے عزائم کی بازگشت سے ’رجیم چینج‘ کے بعد عراق کی بربادی کا تصور کرکے جی کانپ جاتا ہے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے اور عظیم تہذیبی ورثہ خاکستر ہو گیا تھا۔
ایک بار پھر جمہوریت کے نام پر ’رجیم چینج‘ کا سفاکانہ کھیل رچانے کی خبریں گردش کررہی ہیں اور ’اہل جمہوریت‘ کو شاہ ایران کا ساواک زدہ ’جمہوری‘ دور بھی یاد آنے لگا ہے۔ ایک طرف ایران کو ’آزاد‘ کرانے کے نام پر برسائے گئے بموں کا دھواں ہے تو دوسری طرف ’پہلوی شہزادہ‘ تخت نشینی کے لیے لنگوٹ کس رہا ہے۔
گاؤدی دانشور اسرائیل اور امریکا کو ایران میں جمہوریت کی آخری امید قرار دے رہے ہیں۔ حملے کی زد میں آئے ایران میں انسانی حقوق کی پامالی انہیں رہ رہ کر یاد آتی ہے لیکن اس مناسبت سے حملہ آوروں کے ’قابلِ رشک‘ ریکارڈ کی طرف وہ نگاہِ غلط انداز بھی نہیں ڈالتے۔ یہ جمہوری نابغے ’رجیم چینج‘ کے قبیح سیاسی عمل کو بھی روا جانتے ہیں۔ اسرائیل کے مظالم کا قصہ طولانی ہے جس کی بدترین صورت ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں تک امریکا کی بات ہے تو جمہوریت کے’فروغ‘ کے لیے اس کی خدمات سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں جن میں ڈکٹیٹروں کی سرپرستی اور ان کے مظالم کی اعانت کے قصے متن اور حاشیے ہر جگہ بکھرے ہیں۔
اب ہم آجاتے ہیں ہیرلڈ پنٹر کی تقریر کے مندرجات کی طرف جس میں انہوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے دروغ کو فروغ دینے کی پالیسی کے بارے میں لکھا ہے۔ اس میں جھوٹ کی فرماں روائی ہوتی ہے اور سچ سے عوام کو دور رکھا جاتا ہے۔ وہ عراق پر حملے کے لیے تراشے گئے حیلوں کی بات کرتے ہیں۔ صدام حسین کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا کیا گیا تھا۔ اس کا القاعدہ سے رشتہ جوڑ کر اسے نائن الیون کی ذمہ داری میں شریک ٹھہرایا گیا اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت کرنے کے لیے کیسے کیسے ’ثبوت‘ فراہم کیے گئے، پنٹر کے خیال میں یہ پورا مقدمہ ہی جھوٹ پر قائم کیا گیا تھا۔
اس تقریر میں پنٹر کی تنقید کا رخ صرف امریکا کی جانب نہیں رہتا اور وہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ان کے بقول ’امریکا اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون یا تنقیدی اختلاف رائے کو، جو اسے بے طاقت اور غیر متعلق معلوم ہوتا ہے، دو کوڑی کا بھی نہیں گردانتا۔ اور اس کی ایک اپنی پالتو، میں میں کرتی بکری ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے، قابلِ رحم اور لدھڑ برطانیہ عظمٰی۔‘
اقوام متحدہ کی بے توقیری پر علامہ اقبال یاد آتے ہیں جنہوں نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں جو کہا تھا وہ اس کی جگہ لینے والے عالمی ادارے پر بھی صادق آتا ہے:
جمعیتِ اقوام
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبُرم نظر آتی ہے و لیکن
پِیرانِ کلیسا کی دُعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پِیرکِ افرنگ
اِبلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد شمس الرحمان فاروقی کو یہ نظم ان کے والد نے بچپن میں پڑھائی تھی اور وہ اسے مغربی استعمار کے بارے میں اپنے فہم کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ اس نظم میں بیان کردہ حقیقت کے بارے میں ان کا تبصرہ ان کی کتاب ’خورشید کا سامانِ سفر‘ میں شامل ہے جس کا یہ اقتباس حسبِ حال معلوم ہوتا ہے:
’یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی سچے ہیں جتنے اس وقت تھے جب اقبال نے انہیں قلمبند کیا تھا، فرق یہ ہے کہ نام بدل گیا ہے، آج کی یو این او بھی امریکا کے ہاتھ میں اسی طرح کٹھ پتلی ہے جس طرح کل کی جمعیت اقوام (League of Nations)مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں موم کی ناک جیسی تھی۔ فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے خلاف معمولی سے معمولی تجویز بھی ناکام ہو جاتی ہے کیوں کہ امریکا اپنا حقِ استرداد (veto) بے دھڑک استعمال کرتا ہے، اور اگر تجویز منظور بھی ہو جائے تو کون اس کی پروا کرتا ہے، امریکا کا سایہ اسرائیل کے سر پر ہے۔ عراق پر حملہ کرنا ہو تو اقوامِ متحدہ کچھ بھی کہتی رہے، امریکا اور اس کے ہمنوا من مانی کر گزرتے ہیں اور دنیا ٹک ٹک دیکھتی رہتی ہے۔‘
اب ہم دوبارہ امریکی حملے کے بارے میں پنٹر کی رائے سے رجوع کرتے ہیں جس میں ایسے لوگوں کے لیے شرم کا خاصا سامان ہے جو ایرانی عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ پنٹر کے بقول ’ہم نے عراقی عوام پر تشدد، کلسٹر بم، ڈپلیٹیڈ یورینیم، اندھا دھند قتل کی بے شمار وارداتیں، بربادی، ذلت اور موت نازل کی ہے اور اسے مشرقی وسطیٰ میں آزادی اور جمہوریت لانے کا نام دیتے ہیں۔‘
وہ بش اور بلئیر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سامنے پیش کرنے کا تقاضا کرتے ہیں جس کی بش نے تو نہیں البتہ بلئیر نے توثیق کی تھی لہٰذا وہ عدالت کو برے کے گھر کا پتا بھی بتاتے ہیں:
10، ڈاؤننگ اسٹریٹ، لندن
پنٹر ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں، ان کے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں ظلم و بربریت کی داستانیں دستاویزی صورت میں مرتب ہوئی ہیں لیکن ان کے بقول ’اسی عرصے میں امریکا نے جو جرائم کیے ان کو محض سرسری انداز سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ امریکا کے جرائم منظم، متواتر، پُرکینہ اور کسی پچھتاوے سے عاری ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے ان کے متعلق واقعی بات کی ہے۔‘
وہ امریکا کے طریقہ واردات کو بیان کرتے ہیں جس میں کسی ملک کو لاچار اور بے بس کر دینے کے بعد صورتِ حال جو رخ اختیار کرتی ہے اسی کے لیے ’جمہوریت کے دلدادگان‘ اتاولے ہو رہے ہیں:
’آپ کے اپنے دوست، فوج اور عظیم کارپویشنیں، اطمینان سے اقتدار پر قابض ہوں، تب آپ کیمرے کے سامنے جا کر کہتے ہیں کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔‘
امریکا کی سفاکی ظاہر کرنے کے لیے پنٹر نے نکارا گوا کی داستانِ الم کو منتخب کیا اور لندن میں امریکی سفارت خانے کے ایک اجلاس کا آنکھوں دیکھا احوال لکھا ہے جس میں وہ نکارا گوا کی طرف سے ایک وفد کے رکن تھے۔ اس وفد کے اہم ترین رکن ایک پادری جان مٹکاف تھے جنہوں نے امریکی سفارت کار سے نکارا گوا میں کونٹرا باغیوں کی حمایت سے دست کش ہونے کی استدعا کی تھی اور اس کی دلخراش وجہ کچھ یوں بیان کی تھی:
’سر! میں شمالی نکارا گوا میں ایک پیرش کا نگران ہوں، میرے پیرش کے ارکان نے ایک اسکول، ایک مرکزِ صحت اور ایک ثقافتی مرکز قائم کیا ہے، ہم امن سے رہتے آئے ہیں، چند ماہ پہلے ایک کونٹرا دستے نے پیرش پر حملہ کیا، انہوں نے سب کچھ تباہ کر ڈالا۔ اسکول، مرکزِ صحت، ثقافتی مرکز۔ انہوں نے انتہائی بہیمیت کے ساتھ نرسوں اور استانیوں کو ریپ کیا، ڈاکٹروں کے گلے کاٹے، انہوں نے وحشیوں کا سا برتاؤ کیا، براہِ کرم یہ مطالبہ کیجیے کہ امریکی حکومت اس صدمہ انگیز دہشتگرد کارروائی کی حمایت ترک کر دے۔‘
اس پر سرد مہر امریکی سفارت کار ریمنڈ سیٹز نے جواب دیا۔ ’میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، جنگ میں بے قصور لوگ ہمیشہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔‘
پنٹر نے بتایا ہے کہ صدر ریگن نے کہا تھا کہ کونٹرا امریکا کے فاؤنڈنگ فادرز کے مساوی اخلاقی مقام رکھتے ہیں، یہ پڑھ کر معاً ذہن میں آیا کہ ریگن نے ایسا ہی بلند درجہ افغان مجاہدین کو بھی عطا کیا تھا اور ہم نے بعد میں انہیں شدت پسندانہ کارروائیوں میں کونٹرا باغیوں کے برابر ہی پایا۔
پنٹر نے لکھا ہے کہ امریکا نے نکارا گوا میں سوموزا کی بہیمانہ آمریت کی 40 برس حمایت کی اور جب ساندینستا کی قیادت میں عوامی انقلاب نے اس کا تختہ الٹ دیا تو یہ امریکا کی برداشت سے باہر تھا۔ ساندینستا میں بھی خامیاں تھیں لیکن اس نے اپنے ملک کو بہتری کی راہ پر ڈال دیا تھا اور کئی ایسے فیصلے کیے جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی تھی۔ انہیں مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولت ملنے لگی، پولیو کا خاتمہ ہو گیا، عوام کے طرزِ زندگی میں یہ بہتری امریکا سے ہضم نہ ہوئی کہ مبادا ہمسایہ ملکوں میں سماجی اور معاشی انصاف کی خوشبو پھیلنے لگے سو اس نے وہی کیا جس کی اس سے توقع کی جاسکتی تھی:
’آخر کار امریکا نے ساندینستا حکومت کا خاتمہ کردیا، اس میں کچھ سال لگے اور خاصی مزاحمت ہوئی لیکن متواتر اقتصادی گھیراؤ اور 30 ہزار لوگوں کی ہلاکت نے انجام کار نکارا گوا کے عوام کی ہمت کو پست کر ڈالا، وہ ایک بار پھر تھکن اور غریبی کی زد میں آگئے۔ کیسینو ملک میں لوٹ آئے، مفت علاج اور مفت تعلیم ختم ہوگئی۔ بگ بزنس پوری طاقت سے عود کر آیا۔ ’جمہوریت‘ کی فتح ہوگئی۔‘
یہ ہے جمہوریت کی وہ نیلم پری جس کے امریکا کی بچھائی بساط پر ورود کے لیے عقل کے اندھے دانشور باؤلے ہو رہے ہیں۔
پنٹر نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ان ممالک کے فہرست پیش کی ہے جہاں امریکا نے فوجی آمریت کی حمایت کی یا مطلق العنان حکمران کی کھلی پشت پناہی کی، اس سلسلے کی ایک بدترین مثال چلی کی ہے جہاں اس نے 1973 میں جو ہولناکیاں نازل کیں پنٹر کے بقول ’ان کی کبھی تلافی نہیں ہوسکتی اور ان کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔‘
پنٹر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ امریکا کے جرائم صحیح معنوں میں دستاویز نہیں ہوتے لیکن میرے خیال میں اس کمی کی بہت حد تک تلافی تو ان کی اس تقریر سے ہو جاتی ہے جس میں انہوں نے امریکا کی شقاوتوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ 16 برس سے میں نے اس تقریرِ لاجواب کو سینت کر رکھا ہے اور جب کسی ’جمہوریت پسند‘ کو امریکا پرستی کا دورہ پڑتا ہے اس کا شافی علاج ہیرلڈ پنٹر کی اسی تقریر سے کرتا ہوں اور کئی مواقع پر یہ نسخہ مجرب ثابت ہوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ادیب امریکا ایران اسرائیل جنگ چشم کشا ڈکٹیٹر عراق غزہ محمودالحسن وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایران اسرائیل جنگ ڈکٹیٹر محمودالحسن وی نیوز میں انہوں نے ڈی ایچ لارنس ہے کہ امریکا کے بارے میں ہیرلڈ پنٹر جمہوریت کے نکارا گوا امریکا نے امریکا کی امریکا کے امریکا ا کرتے ہیں پیار کرو کی سفارت لارنس کے پنٹر کی رہے ہیں کرنے کے کے بقول کی بات اور اس کے بعد ہے اور کے لیے کو بھی
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-7
جاوید احمد خان
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کا نام لیے بغیر دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی حملے کی متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ پاکستان کے مطالبے پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مذمتی بیان برطانیہ اور فرانس نے تیار کیا۔ یہ بیان تمام 15 اراکین بشمول اسرائیل کے اتحادی امریکا کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ امریکا عام طور پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم قرارداد آتی ہے تو اس کو ویٹو کردیتا ہے لیکن اس بار سلامتی کونسل کی بیان کی حمایت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حملے میں ناراضی ظاہر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی حملہ یو این چارٹر اور قطر کی سلامتی کے خلاف قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے صرف قطر کو نہیں بلکہ عالمی امن کو نقصان پہنچایا ہے۔ سلامتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے کشیدگی میں کمی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، سلامتی کونسل کے بیان میں دوحا کو اہم ثالث قراردیا گیا جو اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات کے لیے امریکا اور مصر کے ساتھ کردار ادا کررہا ہے کونسل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ اور انسانی تکالیف کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہنگامی اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچنے والے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کونسل کی حمایت کا خیر مقدم کیا اور اپنے ملک کے ثالثی کردار کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
اس سے پہلے یہ بیان بھی نظر سے گزر چکا ہے کہ دوحا اب ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا لیکن اب سوچ تبدیل ہوگئی شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حملے کو پسند نہیں کیا۔ اسرائیل جو اس وقت بے نتھے کا بیل بنا ہوا ہے وہ جو چاہے کرتا پھرے کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس لیے کہ امریکا اس کی پشت پر ہے لیکن اسرائیل نے قطر میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی ہلے میں صاف کردینے کا فیصلہ کیا وہ الٹا اس کے گلے پڑگیا دوسرے لفظوں میں یہ بیک فائر ہوگیا۔ پہلی بات تو یہی کہ اسرائیل کا یہ کہنا کہ ہم نے امریکا کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کو اطلاع کردی تھی۔ کسی ہائر آفیشل کو اطلاع کردینے کا یہ مطلب کہاں سے ہوگیا کہ امریکی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا اور پھر اطلاع بھی حملے سے کچھ چند منٹ پہلے کی گئی اگر دو گھنٹے پہلے اطلاع دیتے تو خدشہ تھا کہ کہیں امریکا کی طرف سے قطر کے رہنمائوں کو مطلع کردیا جائے اور قطری حکام بروقت حماس رہنمائوں کو مطلع کرکے میٹنگ کینسل کروادیں یا اجلاس کی جگہ بروقت تبدیل کردی جائے۔ یعنی ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے۔ یہ بھی ہوجائے کہ ہم نے بروقت اطلاع کردی تھی اور حماس کی قیادت بچنے بھی نہ پائے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ واللہ خیرالمالکین اللہ بہترین چال چلنے والا ہے اسی کو ہم عام الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیںکہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت اس حملے سے کیسے بچ گئی۔ اسرائیل کے پا س ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ اپنے اہداف کے ٹھکانوں اور اس کی سرگرمیوں سے واقف رہتا ہے۔ دراصل موساد کے ایجنٹ پوری عرب دنیا کے ہر ملک کی جڑوں تک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایران میں پانچ لاکھ یہودی ہیں یہ سب تو موساد کے ایجنٹ تو نہیں ہوں گے لیکن ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ضرور ہوں گی۔ پھر دوحا اور سعودی عرب میں امریکی اسلحوں کے ذخائر اور امریکی اڈے ہیں ان میں پتا نہیں کتنے موساد کے ایجنٹ ہوں گے۔ ایران میں جن سائنسدانوں اور سینئر سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ اسرائیل نے تو اپنا بیس کیمپ ایران میں بنایا ہوا تھا اتنی بڑی تعداد میں موساد کے ایجنٹوں کا ہونا خود ایرانی حکومت کے لیے حیران کن تھا۔ بلکہ ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی کے ایک دفعہ ایران حکومت نے ایک کمیٹی بنائی کہ یہ کمیٹی ملک میں موساد کے ایجنٹوں کو تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے بعد میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ جس فرد کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا وہ خود موساد کا ایجنٹ ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں شروع میں ایرانی میزائل بے اثر جارہے تھے۔ اس لیے کہ حکومت ایران کو یہ شک ہوگیا کہ جہاں سے میزائل داغے جارہے ہیں وہیں کہیں موساد کے ایجنٹ نہ گھسے بیٹھے ہوں اس لیے جب ایران نے سمندر کے اندر سے میزائل مارے ان سے اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور وہ سیز فائر پر راضی ہوا۔
اسرائیل نے اپنے خفیہ نٹ ورک کے ذریعے ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا، اسی طرح اس نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ کو ان کے انتہائی محفوظ مقام پر شہید کیا، اسی طرح یحییٰ سنوار کو غزہ میں جنگ لڑتے ہوئے شہید کیا۔ اسرائیل کی کوشش یہ رہی ہے کہ حماس کی قیادت کو صاف کیا جائے تاکہ مذاکرات میں تاخیر ہو اسرائیل بظاہر تو دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں بادل نہ خواستہ شریک ہوتا رہا ہے لیکن وہ مذاکرات نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر میں حماس کی سینئر قیادت کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے تمام بین الاقوامی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے اس عمارت پر حملہ کردیا جہاں حماس کی قیادت جنگ بندی کے سلسلے میں امریکی تجاویز پر غور و خوض کے لیے جمع ہوئی تھی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حماس کے مرکزی رہنما اس حملے میں بچ کیسے گئے اس حوالے سے دو تھیوریز سامنے آرہی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما اور دیگر کی اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کی ٹیکنیک کو حماس کی قیادت سمجھ گئی اس لیے جب سارے رہنما جمع ہوگئے تو وہ عین وقت پر اپنے موبائل چھوڑ کر اس دوسری بلڈنگ میں چلے گئے جس کا راستہ اندر ہی سے تھا بعد میں دوسرے لوگ بھی جاتے لیکن اسی دوران حملہ ہوگیا چھے لوگ شہید ہوگئے، بقیہ حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے لیے گئے تھے اور اپنے موبائل وہیں چھوڑ گئے تھے کہ موبائل کی سم جگہ کی نشان دہی کے کام آتی ہے۔ بہرحال کوئی بھی اسٹوری ہو حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کا پروگرام ناکام ہوگیا لیکن ایک پہلو سے کامیابی بھی ملی کہ ساری توپوں کا رخ دوسری طرف ہوگیا اب او آئی سی کا اجلاس، عرب سربراہوں کا اجلاس اور دیگر اجلاس کی طرف سرگرمیاں ہوں گی اور اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ غزہ سٹی میں داخل ہوجائے گا اس ساری اسرائیلی کمینگی میں امریکا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ امریکا کی دوغلی پالیسی کا اندازہ لگائیے کے ٹرمپ ایک طرف تو قطر کے سربراہ کو فون کرکے دوحا کی حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروارہے ہیں اور دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملاقات کرکے کہہ رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اس کا مطلب ہے کل کو اسرئیل کسی اور عرب ملک پر حملہ کرسکتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
حماس کے سربراہ خلیل الحیا تو اس حملے بچ گئے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو جہاں بھی جائے گی قتل کردیں گے ان ہی کے ساتھ خالد مشعل بھی ہیں جو حماس کا اصل دماغ ہیں اسرئیل ان کا بہت پہلے سے جانی دشمن ہے۔
1997 میں یہ اردن میں حماس کی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے اور وہاں سے وہ اسرائیل کے خلاف پراکسی وار کی منصوبہ بندی کرتے تھے ایک دفعہ ایک ہوٹل میں ان کی میٹنگ تھی وہاں اسرائیل کے آٹھ کمانڈوز آئے چھے تو باہر کھڑے رہے دو اندر گئے اور خالد مشعل کے قریب جاکر ان کے کان میں کوئی ایسی دوا ڈالی کہ وہ کومے میں چلے گئے خالد مشعل کے گارڈز نے ان دونوں کمانڈوز کو پکڑلیا باقی چھے جو باہر تھے وہ بھاگ لیے یہ دونوں جیل چلے گئے۔ اب اسرائیل نے ان دونوں کمانڈوز کو چھڑانے کی بہت کوششیں کی اردن میں شاہ حسین کی حکومت تھی انہوں نے سخت ایکشن لیا اور کہا کہ ان دونوں کمانڈوز کو سخت سزا دی جائے گی اسرائیل نے امریکا سے اپروچ کیا اس وقت بل کلنٹن امریکا کے صدر تھے۔ شاہ حسین بھی ڈٹ گئے انہوں نے بل کلنٹن سے کہا اسرائیل اس کی اینٹی ڈوز لائے اور خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالے بالآخر اسرائیل کو بات ماننا پڑی اس وقت بھی نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے رکن تھے۔ اسرائیل کے ڈاکٹرز آئے اور انہوں نے اینٹی ڈوز لگا کر خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالا لیکن اس کے بعد بھی اردن نے کمانڈوز کو نہیں چھوڑا اور اسرائیل کی قید میں کئی سو فلسطینیوں کو جیل سے رہائی دلوائی پھر ان کمانڈوز کو چھوڑا گیا جب کوئی حکمران ڈٹ جائے تو بڑے بڑوں کو جھکنا پڑتا ہے۔