’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میں: آج کے عنوان سے مجھے ماضی کے کئی ایسے واقعات یاد آرہے ہیں، جب ہم بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر ہم کبھی اپنے بیرونی آقائوں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کبھی اپنی بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
وہ: ایسا پہلی بار تو شاید سن ۴۸ء میں ہوا جب کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوکر مسلسل آگے بڑھتے گئے مگر بھارت اقوام متحدہ چلا گیا اور اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بس رک جائیں اب ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور اس کی جانب سے رائے شماری کا لولی پاپ دیے جانے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور جتنا کشمیر حاصل کرسکے وہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
میں: خیر اس وقت ہم بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ نو آزاد پاکستان کو نہ جنگی وسائل میسر تھے اور نہ ہی خاطر خواہ فوجی قوت۔ شاید دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برسوں گزرنے جانے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکی۔ اور اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہمیشہ کے لیے فائلوں، عرضیوں اور یادداشتوں کی نذر کردیا۔
وہ: اسی طرح سن ۶۲ء میں چین انڈیا جنگ کے موقع پر چین کے اشارہ دیے جانے کے باوجود پاکستان امریکا کے فریب میں آگیا جب اس نے کہا ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ امریکا بیچ میں پڑ کے اس مسئلے کو حل کرے گا اور یوں کشمیر حاصل کرنے کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر چین انڈیا جنگ کے خاتمے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو نام نہاد مذاکرات ہوئے وہ چائے بسکٹ کی پارٹیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تب پاکستان کو اپنی کم عقلی کا احساس ہوا تو جذبات اور غصے میں آکر انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کا آغاز کردیا جو ۶۵ء کی جنگ کا باعث بنا۔ ۷۱ء میں آدھا پاکستان گنوایا، ۹۰ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بے غیرتی کا طوق گلے میں لٹکا کر ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔
پھر روس کی افغانستان پر یلغار کے وقت ۸۰ء میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیا سے کہا کہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ مگر جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ ضرور کریں گے اور ہم نے خاموشی سے سرتسلیم خم کردیا۔ اور پھر نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے کورنش بجالانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ۹۹ء میں کارگل جنگ چھیڑ کر کشمیر حاصل کرنے کا ایک اور موقع ایک بار پھر کھودیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سر جھکا کر امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پیش ہوئے اور ہم نے ایک بار پھر ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ کا حکم سن کر سیکڑوں جانیں گنوائیں اور خاموشی کے ساتھ کارگل سے واپسی کی راہ لی۔
میں: میرے خیال سے کارگل سے پسپائی اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملک ایٹمی طاقت بن چکے تھے لہٰذا خطے کے لیے ایسی کوئی بھی جنگ شدید خطرناک ہوسکتی تھی۔
وہ: پاکستان بھارت کی دیرینہ چپقلش اور دشمنی کی وجہ سے یہ خطرہ تو اس خطے پر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا، لہٰذا مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور فوری حل از حد ضروری ہے۔ ورنہ ایک ملک اس مسئلے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھے گا اور دوسرا محض زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر سفارتی سطح پر چند بیانات دینے کے علاوہ کبھی کوئی پیش قدمی نہیں کرے گا۔ تمہیں یاد ہوگا ۲۰۱۹ء میں جب ہمیں ایک بار پھر کشمیرکے مسئلے پر آواز بلند کرنے اور آگے بڑھ کرکچھ کرنے کا موقع ملا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں Kashmir Hour منانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر پاکستانی اپنے گھر اور دفتر سے باہر آکر آدھے گھنٹہ احتجاج کرے گا۔ پر مشکل یہ تھی کہ ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے کیوں کہ بھارت کے اس اقدام سے ایک ماہ پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ امریکا میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے جس میں ٹرمپ نے انہیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس ممکنہ اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے جواب میں کچھ نہ کرنے کی ضمانت مانگی تھی اور کہا تھا کہ بھارت یہ ارادہ رکھتا ہے مگراس کے ردعمل میں آپ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے یعنی ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘۔ اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا۔
میں: تم آخر کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
وہ: ابھی گزشتہ ہفتے موجودہ آرمی چیف، وائٹ ہائوس میں مدعو تھے۔ جو بلاشبہ پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ جنگی سبقت کے تناظر میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ٹرمپ کے بیان نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقینا اس نے پاکستان کے قدمیں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن اس ملاقات نے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی، اور امریکا یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جنگی حوالے سے کوئی مدد کرے۔ یہ ظہرانہ شاید پاکستان کو یہی باور کرانے کے لیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف آپ ایران کی حمایت فقط سفارتی سطح تک محدود رکھیں گے اس سے زیادہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور ہم شاید برسوں سے اپنی اس روش پر اسی طرح قائم ہیں یعنی ہمارا جواب جی بہت بہتر کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور پھر اتنی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد کیا ہم امریکا کے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے۔
میں: لیکن یہ سب تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: نہیں میں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر صرف یہ خیال ظاہر کررہا ہوں، کیوں کہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے لیے جنگی برتری صرف اور صرف میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی مہارتوں پر منحصر ہے۔ لیکن ایک خیال پھر بھی ذہن میں باربار پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہم امریکا کے سامنے اتنی زبان کھولنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے کہ اگر آپ فلسطین اور ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلم کھلا سیاسی حمایت اور بے دریغ عسکری مدد کرسکتے ہیں تو پھر پاکستان اپنے مسلم برادر ملک ایران کے ساتھ صف آرا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
آپ کچھ بھی نہیں کریں گے جناب
بس وہی جو بھی ہم کہیں گے جناب
آپ ایسے ہی جی حضور رہیں
ساتھ ہم بھی یونہی رہیں گے جناب
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا پ کچھ نہیں کریں گے پاکستان کو کے خلاف ا بھی نہیں بھارت کے کے ساتھ کے لیے جنگ کے کے بعد
پڑھیں:
27ویں ترمیم عدلیہ پر حکومتی اجارہ داری کی کوشش ہے ،قبول نہیں کریں گے ٗ حافظ نعیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-01-16
کراچی(اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ادارہ نورِ حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر حکومتی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش ہے ، جماعت اسلامی 26ویں آئینی ترمیم کی طرح 27ویں آئینی ترمیم بھی ہر گز قبول نہیں کرے گی ۔ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم سمیت آزاد کشمیر میں خرید و فروخت کی سیاست نے عوام کا اعتماد متزلزل کردیا ہے۔26ویں ترمیم کو صرف جماعت اسلامی نے کلیتاً مسترد کیاکیونکہ اس نے عدلیہ کی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچایا۔ 27ویں ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں کا اختیار حکومت کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسی ترامیم آئین اور جمہوریت دونوں کے ساتھ کھلواڑ ہیں،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فرانزک آڈٹ کی ضرورت ہے، یہ پروگرام غربت مٹانے کے بجائے سیاسی ہتھکنڈوں کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر اس کا شفاف آڈٹ کیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔وزیر اعظم شہباز شریف کو ڈونلڈ ٹرمپ کی چاپلوسی کر کے پاکستان کا وقار مجروح کرنے کے بجائے پوچھنا چاہیے کہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کیوں کررہا ہے، پاکستانی فورسز کو اگر غزہ بھیجا گیا اور وہ حماس کے سامنے کھڑی ہو جائیں تو یہ کسی طور دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح میں پونے 2 فیصد اضافہ ہوگیا ہے، تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر آئی ٹی کورسز اور گریجویشن کو مفت کردیا جائے تو اگلے 5سے 7سال میں پاکستان اپنی آئی ٹی ایکسپورٹ میں انقلاب لا سکتا ہے۔ بیوروکریسی کے ہاؤس رینٹ میں 85 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کسان بدحالی کا شکار ہے، بڑے جاگیردار شوگر اور فلور ملز پر قابض ہیں۔ ملک میں اب چہروں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔21 تا 23 نومبر مینار پاکستان لاہور میں’’بدل دو نظام ‘‘کے عنوان سے عظیم الشان ’’اجتماعِ عام ‘‘منعقد کیا جائے گا۔اجتماع عام میں خواتین چارٹر، قراردادِ معیشت اور نظامِ ظلم کی تبدیلی کا عملی لائحہ عمل پیش کیا جائے گا۔یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا، جس میں خواتین کی شرکت بھی تاریخی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ڈمپرز، ٹرالرز اور ٹینکرز کی وجہ سے حادثات بڑھ گئے ہیں اور بعض عناصر ان حادثات کو لسانی رنگ دے کر شہر میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیںمگر اب عوام باشعور ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لسانیت نہیں افراد کا مسئلہ ہے۔ اہل کراچی نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو قومی و بلدیاتی انتخابات میں مسترد کردیا تھا، کراچی میں تباہی و بربادی کی ذمے دار وہی قوتیں ہیں جنہوں نے فارم 47 کے ذریعے انہیں دوبارہ مسلط کیا۔جماعت اسلامی لسانیت کی سیاست کو مسترد کرتی ہے،کراچی 40سال لسانی سیاست کا خمیازہ بھگت چکا ہے، جماعت اسلامی سندھ کے عوام کے ساتھ مل کر ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائے گی تاکہ لسانی دیواریں ٹوٹیں اور اتحاد ویکجہتی پیدا ہو۔سندھ حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے باعث ترقیاتی منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ شہر کی بڑی بڑی سڑکیں کھدی ہوئی ہیں، دھول مٹی اُڑ رہی ہے، سیوریج اور پانی کی لائنیں تباہ ہوچکی ہیں۔ جو منصوبے 2سال میں مکمل ہونے تھے وہ 8سے 10سال گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہورہے۔ بدانتظامی، کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبہ اہل کراچی کے لیے عذاب بن چکا ہے، کے فور منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار جبکہ ٹینکر مافیا کا راج قائم ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے کراچی کے 9ٹاؤنز میں محدود اختیارات اور وسائل کے باوجود بہترین انداز میں عوامی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر، پارکس، یوتھ سینٹرز، واٹر ہارویسٹنگ سسٹم، فری اوپن ائر جم ، اوپن وائی فائی ،ماڈل مارکیٹس، سرکاری اسکولوں کی تعمیر نو، ڈسپنسریز اور بیسک ہیلتھ یونٹس کی بہتری جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اوروہ کام انجام دے رہے ہیںجو دراصل میئر کے اختیارات میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جماعت اسلامی ای چالان کے خلاف ہے، حالانکہ ہم چالان کے نہیں بلکہ غلط طریقہ کار، ناقص نظام اور کرپشن زدہ منصوبوں کے خلاف ہیں۔ گزشتہ 9ماہ میں 50 ہزار گاڑیاں چھننے کے واقعات ہوچکے ہیں، کتنے واقعات کے مجرموں کو قانو ن کی گرفت میں لایا گیا ، سیف سٹی پروجیکٹ گزشتہ 12 سال سے تاخیر کا شکار ہے، قاتلوں اور اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑنے کے لیے تو کیمرے نصب نہیں کیے گئے لیکن ای چالان کے لیے فوری کیمرے لگا دیے گئے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث 50 لاکھ موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں،شہر کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، متبادل راستے موجود نہیں لیکن سندھ حکومت شہریوں پر بھاری چالان لگا رہی ہے۔جو چالان ملک کے دیگر حصوں میں 200 روپے کا ہے وہ کراچی میں 5000 روپے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فلسطینیوں کے حق اور آزادی کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ حماس ایک جائز فورس ہے جس نے پوری اُمت کا سر فخر سے بلند کیا اور جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ پاکستان میں اس کے دفاتر قائم کیے جانے چاہئیں۔اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود 250 فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ 8مسلم ممالک کے اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا جبکہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے۔پریس کانفرنس میںامیرکراچی منعم ظفر خان، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ، نائب امرا کراچی راجاعارف سلطان، محمد اسحاق خان، عبد الوہاب ،سیکرٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، ڈپٹی سیکرٹریز کراچی یونس بارائی، عبد الرزاق خان، جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری، پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کے سیکرٹری نجیب ایوبی، نائب صدر پبلک ایڈ عمران شاہد ودیگر بھی موجود تھے۔