سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔" تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
ایک پروفیسر صاحب کو پہلی مرتبہ کسی گاوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انہوں نے ایک باغ کو دیکھا اور اُس کے مالک سے ملے۔ انہوں نے باغ کے مالک سے پوچھا کہ کہیں گاوں کے لوگ آپ کے پھل وغیرہ تو چوری کرکے نہیں لے جاتے۔؟ مالک نے کہا کہ نہیں ہرگز نہیں، یہاں کے لوگ تو بہت ایماندار اور نیک ہیں۔ اس پر محترم پروفیسر صاحب نے تعجب سے مالک کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ پھر تم نے اپنے کاندھوں پر بندوق کیوں اٹھائی ہوئی ہے۔؟ باغ کے مالک نے برجستہ جواب دیا کہ یہ بندوق گاوں والوں کو ایماندار اور نیک رکھنے کیلئے ہی ہے۔ ایران کے میزائل اور ڈرونز بھی امریکہ و اسرائیل جیسوں کو صلح پسند اور امن پسند رکھنے کیلئے ہی ہیں۔ یقین مانیں کہ اگر اسرائیل کی مانند امریکہ کو بھی ایران کا فوری اور مساوی جواب نہ ملتا تو یہ جنگ بندی ممکن ہی نہ تھی۔
بارہ دن تک ایران پر براہِ راست بم برسائے گئے، لیکن رجیم چینج نہیں ہوئی جبکہ ہمارے ہاں ایک سائفر کا تعویز اپنا کام دکھا گیا تھا۔ ایران پر امریکہ کا حملہ، یہ درحقیقت ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ اس کے ردِّعمل کو دیکھ کر ہی ٹر ٹر نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اسلامی فورس کی طرف سے امریکہ کو طاقت کی زبان میں جواب دینے اور اس کے فوراً بعد ٹر ٹر کے صلح کے دعووں نے ساری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ امن کے ساتھ جینے کیلئے طاقتور ہونا ضروری ہے۔ کہیں پر بھی امن نرم دل، روتی ہوئی آنکھوں اور آہ و بکا کے بجائے طاقتور بازووں کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بازووں میں طاقت نہیں تو آپ کو آزادی، مساوات اور انصاف کی قربانی دے کر امن حاصل کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ملت ایران نے آزادی، مساوات اور انصاف کو قربان کرنے کے بجائے اپنے طاقتور بازووں سے کام لیا اور خوب ڈٹ کر یہ کام لیا۔
ٹرٹر، جو ابھی چند دن پہلے ایران پر حملے کا حکم دے چکا تھا، اب خود کو ثالث کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اسے امریکی و مغربی سماج کے اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی تضاد کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب کسی ریاست کا سربراہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے تو ایسے میں صلح و امن کا نام لے کر فراڈ کرنا ہی طاقتور کے بیانیے کی بنیاد ہوتا ہے۔ ٹرٹر کی "جنگ بندی" کا اعلان دراصل ایک جنگی چال ہے، جس کا مقصد ایران کو حملہ آور دکھانا اور خود کو صلح جو، منصف اور غیر جانبدار ثابت کرنا ہے۔ ایرانی قوم کو آٹھ سالہ جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جارحیّت سے زیادہ خطرناک وہ صلح ہے، جو جارح کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر باشعور شخص ٹرٹر سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جب تم خود حملہ آور ہو تو پھر تم ثالث اور منصف کہاں سے بن بیٹھے۔؟
ایران نے جس انداز میں عراق و قطر میں امریکی اڈوں پر جوابی کارروائی کی، وہ محض عسکری جواب نہیں تھا بلکہ دنیا کے سوچنے کے انداز کو اُلٹ کر رکھ دینے کی ایک فکری کاوش تھی۔ بڑے بڑے دانشور بوکھلا کر کہہ رہے تھے کہ اب تو ایران کیلئے کئی محاذ کھل جائیں گے، اب تو ایران کو بڑی سخت سزا ملے گی، وغیرہ وغیرہ، لیکن ایرانیوں نے امریکہ کو جواب دے کر یہ منوا لیا کہ تاریخ وہ بازار ہے کہ جہاں قومیں اپنی عزّت و آزادی کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرتی ہیں۔ ایران نے دشمن کے مقابلے میں اپنی قومی عزت و وقار کا تحفظ عمل سے کیا، نہ کہ الفاظ سے۔ ٹرٹر صلح اور امن کے بھاشن دے کر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح اپنی شرمندگی کو چھپائے۔ گویا بدترین شکست کے بعد فتح کا جھنڈا بھی وہی لہرائے۔
ایسے بے حیا کرداروں کے نزدیک انسانیت، انسانوں کی آزادی و خود مختاری اور انسانی اقدار نام کی کوئی شئے نہیں۔ انہیں صرف اس سے غرض ہے کہ اب اگر ایران جنگ بندی کی اس "پیشکش" کو مسترد کر دے تو اسے مزید جارحیت کا جواز بنایا جائے۔ امریکہ کے پاس ایران کیلئے تو بہت سارے ایٹم بم ہیں، لیکن فلسطین و غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے کوئی علاج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوا کے بغیر طبیب علاج کی بات کرے، تو وہ علاج نہیں کر رہا ہوتا بلکہ مرض کو لاعلاج بنا رہا ہوتا ہے۔ ٹرٹر دراصل اسرائیل کے پھوڑے کو ایک لا علاج ناسور میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ یہ بھی امریکہ، اسرائیل اور فرانس وغیرہ کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ تجزیہ نگاروں، میڈیا ہاوسز، سوشل نیٹ ورکس، مختلف تھنک ٹینکس پر اربوں روپیہ خرچ کرکے بھی ایرانی قوم کی داخلی وحدت کو نقصان نہیں پہچا سکے۔
اس جنگ نے داخلی اور خارجی دونوں لحاظ سے ایران کو جتنا مضبوط کیا ہے، ایران اس سے پہلے کبھی اتنا مضبوط نہیں تھا۔ ایرن نے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے منافقین اور غدّاروں کے کئی نیٹ ورکس پکڑے ہیں، جو کہ ایران کیلئے خدا کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ایران نے صرف میزائلوں اور ڈرونز کی جنگ میں ٹرٹر اور کفرائیل کو مات نہیں دی، بلکہ بیانیے، شعور اور اندرونی و بیرونی رائے عامہ کے میدان میں بھی اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دئیے ہیں۔ ایرانی جرنیلوں نے اپنی تدابیر اور فہم و فراست سے ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا کردار خود تراشتے اور طے کرتے ہیں، نہ کہ بڑی طاقتوں کے لکھے ہوئے کسی اسکرپٹ میں وہ کسی فنکار کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔
ٹرٹر کی صلح کے اعلان میں امن کی روح نہیں، بلکہ طاقت کے جبر کی چالاکی ہے۔ یہ ایسا امن ہے کہ جس کے نیچے طاقت کی تلوار چھپی ہوئی ہے، جبکہ دوسری طرف ایسے جبر و مکر کے مقابلے میں ایران کی مقاومت و مزاحمت ہے، جو آزادی اور برابری کے اصولوں پر کھڑی ہے۔ ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نہ ایران نے کہ ایران نے اور اسلامی ساری دنیا ایران کی تو ایران یہ ہے کہ اور اس جا سکا ہیں کہ
پڑھیں:
افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، ذبیح اللہ مجاہد
افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کے نتائج پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی امارتِ افغانستان ترکی اور قطر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی میزبانی اور ثالثی کی۔
Clarification on the outcomes of the Istanbul meeting
The Islamic Emirate of Afghanistan once again thanks the Republic of Turkey and the State of Qatar — the two brotherly countries — for hosting and mediating the talks between Afghanistan and Pakistan in Istanbul.
8/1
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 8, 2025
ذبیح اللہ مجاہد نے ’ایکس‘ پر اپنے سلسلہ وار پیغامات میں کہا کہ اسلامی امارت اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور نہ ہی کسی ملک کو اجازت دی جائے گی کہ وہ افغانستان کی خودمختاری یا سلامتی کے خلاف کوئی اقدام کرے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان کے مسلمان عوام افغان عوام کے بھائی ہیں، اسلامی امارت ان کے لیے خیر خواہی اور امن کی دعا کرتی ہے اور اپنی ذمہ داریوں اور صلاحیتوں کے مطابق ان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول مذاکرات افغان ترجمان پاک افغان مذاکرات ذبیح اللہ مجاہد