ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑے ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
اسرائیل ایک بار پھر جنگی ضوابط کو ازسرنو متعین کر رہا ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں تل ابیب نے ایران پر ایسے حملے کیے ہیں جن میں بین الاقوامی قوانین اور عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’اب 2 ہی راستے ہیں امن یا شدید تباہی‘، ٹرمپ نے ایران پر حملوں کے بعد قوم سے خطاب میں کیا کچھ کہا؟
ان حملوں کو ایران کی مبینہ جوہری سرگرمیوں کے خلاف پیشگی دفاع قرار دیا جا رہا ہے بالکل اسی انداز میں جیسے امریکا نے 2003 میں عراق پر حملے کے لیے جھوٹے ’مہلک ہتھیاروں‘ کا بہانہ تراشا تھا۔
چین امریکی و اسرائیلی بیانیے کو ایک خطرناک ’بیانیاتی جنگ‘ تصور کرتا ہے، جو وسیع تر فوجی تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔
چین کا سفارتی مؤقف اور اقوام متحدہ میں کردارچین نے اس حوالے سے واضح اور دوٹوک مؤقف اپنایا ہے۔ وزارت خارجہ نے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بار بار خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے اور خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے والے اقدامات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
چینی حکام نے سفارتی اور سیاسی حل پر زور دیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ موجودہ کشیدگی کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چینی سفیر فو کانگ نے اسرائیلی ’عسکری مہم جوئی‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غزہ میں جاری انسانی بحران سے جوڑا۔
اگرچہ انہوں نے امریکا کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے الفاظ میں واشنگٹن کو اسرائیلی جارحیت روکنے کی غیر اعلانیہ اپیل واضح تھی۔
دو الگ الگ فون کالز: ایران کے لیے ہمدردی، اسرائیل کے لیے تنقیداسی اختتامِ ہفتہ، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ایران اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی۔ ایران کے وزیر سید عباس عراقچی سے بات چیت کے دوران وانگ یی نے اسرائیلی حملوں کو ’غیر ذمے دارانہ‘ قرار دیا اور نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کو خطرناک نظیر سے تعبیر کیا جو اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روس اور چین کی ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت، تنازع کے سفارتی حل پر زور
دوسری طرف، اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار سے گفتگو میں وانگ یی نے نسبتاً نرم لیکن تنقیدی لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ عسکری اقدامات ترک کرے اور سفارت کاری کی طرف لوٹے۔
چین کا واضح مؤقف: فوجی کارروائی کا مخالف، ایران کے مؤقف کا حامیاس بحران کے تناظر میں چین نے اپنا مؤقف دوٹوک انداز میں پیش کیا کہ وہ جوہری تنازع کے فوجی حل کو مسترد کرتا ہے اور ایران کے پرامن جوہری توانائی کے حق کو تسلیم کرتا ہے، جیسا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں درج ہے۔
چین ہر اُس اقدام کی مخالفت کرتا ہے جو ایران کو جوہری ہتھیاروں کی طرف لے جائے، کیونکہ یہ نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے چینی وژن سے بھی متصادم ہوگا۔
2015 کا معاہدہ اور چین کی حالیہ سفارتی سرگرمیاںایران بارہا یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس نے 2015 کے مشترکہ جامع ایکشن پلان (JCPOA) کی حمایت کی تھی، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ انخلا کے بعد ناکام ہو گیا۔
اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آ چکے ہیں، خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وہ ایران کو ایک بار پھر دھمکانے کی پالیسی اختیار کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کی شمولیت پر چین کا سخت بیان، نتائج کیا ہوں گے؟
چین اور روس دونوں ہی ایسی یکطرفہ امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی سال مارچ میں، بیجنگ نے چین، ایران اور روس کے نائب وزرائے خارجہ کی سہ فریقی میٹنگ کی میزبانی کی، جس میں JCPOA کی بنیاد پر مسئلے کے پرامن حل کی حمایت اور ایران پر غیر قانونی پابندیوں کی مذمت کی گئی۔
ایران–چین تزویراتی تعلقات: فوائد، چیلنجز اور احتیاطچین کی ایران سے سفارتی حمایت، دونوں ممالک کے اسٹریٹجک اشتراک کا حصہ ہے۔ 2021 میں چین اور ایران نے 25 سالہ تعاون پر مبنی معاہدہ کیا جس میں تجارت، توانائی، دفاع، ٹیکنالوجی اور تعلیم سمیت کئی شعبے شامل ہیں۔
امریکا کی پابندیوں کے باوجود چین اب بھی ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور خام تیل خریدار ہے — جو ایران کی تیل برآمدات کا تقریباً 90 فیصد خریدتا ہے۔
دونوں ممالک نے روس کے ساتھ مل کر بحری مشقیں بھی کی ہیں۔ تاہم، یہ تعلقات مکمل ہم آہنگی سے خالی نہیں۔ ایران کو چین سے ٹھوس اقتصادی امداد اور جدید ٹیکنالوجی کی توقع ہے، جبکہ چین کو خطے میں استحکام اور وسائل تک محفوظ رسائی درکار ہے۔
احتیاط کی حدیں: چین کی ترجیحات اور تحفظاتایران پر چین کی حمایت غیر مشروط نہیں۔ اگر ایران آبنائے ہرمز بند کرے، جو دنیا کے 25 فیصد تیل اور ایک تہائی LNG کی ترسیل کا راستہ ہے، تو چین کے اقتصادی مفادات براہ راست خطرے میں ہوں گے۔
اسی طرح اگر ایران NPT سے علیحدگی اختیار کرتا ہے، تو چین کی کثیرالجہتی سفارتی پالیسی اور بین الاقوامی قانونی ضوابط کے لیے عزم کو چیلنج درپیش ہوگا۔
چین کھلے محاذ آرائی کا خواہاں نہیں۔ وہ دنیا میں ایک ذمے دار، سفارت کاری پر یقین رکھنے والی طاقت کے طور پر اپنا کردار پیش کرتا ہے، اور اسی تصور کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی مستحکم کر رہا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2023 کی صلح میں چین کی ثالثی ایک اہم سنگِ میل تھی، لیکن ایران پر اس کا اثر اب بھی محدود ہے۔
احتیاط یا کمزوری؟اب تک ایران نے اسرائیلی حملوں پر نسبتاً محتاط رویہ اپنایا ہے، شاید جنگ سے بچنے کی خاطر، مگر یہ احتیاط دشمنوں کو شہہ بھی دے سکتی ہے۔
مئی 2024 میں صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد ایران کی قیادت مغرب سے رابطے میں کچھ نرمی لائی، جس کے بعد اسرائیل نے حزب اللہ، حماس، شام اور ایرانی فضائی دفاع پر حملے تیز کر دیے۔
چین اور روس جیسے ممالک کے لیے، جو واشنگٹن سے اپنی کشمکش میں مصروف ہیں، یہ سبق واضح ہے کہ آج کے عالمی منظرنامے میں خاموشی اور تاخیر بعض اوقات مزاحمت سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
بشکریہ: رشیا ٹوڈے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار کا تعارفمضمون نگار لاڈسلاف زیمانیک، چائنا-سی ای ای انسٹیٹیوٹ کے غیر مقیم محقق ہیں اور روسی تھنک ٹینک ولادی ڈسکشن کلب کے ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ ان کی مہارت بین الاقوامی تعلقات، وسطی و مشرقی یورپ کی سیاست، اور چین کی خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔ وہ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چین کے اسٹریٹجک نقطہ نظر اور اس کے عالمی کردار پر جامع تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا ایران ٹرمپ چین رشیا ٹوڈے مشرق وسطیٰ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران چین بین الاقوامی اور ایران ایران پر ایران کی نے ایران ایران کے کرتا ہے میں چین اور روس ایران ا کے بعد چین کی کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی حملوں پر مودی حکومت کی خاموشی ہماری اخلاقی اور سفارتی روایات کے منافی ہے، سونیا گاندھی
سونیا گاندھی نے کہا کہ 13 جون 2025ء کو دنیا نے ایک بار پھر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کے خطرناک نتائج کا مشاہدہ کیا جب اسرائیل نے ایران اور اسکی خودمختاری کے خلاف شدید پریشان کن اور غیر قانونی حملہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کی سینیئر خاتون لیڈر سونیا گاندھی نے غزہ اور ایران پر اسرائیل کے حملے پر ہندوستان کی خاموشی پر سخت تنقید کی۔ ایک مضمون میں کانگریس کی سابق صدر نے نریندر مودی کی حکومت پر اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے پُرامن دو ملکی حل کے لئے ہندوستان کے اصولی عزم کو ترک کرنے کا الزام لگایا۔ سونیا گاندھی نے اپنے مضمون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو پر بھی تنقید کی۔ کانگریس کی لیڈر نے اپنے مضمون میں کہا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی پر بھارت کی خاموشی اور اب ایران کے خلاف بلا اشتعال بڑھتی ہوئی کشیدگی ہماری اخلاقی اور سفارتی روایات کو ترک کرنے کے مترادف ہے۔ سونیا گاندھی نے اسے اقدار کی سرنڈر بھی قرار دیا۔ سونیا گاندھی نے مزید کہا کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے، بھارت کو اس معاملے پر اپنا موقف واضح رکھنا چاہیئے۔ مغربی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے مذاکرات اور سفارتی راستہ استعمال کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس انسانی آفت کے پیش نظر نریندر مودی حکومت نے ایک پُرامن دو ریاستی حل کے لئے ہندوستان کی دیرینہ اور اصولی وابستگی کو عملی طور پر ترک کر دیا ہے جس میں ایک خودمختار، آزاد فلسطین کا تصور کیا گیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ باہمی سلامتی اور احترام کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ 13 جون 2025ء کو دنیا نے ایک بار پھر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کے خطرناک نتائج کا مشاہدہ کیا جب اسرائیل نے ایران اور اس کی خودمختاری کے خلاف شدید پریشان کن اور غیر قانونی حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس ایرانی سرزمین پر ان بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتی ہے۔ یہ ایک خطرناک اضافہ ہے جس کے سنگین علاقائی اور عالمی نتائج ہوں گے۔ اسرائیل کے بہت سے حالیہ اقدامات کی طرح، جس میں غزہ میں اس کی وحشیانہ اور غیر متناسب مہم بھی شامل ہے، یہ آپریشن شہریوں کی زندگیوں اور علاقائی استحکام کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ حملے عدم استحکام میں مزید اضافہ کریں گے اور جنگ کے لئے بیج تیار کریں گے۔
سونیا گاندھی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو کی قیادت میں موجودہ اسرائیلی قیادت کا امن کو نقصان پہنچانے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا ایک طویل اور بدقسمتی کا ریکارڈ ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ حیران کن نہیں ہے کہ نتن یاہو نے بات چیت کے بجائے کشیدگی کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے۔ امریکی صدر کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا 17 جون کا بیان جس میں انہوں نے اپنے ہی انٹیلی جنس چیف کے جائزے کو مسترد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے "بہت قریب" ہے انتہائی مایوس کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو حقائق پر مبنی ہو اور سفارت کاری سے چلتی ہو نہ کہ طاقت یا جھوٹ سے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران ہندوستان کا پرانا دوست ہے اور دونوں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔