Jasarat News:
2025-06-24@01:34:23 GMT

’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

میں: آج کے عنوان سے مجھے ماضی کے کئی ایسے واقعات یاد آرہے ہیں، جب ہم بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر ہم کبھی اپنے بیرونی آقائوں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کبھی اپنی بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
وہ: ایسا پہلی بار تو شاید سن ۴۸ء میں ہوا جب کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوکر مسلسل آگے بڑھتے گئے مگر بھارت اقوام متحدہ چلا گیا اور اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بس رک جائیں اب ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور اس کی جانب سے رائے شماری کا لولی پاپ دیے جانے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور جتنا کشمیر حاصل کرسکے وہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
میں: خیر اس وقت ہم بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ نو آزاد پاکستان کو نہ جنگی وسائل میسر تھے اور نہ ہی خاطر خواہ فوجی قوت۔ شاید دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برسوں گزرنے جانے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکی۔ اور اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہمیشہ کے لیے فائلوں، عرضیوں اور یادداشتوں کی نذر کردیا۔
وہ: اسی طرح سن ۶۲ء میں چین انڈیا جنگ کے موقع پر چین کے اشارہ دیے جانے کے باوجود پاکستان امریکا کے فریب میں آگیا جب اس نے کہا ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ امریکا بیچ میں پڑ کے اس مسئلے کو حل کرے گا اور یوں کشمیر حاصل کرنے کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر چین انڈیا جنگ کے خاتمے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو نام نہاد مذاکرات ہوئے وہ چائے بسکٹ کی پارٹیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تب پاکستان کو اپنی کم عقلی کا احساس ہوا تو جذبات اور غصے میں آکر انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کا آغاز کردیا جو ۶۵ء کی جنگ کا باعث بنا۔ ۷۱ء میں آدھا پاکستان گنوایا، ۹۰ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بے غیرتی کا طوق گلے میں لٹکا کر ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔
پھر روس کی افغانستان پر یلغار کے وقت ۸۰ء میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیا سے کہا کہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ مگر جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ ضرور کریں گے اور ہم نے خاموشی سے سرتسلیم خم کردیا۔ اور پھر نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے کورنش بجالانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ۹۹ء میں کارگل جنگ چھیڑ کر کشمیر حاصل کرنے کا ایک اور موقع ایک بار پھر کھودیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سر جھکا کر امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پیش ہوئے اور ہم نے ایک بار پھر ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ کا حکم سن کر سیکڑوں جانیں گنوائیں اور خاموشی کے ساتھ کارگل سے واپسی کی راہ لی۔
میں: میرے خیال سے کارگل سے پسپائی اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملک ایٹمی طاقت بن چکے تھے لہٰذا خطے کے لیے ایسی کوئی بھی جنگ شدید خطرناک ہوسکتی تھی۔
وہ: پاکستان بھارت کی دیرینہ چپقلش اور دشمنی کی وجہ سے یہ خطرہ تو اس خطے پر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا، لہٰذا مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور فوری حل از حد ضروری ہے۔ ورنہ ایک ملک اس مسئلے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھے گا اور دوسرا محض زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر سفارتی سطح پر چند بیانات دینے کے علاوہ کبھی کوئی پیش قدمی نہیں کرے گا۔ تمہیں یاد ہوگا ۲۰۱۹ء میں جب ہمیں ایک بار پھر کشمیرکے مسئلے پر آواز بلند کرنے اور آگے بڑھ کرکچھ کرنے کا موقع ملا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں Kashmir Hour منانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر پاکستانی اپنے گھر اور دفتر سے باہر آکر آدھے گھنٹہ احتجاج کرے گا۔ پر مشکل یہ تھی کہ ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے کیوں کہ بھارت کے اس اقدام سے ایک ماہ پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ امریکا میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے جس میں ٹرمپ نے انہیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس ممکنہ اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے جواب میں کچھ نہ کرنے کی ضمانت مانگی تھی اور کہا تھا کہ بھارت یہ ارادہ رکھتا ہے مگراس کے ردعمل میں آپ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے یعنی ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘۔ اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا۔
میں: تم آخر کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
وہ: ابھی گزشتہ ہفتے موجودہ آرمی چیف، وائٹ ہائوس میں مدعو تھے۔ جو بلاشبہ پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ جنگی سبقت کے تناظر میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ٹرمپ کے بیان نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقینا اس نے پاکستان کے قدمیں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن اس ملاقات نے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی، اور امریکا یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جنگی حوالے سے کوئی مدد کرے۔ یہ ظہرانہ شاید پاکستان کو یہی باور کرانے کے لیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف آپ ایران کی حمایت فقط سفارتی سطح تک محدود رکھیں گے اس سے زیادہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور ہم شاید برسوں سے اپنی اس روش پر اسی طرح قائم ہیں یعنی ہمارا جواب جی بہت بہتر کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور پھر اتنی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد کیا ہم امریکا کے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے۔
میں: لیکن یہ سب تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: نہیں میں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر صرف یہ خیال ظاہر کررہا ہوں، کیوں کہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے لیے جنگی برتری صرف اور صرف میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی مہارتوں پر منحصر ہے۔ لیکن ایک خیال پھر بھی ذہن میں باربار پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہم امریکا کے سامنے اتنی زبان کھولنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے کہ اگر آپ فلسطین اور ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلم کھلا سیاسی حمایت اور بے دریغ عسکری مدد کرسکتے ہیں تو پھر پاکستان اپنے مسلم برادر ملک ایران کے ساتھ صف آرا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
آپ کچھ بھی نہیں کریں گے جناب
بس وہی جو بھی ہم کہیں گے جناب
آپ ایسے ہی جی حضور رہیں
ساتھ ہم بھی یونہی رہیں گے جناب

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا پ کچھ نہیں کریں گے پاکستان کو کے خلاف ا بھی نہیں بھارت کے کے ساتھ کے لیے جنگ کے کے بعد

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اسحاق ڈار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استبول(خبرایجنسیاں) نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ترکیہ کے دارالحکومت استبول میں او آئی سی میں مقبوضہ کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیری کئی دہائیوں سے ان مظالم کا سامنا کررہے ہیں،کشمیر اور فلسطین کے عوام اپنے حقوق کے لیے جہدوجہد کررہے ہیں، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے، پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی۔نائب وزیراعظم ووزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت نے پہل گام واقعہ پر تحقیقات کے بجائے جارحیت کا راستہ اپنایا اور پاکستان پر بے بنیاد الزام لگا دیا،پاکستان بھارت کے خلاف جارحیت کا دفاع کررہا ہے ، پاکستان نے بھارت پر حملے کے دوران صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے حملوں کے دوران پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا کہ بھارت کے حملے سے شہری علاقوں میں مرد وخواتین اور بچے شہید ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ کریں تو 6 کے 6 دریا اپنی عوام کو دلوائیں گے، بلاول بھٹو زرداری
  • مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اسحاق ڈار
  • جے کے سی اوکے زیراہتمام مرزا محمد شفیق جرال کے اعزازمیں عشائیہ
  • مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مظالم، مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • مسئلہ کشمیر کا یو این کی قرارداد کے مطابق حل چاہتے ہیں: اسحاق ڈار
  • اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں، اسحاق ڈار
  • بول، او آئی سی میں مقبوضہ جموں و کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس
  • پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی، اسحاق ڈار
  • پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے: بھارتی وزیر داخلہ