ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں نئی پیشرفت سامنے آئی ہے، تازہ ایرانی حملے میں پہلی بار ’خیبر شکن‘ تھرڈ جنریشن میزائلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف خطے میں تذویراتی طاقت کے توازن کو متاثر کرسکتے ہیں بلکہ اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے ایک نیا چیلنج بھی بن سکتے ہیں۔

’خیبر شکن‘ تھرڈ جنریشن میزائل: کیا ہے یہ ہتھیار؟

ایران نے 2022 میں ’خیبر شکن‘ میزائل متعارف کرایا تھا، جو ’ذوالفقار‘ کلاس میزائل کی جدید شکل ہے۔ اسے ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) نے ڈیزائن کیا، اور یہ میزائل ایران کے اس اعلان کا حصہ تھا جس میں ’غیر متقارن دفاع‘ کو ترجیح دی گئی ہے۔

’خیبر شکن‘ میزائل اہم خصوصیات:

رینج: 1,450 کلومیٹر تک
ایندھن: سالڈ فیول، یعنی مائع ایندھن کے برعکس فوری لانچ کی صلاحیت

ریڈار سے بچاؤ: جدید اسٹیلتھ کوٹنگ اور نچلی پرواز کے سبب رڈار کو چکمہ دینے کی صلاحیت

مار کی درستگی: GPS اور انرشیل نیویگیشن سسٹمز سے لیس، ہدف پر دقت کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت

مزید پڑھیں: ایران پر حملوں میں شراکت نہ اجازت اور نہ ہی سہولت دی گئی، پاکستان

وزن اور رفتار: ہلکا وزن ہونے کے باوجود مچ 4 سے مچ 5 تک کی رفتار

’خیبر شکن‘ میزائل کا اسٹریٹجک اثر

خیبر شکن میزائل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ایسے وقت میں تیار کیا گیا جب ایران پر عالمی پابندیاں عائد تھیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ میزائل خلیجی ریاستوں، اسرائیل، اور امریکی اڈوں تک رسائی رکھتا ہے، اور اگر اسرائیل پر حالیہ حملوں میں اس کا استعمال ہوا ہے تو یہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی میں ایک سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ میزائل دفاعی نظاموں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر اگر اسے ڈرونز اور دوسرے میزائلوں کے ساتھ مشترکہ حملے میں استعمال کیا جائے، جیسا کہ ایران نے اپریل اور جون کے حملوں میں کیا۔

بین الاقوامی ردعمل اور تذویراتی تشویش

امریکا اور اسرائیل میں دفاعی تھنک ٹینکس اس نئی صورتحال کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر ایران واقعی خیبر شکن میزائل استعمال کر چکا ہے تو اسرائیلی آئرن ڈوم اور ڈیویڈ سلنگ جیسے دفاعی نظاموں کے لیے یہ ایک سنجیدہ چیلنج بن سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران ایرانی جوہری تنصیبات جوہری تنصیبات خیبر شکن میزائل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران ایرانی جوہری تنصیبات جوہری تنصیبات کی صلاحیت

پڑھیں:

ڈیم، ڈیم، ڈیماکریسی ( حصہ دوم)

یہ تو تاریخ سے صاف صاف ثابت ہے کہ دور چاہے کوئی بھی رہا ہے، ملک کی بھی کوئی تخصیص نہیں، قوم ونسل تک بھی نہیں، جہاں جہاں جب بھی کوئی ’’حکومت‘‘ ہوتی ہے وہ اس محدود اشرافیہ میں سے ہوتی ہے، اس خطے میں پہلی بار ’’آریا‘‘کے نام سے جو خانہ بدوش آئے وہ بھی اقلیت میں تھے، اس کے بعد ایرانی، عرب، ترک، مغل جو بھی آئے اقلیت میں تھے، انگریز بھی اقلیت تھے اوراب جو حاکم اشرافیہ ہے، وہ بھی اقلیت میں ہوتی ہے۔

اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ سامنے دو اور دو چار جیسی بات ہے کہ اس میں اگر چار امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹ بھی چار ہزار ہوں تو ان میں اگر کوئی ایک ہزار ایک ووٹ لے تو کامیاب ہوتا ہے جب کہ ایک کم تین ہزار ووٹ اس کے مخالف پڑے ہوتے ہیں وہ سب گئے باڑ میں، اور ایک ہزار ایک آئے اقتدار میں۔ یہ اقلیت کی حکومت ہوتی یا نہیں۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور حکومت کرتے رہے ہیں، ان میں بہت کم حکومتوں کے کل ووٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہوں گے لیکن یہ وہی ایک ووٹ کی برتری کی حکومت اقلیت ہی کی حکومت ہوتی ہے، یہ جو ہمارے جدید تر بانی کے ’’طوطے‘‘ آئے ہیں اور مینڈیٹ، مین ڈیٹ کر رہے ہیں۔

ان میں کسی نے بھی کسی پچاسی فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہیں اور وہی سلسلہ چل رہا ہے کہ مخالف ووٹ تقسیم ہوئے اور بانی کی بے وقت ’’شہادت‘‘ بھی کام آئی، اگر اسے بے وقت شہید نہیں کیا گیا ہوتا اور وہ اپنی ٹرم پورا کرتا تو الیکشن میں لوگ اس پر تھو تھو کرتے کیوں کہ اس نے اوراس کی حکومت نے اور اس کی پارٹی نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔

خیر اندر کی گہری باتوں میں الجھے بغیر یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس ملک میں ہمیشہ اقلیت ہی حکومت کرتی رہی ہے، ایک بار سوئے اتفاق سے اکثریت چونکہ ناپسندیدہ تھی اس لیے ملک ہی کو توڑ کر اقلیت کو حکومت دی گئی۔ یہ اقلیت کا اکثریت پر حکومت کرنے، اس کی کمائی کھانے اور غلام بنانے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، یہ اس وقت سے ہے کہ جب کسی نامعلوم زمانے میں، کسی نامعلوم مقام پر اور کسی نامعلوم طریقے پر ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ یا جن وانس یا آدم وابلیس کا وہ واقعہ ہوا تھا جس میں ابلیس نے ’’میں‘‘ کا برتری کا دعویٰ کیا اور اس زمانے سے لے کرآج تک یہ دونوں یعنی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ دونوں ایک دوسرے کے مقابل چلے آرہے ہیں، ان کاپورا ’’شجرہ‘‘ کچھ یوں ہے ۔

 گوشت خور… سبزی خور

جن… انس

شکاری… زرعی

جانورپال… کاشت کار

صحرائی… مدنی

خانہ بدوش… بستی والا

ڈاکو… لٹنے والا

محافظ… آدمیہ

حکمران… محکوم

اشراف… عوام

بہت کچھ بدلا، نام بدلے، مقام بدلے، ہتھیار بدلے، طریقے بدلے، عقیدے بدلے، نظرئیے بدلے لیکن طبقے وہ ہیں جن میں سے ایک کے سر ے پر خاکی آدم اور دوسرے سرے پر ناری ابلیس کھڑا ہے۔ ناری اور خاکی کے آپ کچھ بھی معنی نکالیں لیکن ایک معنی یہ ہیں اور یہی معنی ثابت شدہ بھی ہیں کہ گوشت خور شکاری کو جب پتھرکا ہتھیار تراشتے ہوئے ’’آگ‘‘ جیسی انقلابی قوت ملی تو اس وقت آج کی ’’ایٹمی قوت‘‘ تھی اور اس پر برتری کا دعویٰ بھی ویسا ہی تھا جیسے آج کے ایٹمی ممالک کو ہے، اس کے مقابل سبزی خوروں کے پاس کچھ بھی نہ تھا چنانچہ گوشت خور ناریوں نے غلہ خور خاکیوں کو کوہستانی باغوں سے نکالنا شروع کیا، وہ کیا کرتے؟ کہ نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا، نہ جارح مزاج تھے، نہ لڑائی کی خوبو رکھتے تھے۔

 اس لیے وہی کیا جو کمزور لوگ کرتے ہیں، ہجرت کر کے نیچے کے میدانی علاقوں میں زراعت کار یا دوسرے معنی میں خاکی زمین زادے بنے، ان کی محنت رنگ لائی اور زمین سے رزق نکال کر خوشحال ہوگئے، پیچھے سے ظالم سنگدل اور مسلح ناری بھی اتر آئے جو اب جانور پال صحرائی اور خانہ بدوش بن چکے تھے۔ پھر ایک طویل زمانہ یوں گزرا کہ یہ وحشی خانہ بدوش صحرائی، زرعی اور مدنی لیکن غیرمسلح اور امن پسند کو لوٹ لیتے تھے، مقابلے میں خاکیوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ جنگ جویانہ مزاج رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ دیواریں بنا سکتے تھے۔ یہ طویل زمانہ گزرا تو ذہنی ارتقاء بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا چنانچہ لٹیرے نے سوچا لوٹ کر واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، ہتھیار لے کر ان کے سر پر کیوں نہ بیٹھا جائے چنانچہ اس نے اپنا نام بدل کر لٹیرے سے ’’محافظ‘‘ رکھ لیا اور گائے کو کھوہ کر کھانے کی بچائے چوہ کر کھانے لگا، یہی آج کی اشرافیہ ہے، حیرت انگیز طور پر اب بھی آتشی اور ناری پتھر تراشتے وقت جو آگ اسے ملی تھی وہ ہمیشہ اس کا ہتھیار رہی ہے۔

پتھر کے زمانے کے بعد، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے تیار ہوتے تھے پھر ’’لغت‘‘ بھی آگ تھی، بارودی ہتھیار بھی آگ تھے اور آج کے ایٹمی ہتھیار بھی آگ ہیں اور یہ ہمیشہ اشرافیہ کے قبضے میں رہتی ہے، اصل حکومت اب بھی آتشیں ہتھیاروں کے زور پر کی جاتی ہے، یہ جمہوریت، آئین، قانون وغیرہ صرف باتیں ہیں۔ یوں کہیے کہ ’’رادھا‘‘ آج بھی ان کے آنگن میں نچائی جاتی ہے جن کے پاس نومن تیل ہوتا ہے اور یہ تیل پچاسی فیصد کنوؤں سے یا کولہوؤں سے نکالا گیا ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • اسرائیل کی حمایت بند کرنے تک امریکا سے مذاکرات نہیںہونگے، ایران
  • ڈیم، ڈیم، ڈیماکریسی ( حصہ دوم)
  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • کس پہ اعتبار کیا؟