وفاقی بجٹ 2025-26 کا اقتصادی منظرنامہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
ملکی معیشت کو چلانے کے لیے کسی بھی حکومت کے پاس بنیادی طور پر دو طرح کی معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ ایک مانیٹری (زری پالیسی) اور دوسری مالیاتی (فسکل/بجٹ) پالیسی۔ ان معاشی پالیسیوں کے اہداف میں مہنگائی اور بے روزگاری کا کنٹرول، معاشی نمو میں اضافہ اور ادائیوں میں توازن کو درست سمت میںرکھنا جیسے اہداف شامل ہوتے ہیں۔ تاہم موجودہ دور میں مانیٹری پالیسی کا کردار صرف افراط زر (اinflation) کو کنٹرول کرنے تک محدود کردیا گیا ہے۔ لہٰذا اب فسکل پالیسی کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔
کیا موجودہ بجٹ برائے مالی سال 2025-26ان اہداف کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوگا؟ کیا یہ بجٹ غربت اور بے روزگاری میں کمی لائے گا؟ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کے بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کا تخمینہ 17,573بلین روپے ہے، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 1304بلین کم ہے۔ موجودہ بجٹ کی کل رقم میں سے (93%)16286بلین کے کرنٹ یا جاری اخراجات ہیں اور محض 1287(7%)کے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
جاری اخراجات کی بڑی مدات میں سود کی ادائی کی مد سب سے بڑی ہے جس میں کل بجٹ کا 8207(47%) بلین خرچ ہوگا۔ سود کی یہ رقم گذشتہ چار سالوں میں چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کی جانب سے صحت اور تعلیم پر خرچ ہونے والی کل رقم سے879 بلین روپے زیادہ ہے! سود کی اس کل رقم کا تقریباً 88% ملکی قرضوں پر ادا کیا جائے گا اور باقی 12%غیرملکی قرضوں کی ادائی کے لیے رکھا گیا ہے۔
سود کے بعد دوسری بڑی مد دفاعی اخراجات کی ہے جو کہ 15%ہیں کل بجٹ کا تاہم موجودہ حالات میں بھارت جیسے جنگی جنون میں مبتلا پڑوسی کی موجودگی میں یہ اخراجات ناگزیر ہیں۔ تیسری بڑی مد گرانٹ اور ٹرانسفر کی ہے جس کی مد میں مختص کی جانی والی رقم 1928بلین جو کہ 11%ہے کل بجٹ کا، اس رقم کا بڑا حصہ سوشل پروٹیکشن کے لیے رکھا گیا ہے جس میں722بلین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کیے جائیں گے۔ جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 21% زیادہ ہے۔
بجٹ کے اخراجات میں اگلی بڑی مد سبسڈی کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1186بلین جو کہ کل بجٹ کا 7% ہے ، جس کا 87% تقریباً 1032 بلین پاور سیکٹر کو دیا جائے گا۔ اس رقم میں کراچی الیکٹرک کے لیے 125بلین روپے ٹیرف کے فرق (Tariff Differential)کے نام پر رکھے گئے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایک طرف پاور سیکٹر کو اتنی بھاری سبسڈی عوامی مفاد کے نام پر اور دوسری طرف سولر پینل پر18% سیل ٹیکس جس کے باعث عوام جو سستی بجلی پیدا کرکے اپنے اخراجات کو کم کرنے میں کام یاب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے لیے شمسی آلات کی خریداری مزید مشکل ہوجائے گی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس ٹیکس سے حکومت محض 20ارب کمائے گی۔
وفاقی حکومت کے اخراجات کی مد میں پانچویں بڑی مد پینشن کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1055بلین جو کہ کل بجٹ کا 6%ہے، جس میں سے ملٹری پینشن 70% اور سویلن کی پینشن 23% ہے۔ اس کے بعد اگلی مد ہے وفاقی حکومت کے اخراجات، جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 971 بلین جو کہ کل بجٹ کا 5.
اخراجات کے بعد اگر آمدنی کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس محصولات (Taxes)کی مد میں متوقع آمدنی 14131بلین ہے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی متوقع آمدنی 5147 بلین ہے، جس میں سے 8206 بلین صوبوں کو ٹرانسفر کردیا جائے گا۔ یعنی وفاقی حکومت کے پاس ملکی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے صوبوں کا حصہ نکال کر بچ جانے والی رقم 11072بلین روپے ہوگی۔ محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تقریباً 48.8% براہ راست ٹیکس (Direct Taxes) ہیں اور 51.2% بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) ہیں۔
براہ راست محصولات کا بڑھتا ہوا حصہ خوش آئند ہے۔ تاہم بالواسطہ محصولات کا حصہ مزید کم ہونا چاہیے۔ خاص طور پر بنیادی ضرورت کی چیزوں پر اس کو کم کیا جائے۔ آمدنی کے دیگر ذرائع پر جیسے ریٹیلر اور ہول سیلر کے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے گذشتہ بجٹ میں کافی زور دیا گیا تھا، تاہم اس بار اس میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔
وفاقی بجٹ میں حکومت کی آمدنی 11072بلین روپے ہے۔ تاہم اخراجات 17573بلین کے ہیں، جس کے باعث خسارے کا تخمینہ 6501 بلین ہے۔ اس خسارے کا کچھ حصہ بیرونی آمدنی اور نج کاری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ تاہم بڑا حصہ تقریباً 97% قرضوں سے حاصل کیا جائے گا۔ یعنی آئندہ آنے والے سالوں میں ان قرضوں پر سود اور اصل رقم کی واپسی ایک بڑا چیلنج ہوگی ۔
ان اعدادوشمار کی روشنی میں اگر بجٹ کے اغراض ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ادائیوں میں توازن کو درست سمت میں رکھنے کے لیے حکومت کا اقدامات بہتر نظر آتے ہیں لیکن کیا یہ بجٹ غربت، مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے گا اور عام آدمی کے لیے اس میں کیا ہے تو اس بار حکومت نے کم ازکم تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، دوسری طرف کاربن لیوی کے نفاذ کے بعد پیٹرول 2.5 روپے فی لیٹر مہنگا ہوجائے گا۔
مڈل کلاس طبقہ جو ملکی آبادی کے بڑے حصہ پر مشتمل ہے۔ اس کے مسائل سستی رہائش، پانی اور بجلی کی فراہمی ہے جس کے لیے خاطر خواہ پالیسی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح انتہائی غریب اور پس ماندہ افراد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے پروگرام وقتی ضروریات کی فراہمی کے لیے تو ٹھیک ہوسکتے ہیں لیکن طویل مدت کے لیے ضروری ہے کے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ صنعتوں کی ترقی کے لیے مسابقت کو فروغ دیا جائے۔ امن و امان قائم کیا جائے۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا پائے دار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم بلین جو کہ کل بجٹ کا وفاقی حکومت کے ہے جس کے لیے بلین روپے ہونے والی کیا جائے کی ہے جس جائے گا گئے ہیں کے بعد بڑی مد
پڑھیں:
سپریم کورٹ: آرمڈ فورسز افسران کی سول سروس میں شمولیت، وفاقی حکومت سے جواب طلب
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمڈ فورسز کے افسران کے بغیر تحریری امتحان دیے سول سروس میں شامل ہونے کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سول سروس رولز 1956 کے سیکشن 3 پر وضاحت طلب کرلی ہے۔ عدالت نے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
درخواست گزار کے وکیل علی عظیم آفریدی نے مؤقف اختیار کیا کہ سویلین امیدواروں کو سی ایس ایس (Central Superior Services) میں شامل ہونے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کا تحریری امتحان اور انٹرویو دونوں مرحلے کامیابی سے مکمل کرنا ہوتے ہیں، جبکہ آرمڈ فورسز کے افسران کو صرف انٹرویو دینا پڑتا ہے، جو میرٹ کے اصول کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت نے عوام کا بڑا مطالبہ مان لیا، سولر پینلز پر سیلز ٹیکس میں کمی کا اعلان
وکیل نے دلائل دیے کہ یہاں تک کہ وہ امیدوار بھی جنہوں نے ایف پی ایس سی کے دیگر امتحانات کلیئر کر رکھے ہیں، انہیں بھی سی ایس ایس کے لیے تحریری امتحان سے گزرنا پڑتا ہے، جبکہ آرمڈ فورسز کے افسران کو رعایت دی جاتی ہے، جو مساوی مواقع کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو وکیل ہونے پر شرمندگی ہے؟ مزید ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ آرمڈ فورسز کے افسران کے سول سروس میں آنے سے آپ کے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟
مزید پڑھیں: ڈیفینس آف پاکستان اور ڈیفینس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں، جسٹس محمد علی مظہر
عدالت نے دلائل سننے کے بعد وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا کہ آرمڈ فورسز کے افسران کو اس رعایت کی قانونی حیثیت کیا ہے، اور آیا یہ اقدام آئین و قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ تاریخ پر مکمل تیاری کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرمڈ فورسز کے افسران جسٹس علی باقر نجفی سپریم کورٹ آف پاکستان سول سروس