محسن نقوی کی بطور چیئرمین پی سی بی تقرری کیخلاف درخواست ایک سال بعد سماعت کے لیے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ایک سال سے زائد عرصے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی کی تقرری کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی ہے، شہری محمد میثم کی درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کل یعنی بروز بدھ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کی تعینانی چیلنج، عدالت میں کیا سماعت ہوئی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ یعنی پی سی بی کے چیئرمین اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی تقرری کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت ایک سال، تین ماہ اور 20 دن بعد دوبارہ ہورہی ہے، واضح رہے کہ مذکورہ درخواست پر آخری سماعت گزشتہ برس 5 مارچ کو ہوئی تھی، جس میں فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ ،ایک سال تین ماہ اور 20 دن بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی کے تقرر کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر، ،قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر 25 جون کو کیس کی سماعت کریں گے،آخری سماعت گزشتہ برس پانچ مارچ کو ہوئی تھی جس میں نوٹس جاری کیے گئے تھے pic.
— Abdul Rauf Bazmi (@RaufBazmi) June 24, 2025
مقامی شہری کی جانب سے گزشتہ سال دائر درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی تھی، درخواست گزار کا موقف تھا کہ نگران وزیراعظم کے پاس پی سی بی چیئرمین مقرر کرنے کا آئینی اختیار نہیں، یہ حق صرف منتخب وزیراعظم کے پاس ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کچھ لوگوں کی خواہش ہے چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے استعفیٰ دے دوں، محسن نقوی
درخواست میں وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن، پی سی بی اور محسن نقوی کو فریق بنایا گیا عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نوٹس جاری کیے اور فریقین سے تحریری جواب طلب کیا گیا تھا، اب عدالت اس اہلیت کو دیکھے گی کہ آیا نگراں وزیراعظم کے پاس پی سی بی چیئرمین مقرر کرنے کا اختیار تھا یا نہیں۔
محسن نقوی کے وکلا کا موقف تھا کہ یہ معاملہ پالیسی اور انتظامی اختیار کے زمرے میں آتا ہے، جس میں قانونی طور پر کوئی آئینی خلاف ورزی نہیں ہوئی، ان کی تقرری ملکی قوانین کے دائرے میں ہے اور انتخابی حکومت کو اس پر عمل کا اختیار حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ پاکستان کرکٹ بورڈ جسٹس سرفراز ڈوگر چیف جسٹس محسن نقویذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ پاکستان کرکٹ بورڈ جسٹس سرفراز ڈوگر چیف جسٹس محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کی چیف جسٹس پی سی بی ایک سال کے لیے
پڑھیں:
جماعت اسلامی نے کراچی میں ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی
کراچی:جماعت اسلامی نے کراچی میں ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی۔
عثمان فاروق ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں اور مصنوعی ذہانت سے خودکار نظام کے تحت خلاف ورزی پر ای چالان بھیجے جارہے ہیں۔ خود کار نظام کے تحت گاڑی کے مالک کو چالان بھیجے جارہے ہیں، قطع نظر کہ گاڑی کون چلا رہا تھا یا خلاف ورزی کس نے کی؟۔
درخواست میں کہا گیا کہ سڑکوں کے انفراسٹرکچر، گاڑیوں کی ملکیت کی تصدیق اور روڈ سائن کی تنصیب کے بغیر ہی ای چالان کا نظام نافذ کردیا گیا۔ چالان کی رقم میں ہزار گنا تک اضافہ، لائسنس کی معطلی یا شناختی کارڈ بلاک کیا جانا غیر قانونی اقدام ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بہت سی گاڑیاں اوپن لیٹر پر چل رہی ہیں۔ ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں گاڑی کے پرانے مالکان کا ریکارڈ موجود ہے۔ محکمہ ایکسائز میں کرپشن کے باعث گاڑیوں کی ملکیت کی منتقلی بروقت نہیں کی جاتی۔ شہر کی سڑکوں پر نا زیبرا کراسنگ موجود ہے اور نا ہی اسپیڈ لمٹ کے سائن بورڈ موجود ہیں۔
درخواست میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ شہر کی خراب سڑکیں شہریوں کو متبادل یا غلط راستے اپنانے پر مجبور کرتی ہیں۔ بعض مقامات پر ترقیاتی منصوبوں کے باعث ٹریفک پولیس رانگ وے ٹریفک چلاتی ہے۔ کریم آباد انڈرپاس کئی برس سے ایسے ہی کھدا پڑا ہے، جہانگیر روڈ، نیو کراچی روڈ و دیگر انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں ای چالان اور بھاری جرمانے امتیاری سلوک ہے۔
جماعت اسلامی نے موقف اپنایا کہ معمولی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے نامناسب ہیں۔ موٹر سائیکل کی تیز رفتاری یا رانگ سائیڈ سفر کرنے پر کراچی میں جرمانہ 5 ہزار جبکہ لاہور میں 200 ہے۔ ای چالان کے نظام کا بنیاد مقصد صرف ریوینیو جمع کرنا ہے۔ وفاق کو 50 فیصد ریوینیو اور سندھ کو 95 فیصد ریوینیو جمع کرنے والے شہر کے لوگوں پر اضافی بوجھ امتیازی سلوک ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ شہر میں ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نا ہونے کے بارث کم آمدنی والے شہری موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ 30 سے 40 ہزار ماہانہ کمانے والے کس طرح اتنے بھاری جرمانے ادا کرسکتا ہے۔ چالان اور جرمانوں کو معطل کیا جائے۔ انفراسٹرکچر کے بغیر مصنوعی ذہانت کے چالان کے نظام کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ بھاری جرمانوں کو شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا جائے۔
درخواست دائر کرنے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے کہا کہ جماعت اسلامی کی جانب سے ای چالان کیخلاف درخواست دائر کی ہے۔ ای چالان کی شکل میں بھاری جرمانے شہریوں پر عائد کیے ہیں۔ ایک ہفتے میں 30 ہزار سے زائد شہریوں پر جرمانے کئے گئے۔ شہریوں پر بھاری جرمانے ریاست کی نااہلی ہے۔ آرٹیکل 9 کے تحت ریاست شہریوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ ریاست شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ شہر میں ٹوٹی سڑکیں، زیبرا کراسنگ، حد رفتار یا سائن بورڈ نہیں ہیں۔ ریاست اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کو تیار نہیں ہے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ ریاستی نااہلی کا ہرجانہ شہریوں کو بھاری جرمانے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ای چالان کے نام پر موٹر سائیکل سوار پر کو 5 ہزار جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ دیگر شہروں میں ایسا چالان 200 روپے ہے۔ معاشی حب میں شہریوں کو معیاری سڑکیں اور ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی 17 برس میں صرف 3 سو بسیں لیکر آئے۔ ساڑھے 3 کروڑ کی آبادی کے شہر میں ایک ہزار بسیں ناکافی ہیں۔ شہر میں کوئی ریپڈ ٹرانزٹ نظام موجود نہیں۔ گرین لائن نامکمل، ریڈ لائن ڈیڈ لائن بنی ہے، ای چالان کا نظام فوری طور پر نافذ کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں حادثات میں 7 سو 28 شہری جاں بحق ہوئے۔ 2 سو 25 شہری ہیوی ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ کیا شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ ہیوی ٹرانسپورٹ شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ٹینکرز 24 چوبیس گھنٹے چلتے ہیں۔ تمام ٹیکس وصولی کے باوجود شہریوں کو سہولیات نہیں دے رہے۔ عدالت سے امید رکھتے ہیں کہ کراچی کے شہریوں کو ریلیف دیا جائے گا۔ ای چالان کی شکل میں شہریوں کی جیبوں پر ڈاکا نامنظور ہے۔ سب سے زیادہ ریوینیو دینے والا شہر کے ساتھ ایسا سلوک قابل قبول نہیں۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ شہریوں کو معافی مانگنے کا کہا جارہا ہے، آپ کیا سہولت دے رہے ہیں جو شہری معافی مانگیں۔ امتیازی سلوک قبول نہیں ہے۔ سڑکوں پر بھی احتجاج اور مزاحمت کریں گے اور ایوان میں بھی۔ نمبر پلیٹ کے نام پر دوبارہ رقم وصول کی گئی۔ کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھا ہوا ہے۔ موٹر وہیکل کے نام پر 60 ارب روپے جمع کئے گئے۔ یہ رقم کہاں گئی؟ یہ رقم انکی شاہ خرچیوں کے لئے نہیں ہے۔