WE News:
2025-09-21@03:39:31 GMT

ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑے ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑے ہے؟

اسرائیل ایک بار پھر جنگی ضوابط کو ازسرنو متعین کر رہا ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں تل ابیب نے ایران پر ایسے حملے کیے ہیں جن میں بین الاقوامی قوانین اور عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’اب 2 ہی راستے ہیں امن یا شدید تباہی‘، ٹرمپ نے ایران پر حملوں کے بعد قوم سے خطاب میں کیا کچھ کہا؟

ان حملوں کو ایران کی مبینہ جوہری سرگرمیوں کے خلاف پیشگی دفاع قرار دیا جا رہا ہے بالکل اسی انداز میں جیسے امریکا نے 2003 میں عراق پر حملے کے لیے جھوٹے ’مہلک ہتھیاروں‘ کا بہانہ تراشا تھا۔

چین امریکی و اسرائیلی بیانیے کو ایک خطرناک ’بیانیاتی جنگ‘ تصور کرتا ہے، جو وسیع تر فوجی تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔

چین کا سفارتی مؤقف اور اقوام متحدہ میں کردار

چین نے اس حوالے سے واضح اور دوٹوک مؤقف اپنایا ہے۔ وزارت خارجہ نے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بار بار خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے اور خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے والے اقدامات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔

چینی حکام نے سفارتی اور سیاسی حل پر زور دیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ موجودہ کشیدگی کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چینی سفیر فو کانگ نے اسرائیلی ’عسکری مہم جوئی‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غزہ میں جاری انسانی بحران سے جوڑا۔

اگرچہ انہوں نے امریکا کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے الفاظ میں واشنگٹن کو اسرائیلی جارحیت روکنے کی غیر اعلانیہ اپیل واضح تھی۔

دو الگ الگ فون کالز: ایران کے لیے ہمدردی، اسرائیل کے لیے تنقید

اسی اختتامِ ہفتہ، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ایران اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی۔ ایران کے وزیر سید عباس عراقچی سے بات چیت کے دوران وانگ یی نے اسرائیلی حملوں کو ’غیر ذمے دارانہ‘ قرار دیا اور نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کو خطرناک نظیر سے تعبیر کیا جو اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:روس اور چین کی ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت، تنازع کے سفارتی حل پر زور

دوسری طرف، اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار سے گفتگو میں وانگ یی نے نسبتاً نرم لیکن تنقیدی لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ عسکری اقدامات ترک کرے اور سفارت کاری کی طرف لوٹے۔

چین کا واضح مؤقف: فوجی کارروائی کا مخالف، ایران کے مؤقف کا حامی

اس بحران کے تناظر میں چین نے اپنا مؤقف دوٹوک انداز میں پیش کیا کہ وہ جوہری تنازع کے فوجی حل کو مسترد کرتا ہے اور ایران کے پرامن جوہری توانائی کے حق کو تسلیم کرتا ہے، جیسا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں درج ہے۔

چین ہر اُس اقدام کی مخالفت کرتا ہے جو ایران کو جوہری ہتھیاروں کی طرف لے جائے، کیونکہ یہ نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے چینی وژن سے بھی متصادم ہوگا۔

2015 کا معاہدہ اور چین کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں

ایران بارہا یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس نے 2015 کے مشترکہ جامع ایکشن پلان (JCPOA) کی حمایت کی تھی، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ انخلا کے بعد ناکام ہو گیا۔

اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آ چکے ہیں، خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وہ ایران کو ایک بار پھر دھمکانے کی پالیسی اختیار کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کی شمولیت پر چین کا سخت بیان، نتائج کیا ہوں گے؟

چین اور روس دونوں ہی ایسی یکطرفہ امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی سال مارچ میں، بیجنگ نے چین، ایران اور روس کے نائب وزرائے خارجہ کی سہ فریقی میٹنگ کی میزبانی کی، جس میں JCPOA کی بنیاد پر مسئلے کے پرامن حل کی حمایت اور ایران پر غیر قانونی پابندیوں کی مذمت کی گئی۔

ایرانچین تزویراتی تعلقات: فوائد، چیلنجز اور احتیاط

چین کی ایران سے سفارتی حمایت، دونوں ممالک کے اسٹریٹجک اشتراک کا حصہ ہے۔ 2021 میں چین اور ایران نے 25 سالہ تعاون پر مبنی معاہدہ کیا جس میں تجارت، توانائی، دفاع، ٹیکنالوجی اور تعلیم سمیت کئی شعبے شامل ہیں۔

امریکا کی پابندیوں کے باوجود چین اب بھی ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور خام تیل خریدار ہے — جو ایران کی تیل برآمدات کا تقریباً 90 فیصد خریدتا ہے۔

دونوں ممالک نے روس کے ساتھ مل کر بحری مشقیں بھی کی ہیں۔ تاہم، یہ تعلقات مکمل ہم آہنگی سے خالی نہیں۔ ایران کو چین سے ٹھوس اقتصادی امداد اور جدید ٹیکنالوجی کی توقع ہے، جبکہ چین کو خطے میں استحکام اور وسائل تک محفوظ رسائی درکار ہے۔

احتیاط کی حدیں: چین کی ترجیحات اور تحفظات

ایران پر چین کی حمایت غیر مشروط نہیں۔ اگر ایران آبنائے ہرمز بند کرے، جو دنیا کے 25 فیصد تیل اور ایک تہائی LNG کی ترسیل کا راستہ ہے، تو چین کے اقتصادی مفادات براہ راست خطرے میں ہوں گے۔

 اسی طرح اگر ایران NPT سے علیحدگی اختیار کرتا ہے، تو چین کی کثیرالجہتی سفارتی پالیسی اور بین الاقوامی قانونی ضوابط کے لیے عزم کو چیلنج درپیش ہوگا۔

چین کھلے محاذ آرائی کا خواہاں نہیں۔ وہ دنیا میں ایک ذمے دار، سفارت کاری پر یقین رکھنے والی طاقت کے طور پر اپنا کردار پیش کرتا ہے، اور اسی تصور کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی مستحکم کر رہا ہے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2023 کی صلح میں چین کی ثالثی ایک اہم سنگِ میل تھی، لیکن ایران پر اس کا اثر اب بھی محدود ہے۔

احتیاط یا کمزوری؟

اب تک ایران نے اسرائیلی حملوں پر نسبتاً محتاط رویہ اپنایا ہے، شاید جنگ سے بچنے کی خاطر، مگر یہ احتیاط دشمنوں کو شہہ بھی دے سکتی ہے۔

مئی 2024 میں صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد ایران کی قیادت مغرب سے رابطے میں کچھ نرمی لائی، جس کے بعد اسرائیل نے حزب اللہ، حماس، شام اور ایرانی فضائی دفاع پر حملے تیز کر دیے۔

چین اور روس جیسے ممالک کے لیے، جو واشنگٹن سے اپنی کشمکش میں مصروف ہیں، یہ سبق واضح ہے کہ آج کے عالمی منظرنامے میں خاموشی اور تاخیر بعض اوقات مزاحمت سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

بشکریہ: رشیا ٹوڈے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون نگار کا تعارف

مضمون نگار لاڈسلاف زیمانیک، چائنا-سی ای ای انسٹیٹیوٹ کے غیر مقیم محقق ہیں اور روسی تھنک ٹینک ولادی ڈسکشن کلب کے ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ ان کی مہارت بین الاقوامی تعلقات، وسطی و مشرقی یورپ کی سیاست، اور چین کی خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔ وہ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چین کے اسٹریٹجک نقطہ نظر اور اس کے عالمی کردار پر جامع تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران ٹرمپ چین رشیا ٹوڈے مشرق وسطیٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران چین بین الاقوامی اور ایران ایران پر ایران کی نے ایران ایران کے کرتا ہے میں چین اور روس ایران ا کے بعد چین کی کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی

چین، روس، الجزائر اور پاکستان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جنوبی کوریا اور گیانا نے اس پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سیرا لیون، سلووینیا، ڈنمارک، یونان، پاناما اور صومالیہ نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔  اسلام ٹائمز۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں میں توسیع کے خاتمے کے بارے میں قرارداد پر ووٹنگ کے لیے منعقد ہوا، اور مغربی ممالک کی جانب سے منفی ووٹ کی وجہ سے اس قرارداد کی منظوری جوہری معاہدے (JCPOA) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناکام ہوگئی۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، جمعہ کی سہ پہر سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران پر پابندیوں میں توسیع کے خاتمے کو جاری رکھنے کے حوالے سے ووٹنگ ہوئی۔ چین، روس، الجزائر اور پاکستان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جنوبی کوریا اور گیانا نے اس پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سیرا لیون، سلووینیا، ڈنمارک، یونان، پاناما اور صومالیہ نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے یورپی فریقوں کے ساتھ متعدد تعاملات اور مذاکرات اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے باوجود، تین ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایرانی عوام کے ساتھ اپنی دشمنی کو جاری رکھتے ہوئے، آج (جمعہ) "اسنیپ بیک" کے نام سے موسوم قرارداد کو ووٹنگ کے لیے پیش کی۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ ایران پر دباؤ بڑھانے پر اصرار کر رہا ہے، اور تین یورپی ممالک بھی واشنگٹن کی مکمل تابعداری اور بے عملی کے ذریعے عملی طور پر سفارت کاری کا راستہ مسدود کر رہے ہیں۔

اس طرح ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کا خاتمہ نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ اقدام تین یورپی ممالک کی جانب سے ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ایران نے گزشتہ مہینوں میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ وسیع تعاون کیا ہے اور قاہرہ معاہدے سمیت حالیہ مفاہمتوں کی ایجنسی نے مکمل طور پر توثیق کی ہے۔ اس اجلاس میں ہر ملک کے نمائندے نے اپنا موقف پیش کیا۔ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے نے کہا کہ جن ممالک نے ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں، انہیں ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے نے مزید کہا کہ ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے یورپی ٹرائیکا کا اقدام کسی قانونی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ روسی نمائندے نے زور دیا کہ یہ یورپ ہے، جو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں سفارتی عمل میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسی طرح اجلاس میں فرانسیسی نمائندے نے دعویٰ کیا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کے سفارتی حل کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران نے مجاز سطح سے 48 گنا زیادہ یورینیم افزودہ کیا ہے۔ چین کے نمائندے نے بھی ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خاتمے کے حق میں گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں جاری رکھنے سے بحران حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھیں، برجام اور قرارداد 2231 میں ہمارے اقدامات موجود ہیں اور ایران کو بھی اپنے وعدے پورے کرنے چاہیئں۔ امریکی نمائندے نے کہا کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ نے سلامتی کونسل کو ایران کی عدم تعمیل کے بارے میں رپورٹ دی، ایران نے برجام میں طے شدہ مقدار سے زیادہ افزودگی کی ہے۔ برطانوی نمائندے نے کہا کہ یورپی ٹرائیکا قانونی طور پر ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی پابند تھی۔

متعلقہ مضامین

  • دوحہ حملہ، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنیکی طرف ایک اور قدم
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • پابندیوں کی واپسی ہوئی تو ایران ان پر قابو پا لے گا، ایرانی صدر
  • مغربی کنارے میں فلسطینی نوجوانوں اور صیہونی قابض فوج کے درمیان مسلح تصادم
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
  • سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟
  • اسرائیلی فوجی و چینی پروفیسر کے درمیان غیر معمولی تلخ مکالمہ
  • یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
  • متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ