چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ساڑھے سولہ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط مغربی ایشیا میں واقع رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 17ویں اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے بڑے ملک ایران کی جغرافیائی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی سرحدیں دنیا کے سات اہم ممالک سے جڑی ہوئی ہیں جن میں ترکی‘ عراق‘ آذربائیجان‘ آرمینا‘ ترکمانستان‘ افغانستان اور پاکستان شامل ہیں اور اگر سمندری سرحد کی بات کی جائے تو کویت‘ سعودی عرب‘ بحرین‘ قطر‘ اومان اور متحدہ عرب امارات‘ ایران کے ساتھ متصل نظر آتے ہیں۔
ایران کی سب سے بڑی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ خلیج فارس اور خلیج اومان کے درمیان دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز جسے بین الاقوامی اصلاح میںHormuz Island یاHormuz Straitکے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے‘ ایران میں واقع ہے۔دنیا کی 20 فیصد تیل اور گیس کی فراہمی اسی آبی گزرگاہ سے ہوتی ہے۔
باسٹھ فیصد فارسی‘16 فیصد آذری‘ دس فیصد کردوں اور دیگر نسلوں پر مشتمل یہ خطہ ارضی تاریخی حوالے سے اپنے دامن میں ان گنت خوبیاں لئے اس وقت پوری دنیا کا مرکز نگاہ ہے۔
قارئین کرام‘ ہمیں اس بحث میں بالکل نہیں پڑنا کہ ماضی میں ایران کی حکمت عملی کس حد تک حقیقت پسندی پر مبنی تھی‘ ہمیں اس تنازعہ میں بھی پڑنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو کس حد تک اس تنازعہ میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کے فوائد اور نقصانات ہوں گے ۔ جس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ایرانی قیادت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایران نے معاشی ‘تعلیمی ‘ اقتصادی‘ معاشرتی ‘ سماجی اور اخلاقی میدان میں کس حد تک ترقی کی؟
ایران کی سیاسی لیڈر شپ ا ور برسر اقتدار رہنے والے زعماء کا ذہنی اور intellectual معیار کیا رہا ؟ کیا انہوں نے اقتدار حاصل کرکے اپنے جماعتی اور ذاتی سیاسی اور معاشی فوائد ’’ریاست کی گنگا‘‘ سے ہاتھ د ھو کر پورے کئے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بین الاقوامی سیاست میں ایران نے کس حد تک اپنی جگہ بنائی؟
یہ وہ سارے سوالات ہیں جو ہم سے جڑے ہیں ‘ نجانے یہ وقت ہے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں جب ایران اپنی تاریخ کے سب سے بڑے مشکل دوراہے پر کھڑاہے۔
مذکورہ بالا حوالوں سے اگر ایران کی ترقی کا نتیجہ نکالنا ہو تو راقم کو یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ بھلے ایران سے مختلف بنیادوں پر کسی کو ’’تعصب‘‘ کی بنیاد پر اختلاف ہو مگر اس بات کا اقرا کیے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔
قوم سازی میں ایران کی قیادت نے وہ کردار ادا کیاہے جو شائد جدید دور میں بے مثال ہے۔ بیک وقت دنیا کا ایک مثالی داخلی‘ معاشی اور سیاسی ڈھانچہ کھڑا کرنا اور بین الاقوامی محاذ پر د نیا کی بڑی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کاحوصلہ اور فن کمال ایران کی قیادت اور عوام ہی کا خاصا ہے جو پوری دنیا سے ایرانی قوم کو ممتاز کرتا ہے۔
اب آئیے ایران کی سفارت کاری اور بین الاقوامی جنگی حکمت عملی کی طرف‘ راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سٹرٹیجک سطح پر ایران نے ماضی قریب میں امریکہ اور اسرائیل کے خونی گٹھ جوڑ کو بہت ذہانت کے ساتھ Counter کیا ہے اور ان ممالک کے ساتھ موثر اور حیران کن پروکسی وار یعنی ’’غائبانہ جنگ‘‘ لڑ کر بین الاقوامی برادری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جی ہاں‘ فلسطین میں حماس‘ لبنان میں حزب اللہ‘ سیریا میں فاطمین بریگیڈ اور یمن میں حوثی بیک وقت اور ہمہ تن اسرائیل اور امریکہ کے خلاف برسر پیکار اور ایران کے بین الاقوامی اور جنگی مفادات کی بھرپور حفاظت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
قارئین کرام ‘راقم یہ بات ایک مرتبہ پھر دہرانے کی جسارت کر رہا ہے کہ کسی کو بھی ایران کی حکمت عملی سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ایران کی قیادت نے جو کچھ اپنی قوم کیلئے بہتر سمجھا وہ کر گزرے اور بہت کامیابی کے ساتھ ایران کو قوموں کی برادری میں وہ مقام دلوایا جو مسلم ممالک کیلئے قابل تقلید اور باعث عزم و ہمت ہے۔
راقم نے کبھی بھی نقطہ نظر سے اختلاف رائے رکھنے والے دوستوں کو نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کی اور یہی ایک ترقی یافتہ اور جدید معاشرے کا خاصا ہوا کرتا ہے۔
جب تک ہم ایک دوسرے کی بات سن کر اپنے نظریات ‘ خیالات اور اعمال پر نظرثانی نہیں کریں گے ‘ جہالت بدستور ہمارا مقدر بنی رہے گی اور پھر سماجی‘ معاشی اور انتظامی انصاف‘ میرے اور آپ کیلئے محض ایک سراب اور ناقابل تعبیر خواب ہی رہے گا‘ خیر موضوع نے رخ کسی اور طرف تبدیل کرلیا ‘ بات ہو رہی تھی ایران کی‘ نتائج کیانکلتے ہیں؟ کس کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس سے بالکل قطع نظر بظاہر اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا اور جو بات دیوار پر لکھی ہوئی ہے وہ یہ کہ اسرائیل نے نہ صرف حالیہ جنگ میں جارحیت میں پہل کرکے ایک فاش غلطی کی ہے بلکہ اسرائیلی اور امریکی قیادت ایک گھنائونے بین الاقوامی قاتل کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں‘ بہرحال اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں اور کھلی آنکھ کے ساتھ اپنے بھیانک مستقبل کو تصور میں لائیں کیونکہ ایران کی منظر کشی ان سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہی ہے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی میں ایران ایران نے ایران کی کی قیادت کس حد تک کے ساتھ نہیں کہ
پڑھیں:
کرپٹو کرنسی
وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اﷲ کا اس پر خصوصی کرم تھا‘ زمین تھی‘ جائیداد تھی ‘ سرمایہ تھا اوروسیع کاروبارتھے‘ وہ زندگی سے مطمئن تھا‘ وہ ایک بار شہر کے درمیان سے گزر رہا تھا‘ سامنے کوئی اجتماع تھا‘ اس کی گاڑی لوگوں کے درمیان پھنس گئی‘ اس نے نکلنے کی کوشش کی لیکن راستہ نہیں ملا لہٰذا رکنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سنا مولوی صاحب فرما رہے تھے‘ دنیا کا سارا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ آج تک کوئی شخص اپنی دولت اگلے جہان لے کر نہیں گیا‘ آپ کی جائیداد‘ آپ کی زمین‘ آپ کا بینک بیلنس اور آپ کا سارا جمع جتھا دنیا ہی میں رہ جائے گا اور تم اگلے جہان چلے جاؤ گے‘ وہ اس وقت فارغ تھا‘ فون کی بیٹری ڈیڈ تھی‘ گاڑی میں ڈرائیور کے سوا کوئی نہیں تھا‘ اس کے پاس پڑھنے کے لیے کوئی فائل بھی نہیں تھی لہٰذا اس نے مولوی صاحب کے الفاظ بڑے غور سے سنے اور سوچا‘ لوگ ہزاروں سال سے کہہ رہے ہیں دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ میں بھی یہی سوچتا ہوں اور یہ ہی سنتا ہوں۔
لیکن دنیا میں کوئی شخص تو ہو گا جواپنا مال اگلے جہاں لے گیا ہو‘ مجھے اسے تلاش کرنا چاہیے اور اگر دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تو پھر مجھے لیڈ لینی چاہیے‘ مجھے دنیا کا پہلا ایسا شخص بننا چاہیے جو اپنا پورا مال دوسری دنیا میں لے جائے گا‘ یہ خیال آنے کی دیر تھی اور بس وہ اپنا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔
اس نے منادی کرا دی اگر کوئی شخص مجھے دنیا کا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کا طریقہ بتا ئے گا تو میں اسے دس کروڑ روپے انعام دوں گا‘ یہ منادی عجیب تھی‘ دنیا میں آج تک کوئی ایسا اعلان نہیں ہوا تھا‘ لوگ اشتہار کو حیرت سے دیکھتے تھے اور پھر اشتہار دینے والے کو اور پھر ہنس کر آگے روانہ ہو جاتے تھے‘ اسے پورے ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے مال شفٹ کرنے کا طریقہ بتا سکے۔
اس نے انعام کی رقم بڑھانا شروع کر دی‘ رقم بڑھتے بڑھتے ایک ارب روپے تک پہنچ گئی‘ لوگوں نے اب آفر کو سیریس لینا شروع کر دیا‘ وہ آتے اور اسے دولت کو دوسرے جہاں شفٹ کرنے کا طریقہ بتاتے‘ کسی نے اسے ٹیرا کوٹا واریئرز بنانے کا مشورہ دیا اور کسی نے اہرام مصر جیسی عمارت تعمیر کرنے کی تجویز دے دی اور کسی نے اسے سونے کی قبر بنانے کا پلان دے دیا‘ وہ سنتا رہا لیکن اسے کوئی مشورہ جان دار محسوس نہ ہوا۔
اس کا کہنا تھا ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بادشاہ کو دنیا کا آٹھواں اور فرعونوں کو ساتواں عجوبہ بنانے کا کیا فائدہ ہوا؟ ان کا مال ڈاکو لوٹ کر لے گئے اور نعش عبرت کی مثال بن گئی‘ اس کا کہنا تھا اسے کوئی ٹھوس مشورہ چاہیے‘ لوگ کہتے تھے یہ ممکن نہیں‘ دنیا کا مال کبھی دوسرے جہاں شفٹ نہیں ہو سکتا‘ وہ یہ سن کر ہنستا تھا اور کہتا تھا 1968تک انسان چاند پر نہیں جا سکتا تھا‘ مریخ پر گاڑی نہیں اتاری جا سکتی تھی‘ انسان ہوا پر بیٹھ کر دنیا کے آخری کونے تک نہیں پہنچ سکتا تھا‘ فون پر بات نہیں ہو سکتی تھی اور ٹیلی ویژن کے ذریعے دور دراز کی سرگرمیاں لائیو نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔
ایک انسان کے گردے اور دل دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتے تھے‘ انسان کیمرے کے ذریعے دوسرے انسان کی ہڈیوں میں نہیں جھانک سکتا تھا اور انسان اپنی مرضی کا بچہ پیدا نہیں کر سکتا تھا‘ آج اگر یہ سب کچھ ممکن ہے تو پھر انسان اپنا مال دوسری دنیا میں کیوں نہیں لے جا سکتا؟ یہ اگر آج ناممکن ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے انسان نے ٹرائی ہی نہیں کیا‘ یہ اگر مریخ پر لینڈنگ کی طرح اس ناممکن کو بھی مشن بنا لے تو یہ اس میں بھی کام یاب ہو جائے گا‘ کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی‘ لوگ یہ سنتے تھے‘ اس کی منطق کی داد دیتے تھے لیکن اسے کوئی مشورہ نہیں دے پاتے تھے۔
وہ مایوس ہو گیا لیکن پھر ایک دن اس کے پاس ایک مجذوب آ گیا‘ آج مجذوبوں کا زمانہ نہیں ہے‘ لوگ اب بابوں اور درویشوں کے دور سے آگے نکل گئے ہیں‘ یہ جان گئے ہیں انسان جتنی معلومات کشف سے حاصل کر سکتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ معلومات اسے اس شخص کے فیس بک‘ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سے مل سکتی ہیں‘ آپ گوگل کر کے دنیا کے کسی بھی شخص کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں‘ بابے‘ درویش اور مجذوب خطوں اور اخباروں کے دور میں اچھے لگتے تھے.
آج کے ڈیجیٹل دور میں ان کی مارکیٹ ختم ہو چکی ہے لیکن اس نے سوچا میں نے اگر سائنس دانوں اور آئی ٹی کے ایکسپرٹس کی بکواس سن لی ہے تو پھر مجذوب کی سننے میں کیا حرج ہے چناں چہ اس نے اسے بھی اندر بلا لیا‘ مجذوب نے اسے دیکھا اور ہنس کر بولا یہ کوئی کام نہیں جسے تم زندگی کا مقصد بنا کر بیٹھے ہو‘ میں تمہیں دولت ٹرانسفر کرنے کا طریقہ چٹکی میں بتا سکتا ہوں‘ وہ ہما تن گوش ہو گیا.
مجذوب بولا لیکن طریقہ بتانے سے پہلے میں تم سے چند سوال پوچھوں گا تم نے اگر ان کا جواب دے دیا تو تمہیں خود بخود طریقہ سمجھ آ جائے گا‘ وہ غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ مجذوب نے پوچھا‘ تمہاری ساری دولت کس کرنسی میں ہے‘ وہ ہنس کر بولا ظاہر ہے پاکستانی روپوں میں ہے‘ مجذوب نے اگلا سوال کیا اگر تم اس دولت کا تھوڑا سا حصہ انگلینڈ میں خرچ کرنا چاہو تو کیا برطانیہ کے دکان دار تم سے پاکستانی روپے لے لیں گے‘ اس نے فوراً نفی میں سر ہلا کر جواب دیا نہیں‘ مجھے پہلے پاکستانی روپوں کو پاؤنڈ اسٹرلنگ میں تبدیل کرنا ہو گا اور میں پھر برطانیہ میں کوئی چیز خرید سکوں گا.
مجذوب نے قہقہہ لگایا اور پھر پوچھا اور اگر تمہیں امریکا میں جا کرکوئی چیز خریدنی پڑے تو کیا وہاں پاکستانی روپے اور پاؤنڈ اسٹرلنگ چلیں گے‘ اس نے جواب دیا نہیں مجھے وہاں بھی پہلے روپوں اور پاؤنڈز کو ڈالرز میں تبدیل کرنا ہو گا‘ مجذوب نے پوچھا اور تم نے اگر روس یا چین میں خریداری کرنی ہو تو؟ اس کا جواب تھا مجھے ظاہر ہے روپوں‘ ڈالرز اور پاؤنڈز کو یوآن اور روبل میں تبدیل کرنا ہو گا.
مجذوب ہنسا اور پھر بولا تم اگر دنیا میں ایک ملک کی دولت دوسرے ملک میں استعمال نہیں کر سکتے تو پھر تم اس دنیا کی دولت دوسری دنیا میں کیسے استعمال کرسکو گے؟ تم اگر اس دولت کو وہاں لے بھی جاؤ تو بھی یہ وہاں تمہارے کسی کام نہیں آئے گی‘کیوں؟ کیوں کہ وہاں کی کرنسی مختلف ہے چناں چہ تم اگر اپنی دولت دوسری دنیا میں شفٹ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اسے پہلے کنورٹ (تبدیل) کرنا ہو گا.
تمہیں اسے پہلے روپے‘ ڈالرز‘ پاؤنڈ‘ یوآن اور روبل کی طرح دوسری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کرنا ہو گا‘ یہ پھر ٹرانسفر بھی ہو جائے گی اور یہ وہاں تمہارے کسی کام بھی آسکے گی‘ بات اس کے دل کو لگی‘ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا‘ میں تمہاری منطق سے متفق ہوں‘ تمہاری بات میں جان ہے لیکن اب سوال یہ ہے دوسری دنیا کی کرنسی کیا ہے؟ مجذوب نے سنا اور قہقہہ لگا کر بولا‘ دوسری دنیا کی کرنسی کرپٹو ہے‘ یہ نظر نہیں آتی یہ صرف کھاتے میں درج ہوتی ہے اور آپ اس کھاتے کے ذریعے اسے اِدھر سے اُدھر شفٹ کرسکتے ہیں اور اسے دوسری دنیا میں انجوائے کرتے ہیں‘اس نے پوچھا اور اس دنیا کی کرنسی کا کیا نام ہے؟ مجذوب بولا‘ ہم عام زبان میں دوسری دنیا کی کرپٹو کرنسی کو نیکی کہتے ہیں‘ نیکی بٹ کوائن کی طرح ایک نام ہے‘اسے سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے ہم اپنے موجودہ اثاثوں‘ زمین جائیداد اور مال و دولت کو نیکی کی کرپٹو کرنسی میں تبدیل کیسے کر سکتے ہیں؟ مجذوب خاموش ہو گیا۔
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ اسے اس کی بات سمجھ آ رہی تھی‘ مجذوب رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا‘ آپ کے پاس جو کچھ ہے آپ بس اسے دوسروں کی بھلائی پر خرچ کر دیں‘ کسی بچے کی فیس ادا کردیں‘ کسی بچی کا جہیز بنا دیں‘ کسی مریض کا علاج کرا دیں‘ کسی بے گناہ کا مقدمہ لڑ لیں‘ کسی ضرورت مند کو اچھا مشورہ دے دیں‘ کسی کو راشن لے دیں‘ لوگوں کے چولہے جلانے کے لیے کوئی دکان‘ کوئی فیکٹری لگا لیں‘ بھوکوں کو کھانا کھلا دیں‘ پیاسوں کو پانی پلا دیا کریں‘ دکھی لوگوں کا دکھ سن لیا کریں‘ ناراض لوگوں کو مسکرا کر دیکھ لیا کریں‘ دھوپ میں جلتے پرندوں کے لیے پودے اور درخت لگا دیا کریں‘ لوگوں کے روزگار کا بندوبست کر دیا کریں‘ ناراض لوگوں میں صلح کرا دیا کریں اور اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دوسروں کے بارے میں پازیٹو سوچ لیا کریں‘ آپ کا مال آپ کا اثاثہ دوسری دنیا کی کرپٹومیں تبدیل ہو جائے گا اور آپ وہاں جا کر جو بھی خریدنا چاہیں گے آپ خرید سکیں گے‘ مجذوب خاموش ہو گیا‘ اسے اس کا جواب مل گیا‘ وہ اٹھا اور ایک ارب روپے کا چیک کاٹ کر مجذوب کے ہاتھ میں دے دیا‘ مجذوب نے چیک دیکھا‘چوما اور اسے واپس کر کے بولا‘ پلیز میری اس رقم کو بھی اگلے جہان کی کرپٹو کرنسی میں کنورٹ کرا دیں‘ یہ رقم میرے لیے بھی وہاں بے معنی ہو گی۔