ایران کیخلاف امریکی جارحیت ہر دنیا چیخ اٹھی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر شدید کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ امریکا کی جانب سے ایران کی حساس جوہری تنصیبات پر براہ راست حملے کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
دنیا بھر کے کئی رہنماؤں، تنظیموں اور حکومتوں نے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس حملے نے نہ صرف خطے میں ایک نئی جنگ کے خطرے کو جنم دیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔
کئی ممالک نے اس اقدام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے عالمی امن کے لیے خطرناک پیش رفت قرار دیا ہے۔
کیوبا: انسانیت کو بحران میں دھکیلنے والا عمل
کیوبا کے صدر میگوئل دیاز کانیل نے امریکی بمباری کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ دنیا کو ایک ایسے بحران کی طرف دھکیل رہا ہے جس کے نتائج ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔
چلی: طاقت قانون کی خلاف ورزی کا جواز نہیں
چلی کے صدر نے سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ چلی اس امریکی حملے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ طاقتور ہونا کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دیتا، یہاں تک کہ اگر وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو۔
میکسیکو: کشیدگی کم کرنے کی اپیل
میکسیکو کی وزارتِ خارجہ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پرامن بقائے باہمی اور بات چیت کے ذریعے کشیدگی میں کمی کے حامی ہیں۔ ریاستوں کے درمیان امن ہماری اولین ترجیح ہے۔
وینزویلا: اسرائیلی ایما پر کارروائی کی مذمت
وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گل نے ٹیلیگرام پر کہا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کے کہنے پر کیا گیا، ہم اس وحشیانہ کارروائی کی سخت اور مکمل مذمت کرتے ہیں۔ ہم فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نیوزی لینڈ: مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال انتہائی نازک
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا ہے کہ ہم ایران پر حملے کو انتہائی تشویش ناک سمجھتے ہیں۔ ہم سفارتی حل کے حق میں ہیں اور تمام فریقین سے مکالمے کی طرف لوٹنے کی اپیل کرتے ہیں۔
آسٹریلیا: ایران کے پروگرام پر تحفظات، مگر جنگ نہیں
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کا جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، لیکن ہم کشیدگی میں کمی، بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیتے ہیں۔ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں۔
حماس کا ردعمل: شدید مذمت
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے مسلم دنیا پر جارحیت قرار دیا ہے۔
امریکا کے اس اچانک اور جارحانہ اقدام کے بعد مشرق وسطیٰ ایک بار پھر ممکنہ جنگ کی دہلیز پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی برادری کا عمومی رجحان سفارت کاری، بات چیت اور پرامن حل کی طرف ہے، جبکہ امریکا کا موقف اب تک جارحانہ اور یکطرفہ دکھائی دے رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین رخ اختیار کر سکتی ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: خلاف ورزی کہا ہے کہ دیا ہے
پڑھیں:
بھارت کے مشرق میں گہرائی تک حملہ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا بھارتی جارحیت پر دو ٹوک موٴقف سامنے آگیا
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بھارت کی ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں پاکستان کے ردعمل کے حوالے سے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ ہم اس بار بھارت میں مشرق سے آغاز کریں گے اور بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ بھی ہر جگہ مارے جا سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت، جو آپریشن سندور میں ناکامی اور عوام و اپوزیشن کی تنقید سے شدید دباوٴ میں ہے، نے اب ایک بار پھر آپریشن سندور 2 کے نام پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔
اس مہم میں فرضی دہشتگردوں اور بے بنیاد الزامات کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔
دی اکانومسٹ کے سوال پر کہ بھارت کی ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح الفاظ میں کہا کہ "ہم اس بار بھارت میں مشرق سے آغاز کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ بھی ہر جگہ مارے جا سکتے ہیں۔ یہ بیان ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا بھرپور اور موٴثر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارت کے مشرقی علاقے جیسے کولکتہ، جمشید پور، رانچی، بوکارو، راوٴرکیلا، بھوبنیشور اور پٹنہ اس کی معیشت کے اہم ترین مراکز ہیں۔ یہ علاقے صنعتی، تجارتی، توانائی، بندرگاہی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز ہیں اور بھارت کی اقتصادی قوت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
بھارت کے ان مشرقی علاقوں میں مودی کے پسندیدہ کھرب پتی گوتم ادانی اور مکیش امبانی کی مختلف بزنس کی مہنگی فیکٹریاں ہیں اور ٹیکنالوجی کے ڈیٹا سینٹرز ہیں جنکو اگر نقصان پہنچتا ہے تو ہندوستان کو دنوں میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوگا۔
اگر پاکستان کسی ممکنہ جنگ میں ان اقتصادی مراکز کو نشانہ بناتا ہے تو یہ محض سرحدی جھڑپ نہیں بلکہ بھارت کے اندر گہرائی تک حملہ تصور ہوگا۔
ایسا حملہ نہ صرف فوجی بلکہ معاشی و تزویراتی محاذ پر بھی بھارت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، جو دشمن کے حربی ارادوں کو مفلوج کر سکتا ہے۔
پاکستان کا موقف ہمیشہ دوٹوک اور اصولی رہا ہے کہ وہ ایک امن پسند ملک ہے، جو خطے نیٹ ریجنل سٹیبلائزر کے طور پر ابھرا ہے لیکن پاکستان کی امن کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے، دشمن کی کسی بھی جارحیت کا جواب معرکہ حق کے نتائج سے زیادہ سخت اور تکلیف دہ ہوگا۔