جنگ تو ویسے بھی ایک ایسی سرگرمی ہے جس سے متعلق بس یہی بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کے نتائج کبھی بھی اسے شروع کرنے والے کی منشا کے مطابق نہیں نکلتے لیکن اگر جنگ ایسی ہو جس سے سپر طاقتوں کے مفادات بھی جڑے ہوں تو معاملہ اور بھی نازک ہوجاتا ہے۔ ایران روس کے لیے جیو اسٹریٹیجک اور چین کے لیے جیو اکنامک اہمیت رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے انقلابی ارباب اختیار کی وجہ سے وہ ہمارے لیے بھی جیو اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہاں سے انقلابی نظم کا بوریا بستر گول ہوجاتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسرائیل ہمارا پڑوسی ہوگیا کیوں کہ ایران محض امریکی کالونی نہیں بلکہ اسرائیل کا اڈا بھی بنتا۔
اگرچہ یورپی یونین اور او آئی سی نے بھی جنگ رکوانے کے لیے کچھ نمائشی سرگرمیاں کیں لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یورپ کو کھڈے لائن لگا کر غیر مؤثر کرچکے۔ سو یورپین وزرائے خارجہ کی جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ہونے والی ملاقات محض فوٹو سیشن ثابت ہوئی۔ اس پوری صورتحال میں ایران کی جانب سے مؤثر کردار صرف 3 ممالک کا تھا۔ وہی 3 ممالک جن کے لیے ملائی ایران اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ابھی چیزیں پردے میں ہی ہیں مگر پاکستانی حکام کی آنیاں جانیاں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ پاکستان کا کردار بہت ہی یونیک تھا۔ اس نے اپنا سارا وزن ایران کے حق میں ڈال رکھا تھا مگر یہ امریکا کے خلاف بات بھی نہیں کر رہا تھا اور اس سے ڈائریکٹ اوپن رابطوں میں رہا۔
یہ بھی پڑھیں: دیوار گریہ پر درج نوشتہ دیوار
جس کا مطلب ہے کہ ہم ایران کے حق میں فریق بھی تھے اور 3 سپر طاقتوں کے بیچ پل کا کردار بھی ادا کر رہے تھے۔ جس کی واضح علامت تب سامنے آئی جب فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکی صدر سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کی بجائے استنبول پہنچے جہاں او آئی سی وزرائے خارجہ کی میٹنگ چل رہی تھی۔ جنہیں نہیں معلوم ان کے لیے عرض کردیں کہ روس او آئی سی کا مبصر رکن ہے۔ سو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ او آئی سی والے ہلے گلے میں ہی عاصم منیر اور اسحاق ڈار کی پردوں کے پیچھے بعض اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اور یہیں سے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ماسکو روانہ ہوئے تھے جہاں وہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن سے ملے اور اس کے 48 گھنٹے بعد جنگ ختم تھی۔
کسی بھی جنگ سے متعلق دوران جنگ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مگر جب جنگ ختم ہوجائے تو پھر واقعات کا یہ تجزیہ ممکن ہوجاتا ہے کہ ہوا کیا؟ اور ہوا کیوں؟ سو اب ہم سب اسی لمحے میں کھڑے ہیں جہاں ان دونوں سوالات پر غور ہوسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں 2 میں سے کوئی ایک چیز تھی جو ہوئی۔ آیئے پہلے امکان اور اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر آپ غور کیجیے تو وسائل موجود ہونے کی صورت میں ایٹم بم بنانا اتنا بھی مشکل کام نہیں کہ ایران کو 30 سال لگ گئے مگر وہ تاحال ایٹم بم نہ بنا سکا۔ اس کے پاس بم کی عدم موجودگی ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ اسے بنانے کا پروگرام نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے 90 فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔ ایران کی تمام ایٹمی تنصیبات آئی اے ای اے کی نگرانی میں ہیں۔ اور اس کا مؤقف ہے کہ وہ 20 فیصد افزودگی (انرچمنٹ) سے اوپر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سو جب اس کی جوہری تنصیبات عالمی نگرانی میں ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا ایک نری بکواس ہے کہ یہ ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔
مزید پڑھیے: نو سرنڈر
اور یہی وہ نکتہ ہے جس ثابت ہوتا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکا و اسرائیل کا ٹارگٹ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ انقلابی نظم کا خاتمہ تھا۔اگر ہم واقعات کا جائزہ لیں تو وہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلا ایرانی ایٹمی تنصیبات پر کوئی غیر معمولی حملہ کرنے کی بجائے اس پاسداران انقلاب پر مہلک وار کرنا جو پورے انقلابی نظم کی نگہبان فورس ہے۔ اسرائیلی حملے کے پہلے اور دوسرے دن کے واقعات سے بالکل ہی واضح ہے کہ تنصیبات سے زیادہ ایرانی شخصیات پر فوکس تھا۔ عسکری شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے رسک تب ہی لیے جاتے ہیں جب کامیابی کا 100 فیصد یقین ہو۔ مگر 2 چیزوں نے اس یقین کو خاک میں ملا دیا۔
ایک یہ کہ انقلابی حواس باختہ نہ ہوئے اور انہوں نے محض چند گھنٹوں میں ہی سب کچھ کنٹرول کرلیا۔ دوسری یہ کہ امریکا اور اسرائیل کو یقین تھا کہ ایرانی لبرلز موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر آجائیں گے اور دارالحکومت پر عوامی قبضہ کرلیں گے۔ یاد کیجیے حملے کے دوسرے دن نیتن یاہو نے انہیں براہ راست مخاطب کرکے ابھارنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی تھی۔ مگر ایرانی لبرلز بالکل ہی غیر متوقع طور پر انقلابیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ اور اس حد تک کھڑے ہوئے کہ جوان لبرل لڑکیوں نے سروں پر اسکارف باندھ لیے۔ یہ ایرانی لبرلز کی طرف سے اعلان تھا کہ اگر انتخاب اسرائیل اور ایرانی انقلابیوں میں سے کسی ایک کا درپیش ہو تو پھر ہمیں ایرانی انقلاب ہی قبول ہے۔ کیونکہ جیسا بھی ہے اپنا تو ہے۔
چند ہی گھنٹوں میں صورتحال یہ ہوگئی کہ ایران مکمل متحد ہوکر اسرائیل پر ٹوٹ پڑا اور صرف چند ہی دن میں اس کا وہ بھرکس نکالا کہ ٹرمپ کے اوسان خطا کردیے۔ اور یہی وہ موقع تھا جب ٹرمپ نے یوٹرن لے کر بطاہر جنگ کی ذمہ داری قبول کرلی لیکن فی الحقیقت فوری طور پر اس صورتحال سے نکلنے کی راہ اختیار کرلی۔ اور یوں پاکستان کے توسط سے تینوں بڑی طاقتوں کے بیچ طے پایا کہ امریکا کو فیس سیونگ دی جائے۔ 3 ایرانی جوہری ٹھکانوں پر امریکا کی نام نہاد بمباری اور ایران کا جوابا قطر میں خالی امریکی ایئربیس پر حملہ فیس سیونگ کا ہی عمل تھا۔ جس کے چند گھنٹے بعد جنگ بندی بھی ہوچکی۔
مزید پڑھیں: کیا پنجابی قوم پرست بن سکتے ہیں؟
دوسرا امکان یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری ذہانت کے ساتھ نیتن یاہو اور اسرائیل دونوں کو بری طرح پٹوا دیا ہے۔ ظاہر ہے اس امکان کی بھی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ اپنی دوسری مدت صدارت کا حلف اٹھانے سے کچھ ہی ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے متعلق ممتاز امریکی پروفیسر جیفری سیچ کا ایک کلپ اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر ڈالا تھا۔ اس کلپ میں جیفری سیچ یہ ثابت کرتے نظر آتے ہیں کہ پچھلے 30 سالوں کے دوران مشرق وسطیٰ کے ہر فساد اور جنگ کے پیچھے نیتن یاہو کا ہاتھ ہے۔ اور یہ کہ نیتن یاہو امریکا کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کلپ میں جیفری سیچ نیتن یاہو کو ایک مشہور زمانہ مغربی گالی بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہے پہلا نکتہ۔ دوسرا نکتہ یہ کہ صدارت کا حلف اٹھانے سے 24 گھنٹے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے نیتن یاہو کا بازو مروڑ کر اس سے وہ سیز فائر کروا لیا تھا جس سے یہ مسلسل بھاگ رہا تھا۔ اور صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے ایک طرح سے غزہ کو اون کر لیا تھا۔ اگرچہ بظاہر ٹرمپ نے اسے خالی کرنے کی بات کی تھی مگر اس طرح کی کوئی خفیف سی بھی کوشش کی نہیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بس غزہ کی علامتی اونر شپ لے کر نیتن یاہو کے قتل عام کا راستہ روک رہے ہیں۔
مگر نیتن یاہو نے ثابت کیا کہ اس کا خمیر بھی اسی مٹی کا ہے جس سے بننے والی شے 100 سال تک بھی پائپ میں رکھی جائے، باہر آنے پر ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ نیتن یاہو نے غزہ میں قتل عام جاری رکھا بلکہ اپنی اس ضد میں بھی شدت لے آیا جو اس نے نے ایک سال سے اختیار کر رکھی تھی۔ یہی کہ ایران پر حملہ کرنا ہے۔ اور اب نیتن یاہو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اگر امریکا ساتھ نہیں دیتا تو کوئی بات نہیں۔ اسرائیل کلا ہی ٹارزن ہے۔ ہم اکیلے بھی مشن پورا کرسکتے ہیں۔ شاید یہی وہ موقع تھا جب ٹرمپ نے طے کیا ہو کہ چلو ایران کے ہاتھوں اس کی ناک سے لکیریں نکلوا دیتے ہیں۔ اس دوسرے امکان کو اس چیز سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ہاتھوں اسرائیل میں ہونے والی تباہی کا ایران سے رتی برابر بھی کوئی انتقام نہ لیا۔ وہ اس پر سیخ پا بھی نہیں۔ بلکہ الٹا جنگ بندی سے ایک روز قبل یہ طنز بھی کر ڈالا ہے۔
’اب اسرائیل پہلے سے زیادہ محفوظ ہے‘یہ 2 وہ امکانات ہیں جو پردوں میں چھپے ہیں۔ جلد ہی ان دونوں میں سے ایک ثابت ہوکر سامنے آجائے گا۔ تب تک انتظار کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
اس جنگ میں ایران کو تو ایک زبردست فتح حاصل ہوئی مگر ساتھ ہی ہم وہ دوسرا ملک ہیں جس کی گویا لاٹری نکلی۔ پہلے ایرانی فتح کی اہمیت سمجھتے ہیں۔ یہ اسرائیل کے ساتھ کسی مسلم ملک کی چوتھی جنگ تھی۔ پہلی تینوں جنگیں مسلمانوں کی شکست پر ختم ہوئی تھیں۔ لیکن اس چوتھی جنگ میں اسرائیل کو صرف شکست فاش نہیں ہوئی بلکہ دیوار گریہ اور اس کی ہر اسرائیلی بہن یہ گواہی دے رہی ہے کہ آج کی تاریخ میں اسرائیل شیشے کا وہ محل ہے جس کا کوئی کونہ کھدرا محفوظ نہیں۔ کسی باقاعدہ ملٹری طاقت سے یہ 2 ہفتے کی بھی جنگ لڑنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اسے مٹانے کے لیے اتنی سی حکمت عملی کافی ہے کہ 3 ہفتے اس پر میزائل داغے جائیں اور پھر گراؤنڈ فورسز داخل کردی جائیں۔ اب اسرائیل دنیا کا غیر محفوظ ترین ملک ہے۔
ایران اسرائیل جنگ میں ہماری لاٹری یوں نکلی کہ ایک مدت سے انڈیا براستہ ایران بلوچستان میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ انڈین ایجنسی را کو وہاں سے کھلا کھیل کھیلنے کا موقع فراہم تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہی را والا نیٹورک اس جنگ کے دوران خود اپنے میزبانوں کے خلاف موساد کا آلہ کار نکلا۔ اور اس حد تک نکلا کہ انڈیا دنیا کا واحد ملک تھا جس کے شہریوں کو ایران نے 48 گھنٹے میں ایران چھوڑنے کی وارننگ جاری کی۔ اور جنگ کے عین پہلے گھنٹے سے ہی پاکستان وہ واحد ملک ثابت ہوا جو ایران کے ساتھ اس مستعدی سے کھڑا ہوا کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستان سے اظہار تشکر پر مبنی نعرے لگوائے۔
یہ بھی پڑھیے: افغان تعصب
یوں اس جنگ کے نتیجے میں ایران پر واضح ہوچکا کہ اس کا دوست کون ہے، اور دشمن کون ؟۔ اب آنے والے دنوں میں ہم بلوچستان والے فتنے کا گلا بہت تیزی گھٹتے دیکھیں گے۔ بلوچستان کے دہشت گرد ہی نہیں ماہرنگ بلوچ جیسے کردار بھی کھڑے کھلوتے یتیم ہوگئے ہیں۔ اب جو یہاں ہیں ان سے ہم اور جو ایران میں ہیں ان سے پاسداران انقلاب نمٹ لے گی۔ یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔ جو ایرانی سرحد 50 سال سے ہمارے لیے درد سر تھی وہ اب چینی سرحد کے بعد دوسری سب سے زیادہ قابل اعتماد سرحد بنتی چلی جائے گی۔ اور یہ دونوں ملک انشاءاللہ ایک دوسرے کی قربت کا حقیقی لطف اٹھا پائیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران ایران اسرائیل تنازع پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ میں ایران نیتن یاہو او آئی سی ایران کے کہ ایران کے ساتھ رہا تھا نہیں کہ اور اس کے بعد تھا کہ ہیں کہ اور یہ جنگ کے کے لیے میں ہی
پڑھیں:
ایران کی جنگی حکمت عملی
امریکا نے ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کے بعد ایران نے اسرائیل پر بلاسٹک میزائیل چلائے ہیں۔امریکا کی بمباری کے بعد امریکا کا موقف ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے اسے مزید ایران پر حملوں کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ایران پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور جواب میں ایران بھی اسرائیل پر میزائل حملے کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی کے حملوں کے بعد بھی سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر امریکی حملے کامیاب رہے ہیں اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہوگیا ہے تو جنگ بند کیوں نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہی بتایا گیا تھا کہ جنگ ایران کے نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔
ایران نے امریکی بمباری کے بعد کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خطہ میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ لیکن ایران نے امریکی اڈو ں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ایران نے جواب میں اسرائیل پر ہی میزائیل چلائے ہیں۔ حالانکہ ایران نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا حملہ کرے گا تو امریکی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ اس کی براہ راست امریکا سے جنگ نہ ہو۔ اسی لیے پہلے ایران کا موقف تھا کہ اگر اسرائیل نے بھی حملہ کیا تو امریکا کو جواب دیا جائے گا۔ لیکن جواب اسرائیل تک ہی محدود رہا۔ اب بھی امریکی بمباری کے جواب میں بھی امریکا کو ابھی تک جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ایران کی جانب سے امریکا کو جواب نہ دینا ان کی ایک جنگی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔امریکا نے بھی احتیاط کی ہے، اس کے بی ٹو بمبار خطے میں موجود کسی امریکی اڈے یا کسی مسلم ملک میں موجود امریکی اڈے سے نہیں اڑے۔ اس لیے خطے میں امریکی اڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ شاید اسی لیے ایران نے خطہ میں موجود کسی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب وہ استعمال نہیں ہوئے تو انھیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔
ایک رائے کہ خطے میں موجود مسلمان ممالک نے امریکا کو کہا ہے کہ ان کے ممالک میں موجود اڈے نہ استعمال کیے جائیں۔ بھارت کی ائیر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنوں نے بہت پراپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایئر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ویسے تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پراپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دے دیے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ تھا۔ امریکا کو ایران سے لڑنے کے لیے کسی نئے اڈے کی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس بہت اڈے پہلے ہی موجود ہیں۔ لیکن اس نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت وہ بھی استعمال نہیں کیے ہیں۔
امریکی بمباری کے بعد دنیا میں کوئی خاص طوفان نہیں آیا۔ پاکستان نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے نہیں کی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عرب ممالک نے لفظ افسوس کا استعمال کیا ہے۔
یہ کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر افسوس ہے۔ کچھ ممالک نے افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا بلکہ انھوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سوا کسی نے امریکی حملوں کی حمایت نہیں کی۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن حمایت پھر بھی نہیں کی۔
برطانیہ نے یہ کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ شامل نہیں۔ لیکن برطانیہ نے بھی حملوں کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت کی ہے۔ البتہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپ ایران کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے لیکن یورپ کمزور بھی نظر آرہا ہے۔ یورپ میں امریکا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نظر نہیں آرہی۔ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اس لیے سفارتکاری کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کمزوری کافی عیاں ہے۔ فرانس کے صدر اور جر منی کے چانسلر کا موقف جنگ کے خلاف ہے۔ لیکن وہ جنگ روکنے کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔
او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن امریکا نے ایران پر حملہ او آئی سی کے اجلاس سے ایک دن بعد کیا۔ اس لیے امریکا کے خلاف کوئی قرارداد نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ معاملہ او آئی سی کے اگلے اجلاس میں آئے گا۔ او آئی سی بھی ایک کمزور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ویسے تو غزہ کے معاملہ میں بھی او آئی سی نے بہت مایوس کیا تھا اور ایران کے معاملہ پر بھی اس نے مایوس کیا ہے۔
جن ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات نہ تو ختم کرنے اور نہ ہی خراب کرنے کے لیے تیار ہیں، جن اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کا کوئی اجتماعی موقف نہیں ہے۔ صرف اپنے موقف کے دلیل میں یہی لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم ترکی کو اب اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ نہ تو غزہ اور نہ ہی ایران کے لیے ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور تجارت بند کرنے کے لیے تیارہے۔ باقی کی صورتحال بھی یہی ہے۔
امریکی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا ایران کا فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ ایران کی لڑائی امریکا اور اسرائیل سے ہے۔ اس سے امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چین کو ہوگا۔ چین تیل و گیس کی درآمد کے لیے آبنائے ہر مز استعمال کرتا ہے۔
اس لیے ایران کو چین کو نقصان پہنچانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران سے بات کرے۔کیا چین اپنے مفاد کے لیے ایران کے خلاف جنگ میں آجائے گا۔ ایران کو ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے۔
ایران کو مزید ممالک کو جنگ میں اپنے خلاف اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ممالک آبنائے ہرمز کے بند ہونے سے متاثر ہونگے کیا وہ اسے کھلانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ایک سوال ہے۔ایران کو دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پہلے ہی بہت کم ملک ہیں۔ لیکن جو ملک نیوٹرل ہیں انھیں بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ایران کی کوئی اچھی پالیسی نہیں ہوگی۔