Daily Ausaf:
2025-09-21@05:47:32 GMT

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

ساڑھے سولہ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط مغربی ایشیا میں واقع رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 17ویں اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے بڑے ملک ایران کی جغرافیائی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی سرحدیں دنیا کے سات اہم ممالک سے جڑی ہوئی ہیں جن میں ترکی‘ عراق‘ آذربائیجان‘ آرمینا‘ ترکمانستان‘ افغانستان اور پاکستان شامل ہیں اور اگر سمندری سرحد کی بات کی جائے تو کویت‘ سعودی عرب‘ بحرین‘ قطر‘ اومان اور متحدہ عرب امارات‘ ایران کے ساتھ متصل نظر آتے ہیں۔
ایران کی سب سے بڑی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ خلیج فارس اور خلیج اومان کے درمیان دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز جسے بین الاقوامی اصلاح میںHormuz Island یاHormuz Straitکے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے‘ ایران میں واقع ہے۔دنیا کی 20 فیصد تیل اور گیس کی فراہمی اسی آبی گزرگاہ سے ہوتی ہے۔
باسٹھ فیصد فارسی‘16 فیصد آذری‘ دس فیصد کردوں اور دیگر نسلوں پر مشتمل یہ خطہ ارضی تاریخی حوالے سے اپنے دامن میں ان گنت خوبیاں لئے اس وقت پوری دنیا کا مرکز نگاہ ہے۔
قارئین کرام‘ ہمیں اس بحث میں بالکل نہیں پڑنا کہ ماضی میں ایران کی حکمت عملی کس حد تک حقیقت پسندی پر مبنی تھی‘ ہمیں اس تنازعہ میں بھی پڑنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو کس حد تک اس تنازعہ میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کے فوائد اور نقصانات ہوں گے ۔ جس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ایرانی قیادت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایران نے معاشی ‘تعلیمی ‘ اقتصادی‘ معاشرتی ‘ سماجی اور اخلاقی میدان میں کس حد تک ترقی کی؟
ایران کی سیاسی لیڈر شپ ا ور برسر اقتدار رہنے والے زعماء کا ذہنی اور intellectual معیار کیا رہا ؟ کیا انہوں نے اقتدار حاصل کرکے اپنے جماعتی اور ذاتی سیاسی اور معاشی فوائد ’’ریاست کی گنگا‘‘ سے ہاتھ د ھو کر پورے کئے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بین الاقوامی سیاست میں ایران نے کس حد تک اپنی جگہ بنائی؟
یہ وہ سارے سوالات ہیں جو ہم سے جڑے ہیں ‘ نجانے یہ وقت ہے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں جب ایران اپنی تاریخ کے سب سے بڑے مشکل دوراہے پر کھڑاہے۔
مذکورہ بالا حوالوں سے اگر ایران کی ترقی کا نتیجہ نکالنا ہو تو راقم کو یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ بھلے ایران سے مختلف بنیادوں پر کسی کو ’’تعصب‘‘ کی بنیاد پر اختلاف ہو مگر اس بات کا اقرا کیے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔
قوم سازی میں ایران کی قیادت نے وہ کردار ادا کیاہے جو شائد جدید دور میں بے مثال ہے۔ بیک وقت دنیا کا ایک مثالی داخلی‘ معاشی اور سیاسی ڈھانچہ کھڑا کرنا اور بین الاقوامی محاذ پر د نیا کی بڑی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کاحوصلہ اور فن کمال ایران کی قیادت اور عوام ہی کا خاصا ہے جو پوری دنیا سے ایرانی قوم کو ممتاز کرتا ہے۔
اب آئیے ایران کی سفارت کاری اور بین الاقوامی جنگی حکمت عملی کی طرف‘ راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سٹرٹیجک سطح پر ایران نے ماضی قریب میں امریکہ اور اسرائیل کے خونی گٹھ جوڑ کو بہت ذہانت کے ساتھ Counter کیا ہے اور ان ممالک کے ساتھ موثر اور حیران کن پروکسی وار یعنی ’’غائبانہ جنگ‘‘ لڑ کر بین الاقوامی برادری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جی ہاں‘ فلسطین میں حماس‘ لبنان میں حزب اللہ‘ سیریا میں فاطمین بریگیڈ اور یمن میں حوثی بیک وقت اور ہمہ تن اسرائیل اور امریکہ کے خلاف برسر پیکار اور ایران کے بین الاقوامی اور جنگی مفادات کی بھرپور حفاظت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
قارئین کرام ‘راقم یہ بات ایک مرتبہ پھر دہرانے کی جسارت کر رہا ہے کہ کسی کو بھی ایران کی حکمت عملی سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ایران کی قیادت نے جو کچھ اپنی قوم کیلئے بہتر سمجھا وہ کر گزرے اور بہت کامیابی کے ساتھ ایران کو قوموں کی برادری میں وہ مقام دلوایا جو مسلم ممالک کیلئے قابل تقلید اور باعث عزم و ہمت ہے۔
راقم نے کبھی بھی نقطہ نظر سے اختلاف رائے رکھنے والے دوستوں کو نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کی اور یہی ایک ترقی یافتہ اور جدید معاشرے کا خاصا ہوا کرتا ہے۔
جب تک ہم ایک دوسرے کی بات سن کر اپنے نظریات ‘ خیالات اور اعمال پر نظرثانی نہیں کریں گے ‘ جہالت بدستور ہمارا مقدر بنی رہے گی اور پھر سماجی‘ معاشی اور انتظامی انصاف‘ میرے اور آپ کیلئے محض ایک سراب اور ناقابل تعبیر خواب ہی رہے گا‘ خیر موضوع نے رخ کسی اور طرف تبدیل کرلیا ‘ بات ہو رہی تھی ایران کی‘ نتائج کیانکلتے ہیں؟ کس کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس سے بالکل قطع نظر بظاہر اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا اور جو بات دیوار پر لکھی ہوئی ہے وہ یہ کہ اسرائیل نے نہ صرف حالیہ جنگ میں جارحیت میں پہل کرکے ایک فاش غلطی کی ہے بلکہ اسرائیلی اور امریکی قیادت ایک گھنائونے بین الاقوامی قاتل کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں‘ بہرحال اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں اور کھلی آنکھ کے ساتھ اپنے بھیانک مستقبل کو تصور میں لائیں کیونکہ ایران کی منظر کشی ان سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہی ہے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی میں ایران ایران نے ایران کی کی قیادت کس حد تک کے ساتھ نہیں کہ

پڑھیں:

حد سے بڑھتے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ایرانی صدر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران ( جسارت نیوز) ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ تہران کبھی بھی حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ایک بیان میں ایرانی صدر نے سلامتی کونسل میں پابندی ختم کرنے کی قرارداد مسترد ہونے پر ردعمل دیا اور کہا کہ ایران دوبارہ پابندیوں کی صورتحال کا مقابلہ کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے ذریعے راستہ روکا جا سکتا ہے لیکن دماغ اور خیالات راستے کھولتے اور بناتے ہیں، ہمارے پاس حالات بدلنے کی طاقت ہے۔مسعود پزشکیان نے مزید کہا کہ حملہ کرنے والے نہیں جانتے کہ نطنز کو انسانوں نے بنایا اور وہی اسے دوبارہ بنائیں گے، ایران کبھی بھی حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔

متعلقہ مضامین

  • حد سے بڑھتے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ایرانی صدر
  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • بجٹ خسارے کی کہانی
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، سید عباس عراقچی
  • پیجر حادثوں کے زخمی امید کی کلید، سچے عاشق، بصیرت کے چراغ، نور حیات، ہدایت کے مربی ہیں، شیخ نعیم قاسم
  • پیجر حادثوں کے زخمی امید کی کلید، سشے عاشق، بصیرت کے چراغ، نور حیات، ہدایت کے مربی ہیں، شیخ نعیم قاسم
  • اسنیپ بیک فعال ہو جائیگا، امانوئل میکرون
  • سعودی وزیر خارجہ کا ایران سے رابطہ، پاکستان کیساتھ معاہدے سے آگاہ کیا
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام