حکومت کا 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت قائم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حکومت نے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت ایک نئی آئینی عدالت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ابتدائی طور پر 7 ججز ہوں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ قدم ملک کے عدالتی ڈھانچے میں بڑی اصلاحات کا حصہ ہے اور اس حوالے سے اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئینی عدالت کا تصور میثاقِ جمہوریت میں بھی موجود تھا جس پر 2006 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے دستخط کیے تھے، اور اب اسی تجویز کو دوبارہ بحال کیا جارہا ہے۔ مجوزہ منصوبے کے مطابق آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی جبکہ سپریم کورٹ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے۔ توقع ہے کہ جسٹس امین الدین خان آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس ہوں گے۔
آئینی عدالت کیلئے دو مقامات زیر غور ہیں، ایک تجویز یہ ہے کہ عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت میں قائم کی جائے جبکہ دوسرا اور زیادہ مضبوط امکان یہ ہے کہ اسے فیڈرل شریعت کورٹ کی عمارت میں قائم کیا جائے۔ آئینی عدالت کے 7 میں سے 5 ججز سپریم کورٹ بینچ سے لیے جائیں گے جبکہ دیگر ججز میں بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ کے ججز بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ عدالت صرف آئینی معاملات سے نمٹے گی جس سے سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہوگا اور آئینی تنازعات کے جلد فیصلے ممکن ہوں گے۔ ساتھ ہی دفاعی اصلاحات کے حصے کے طور پر “کمانڈر آف ڈیفنس فورسز” کا نیا عہدہ بھی تجویز کیا جارہا ہے تاکہ تینوں مسلح افواج کے درمیان بہتر رابطہ اور متحدہ کمانڈ قائم ہوسکے، جس کی وجہ حالیہ خطے میں پیدا ہونے والی جنگی صورتحال اور جدید جنگی تقاضے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئینی عدالت
پڑھیں:
عدالت کے اوپر نئی عدالت قائم کرنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے: بیرسٹر گوہر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی ٓئی) بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم خطرناک اور غیر ضروری قدم ہے، عدالت پر عدالت قائم کرنا آئین کی روح کے منافی ہے۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ آئین کی ایسی شقوں کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے جن سے صوبوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو، آئین میں واضح درج ہے کہ کسی صوبے کے حصے میں کمی نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ 2020 میں پی ٹی آئی حکومت کے دوران دسویں این ایف سی ایوارڈ پر کام مکمل ہوا تھا اور تمام صوبے اب گیارہویں ایوارڈ کے منتظر ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا گیا تھا کہ کسی صوبے کی منظوری کے بغیر نئی نہریں نہیں نکالی جائیں گی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ موجودہ حالات میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے، کیونکہ ملک اور عوام کے مفاد کو مقدم رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی ٓئی عمران خان نے تاحال اسلام آباد آنے کی کوئی ہدایت نہیں دی، جب وہ فیصلہ کریں گے تو آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔