Islam Times:
2025-09-24@13:33:06 GMT

سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ

اسلام ٹائمز: ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔" تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ایک پروفیسر صاحب کو پہلی مرتبہ کسی گاوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انہوں نے ایک باغ کو دیکھا اور اُس کے مالک سے ملے۔ انہوں نے باغ کے مالک سے پوچھا کہ کہیں گاوں کے لوگ آپ کے پھل وغیرہ تو چوری کرکے نہیں لے جاتے۔؟ مالک نے کہا کہ نہیں ہرگز نہیں، یہاں کے لوگ تو بہت ایماندار اور نیک ہیں۔ اس پر محترم پروفیسر صاحب نے تعجب سے مالک کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ پھر تم نے اپنے کاندھوں پر بندوق کیوں اٹھائی ہوئی ہے۔؟ باغ کے مالک نے برجستہ جواب دیا کہ یہ بندوق گاوں والوں کو ایماندار اور نیک رکھنے کیلئے ہی ہے۔ ایران کے میزائل اور ڈرونز بھی امریکہ و اسرائیل جیسوں کو صلح پسند اور امن پسند رکھنے کیلئے ہی ہیں۔ یقین مانیں کہ اگر اسرائیل کی مانند امریکہ کو بھی ایران کا فوری اور مساوی جواب نہ ملتا تو یہ جنگ بندی ممکن ہی نہ تھی۔

بارہ دن تک ایران پر براہِ راست بم برسائے گئے، لیکن رجیم چینج نہیں ہوئی جبکہ ہمارے ہاں ایک سائفر کا تعویز اپنا کام دکھا گیا تھا۔ ایران پر امریکہ کا حملہ، یہ درحقیقت ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ اس کے ردِّعمل کو دیکھ کر ہی ٹر ٹر نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اسلامی فورس کی طرف سے امریکہ کو طاقت کی زبان میں جواب دینے اور اس کے فوراً بعد ٹر ٹر کے صلح کے دعووں نے ساری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ امن کے ساتھ جینے کیلئے طاقتور ہونا ضروری ہے۔ کہیں پر بھی امن نرم دل، روتی ہوئی آنکھوں اور آہ و بکا کے بجائے طاقتور بازووں کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بازووں میں طاقت نہیں تو آپ کو آزادی، مساوات اور انصاف کی قربانی دے کر امن حاصل کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ملت ایران نے آزادی، مساوات اور انصاف کو  قربان کرنے کے بجائے اپنے طاقتور بازووں سے کام لیا اور خوب ڈٹ کر یہ کام لیا۔

ٹرٹر، جو ابھی چند دن پہلے ایران پر حملے کا حکم دے چکا تھا، اب خود کو ثالث کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اسے امریکی و مغربی سماج کے اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی تضاد کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب کسی ریاست کا سربراہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے تو ایسے میں صلح و امن کا نام لے کر فراڈ کرنا ہی طاقتور کے بیانیے کی بنیاد ہوتا ہے۔ ٹرٹر کی "جنگ بندی" کا اعلان دراصل ایک جنگی چال ہے، جس کا مقصد ایران کو حملہ آور دکھانا اور خود کو صلح جو، منصف اور غیر جانبدار ثابت کرنا ہے۔ ایرانی قوم کو آٹھ سالہ جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جارحیّت سے زیادہ خطرناک وہ صلح ہے، جو جارح کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر باشعور شخص ٹرٹر سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جب تم خود حملہ آور ہو تو پھر تم ثالث اور منصف کہاں سے بن بیٹھے۔؟

ایران نے جس انداز میں عراق و قطر میں امریکی اڈوں پر جوابی کارروائی کی، وہ محض عسکری جواب نہیں تھا بلکہ دنیا کے سوچنے کے انداز کو اُلٹ کر رکھ دینے کی ایک فکری کاوش تھی۔ بڑے بڑے دانشور بوکھلا کر کہہ رہے تھے کہ اب تو ایران کیلئے کئی محاذ کھل جائیں گے، اب تو ایران کو بڑی سخت سزا ملے گی، وغیرہ وغیرہ، لیکن ایرانیوں نے امریکہ کو جواب دے کر یہ منوا لیا کہ تاریخ وہ بازار ہے کہ جہاں قومیں اپنی عزّت و آزادی کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرتی ہیں۔ ایران نے دشمن کے مقابلے میں اپنی قومی عزت و وقار کا تحفظ عمل سے کیا، نہ کہ الفاظ سے۔ ٹرٹر صلح اور امن کے بھاشن دے کر  چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح اپنی شرمندگی کو چھپائے۔ گویا بدترین شکست کے بعد  فتح کا جھنڈا بھی وہی لہرائے۔

ایسے بے حیا کرداروں کے نزدیک انسانیت، انسانوں کی آزادی و خود مختاری اور انسانی اقدار نام کی کوئی شئے نہیں۔ انہیں صرف اس سے غرض ہے کہ اب اگر ایران جنگ بندی کی  اس "پیشکش" کو مسترد کر دے تو اسے مزید جارحیت کا جواز بنایا جائے۔ امریکہ کے پاس ایران کیلئے تو بہت سارے ایٹم بم ہیں، لیکن فلسطین و غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے کوئی علاج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوا کے بغیر طبیب علاج کی بات کرے، تو وہ علاج نہیں کر رہا ہوتا بلکہ مرض کو لاعلاج بنا رہا ہوتا ہے۔ ٹرٹر دراصل اسرائیل کے پھوڑے کو ایک لا علاج ناسور میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ یہ بھی امریکہ، اسرائیل اور فرانس وغیرہ کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ  تجزیہ نگاروں، میڈیا ہاوسز، سوشل نیٹ ورکس، مختلف تھنک ٹینکس پر اربوں روپیہ خرچ کرکے بھی ایرانی قوم کی داخلی وحدت کو نقصان نہیں پہچا سکے۔

اس جنگ نے داخلی اور خارجی دونوں لحاظ سے ایران کو جتنا مضبوط کیا ہے، ایران اس سے پہلے کبھی اتنا مضبوط نہیں تھا۔ ایرن نے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے منافقین اور غدّاروں کے کئی نیٹ ورکس پکڑے ہیں، جو کہ ایران کیلئے خدا کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ایران نے صرف میزائلوں اور ڈرونز کی جنگ میں ٹرٹر اور کفرائیل کو مات نہیں دی، بلکہ بیانیے، شعور اور اندرونی و بیرونی رائے عامہ کے میدان میں بھی اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دئیے ہیں۔ ایرانی جرنیلوں نے اپنی تدابیر اور فہم و فراست سے ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا کردار خود تراشتے اور طے کرتے ہیں، نہ کہ بڑی طاقتوں کے لکھے ہوئے کسی اسکرپٹ میں وہ کسی فنکار کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔

ٹرٹر کی صلح کے اعلان میں امن کی روح نہیں، بلکہ طاقت کے جبر کی چالاکی ہے۔ یہ ایسا امن ہے کہ جس کے نیچے طاقت کی تلوار چھپی ہوئی ہے، جبکہ دوسری طرف ایسے جبر و مکر کے مقابلے میں ایران کی مقاومت و مزاحمت ہے، جو آزادی اور برابری کے اصولوں پر کھڑی ہے۔ ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نہ ایران نے کہ ایران نے اور اسلامی ساری دنیا ایران کی تو ایران یہ ہے کہ اور اس جا سکا ہیں کہ

پڑھیں:

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

مزاحمتی ذرائع کے مطابق شہید ابراہیم عقیل آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز سے ہی غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کے رضوان یونٹ کی فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی کر رہے تھے۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر

اسلام ٹائمز۔ شہید ابراہیم عقیل 24 دسمبر 1962 کو بقاع کے شہر بدنائل میں پیدا ہوئے۔ شہید عقیل، جہادی نام حاج عبدالقادر کے ساتھ، ان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں اپنے وطن لبنان کی سرزمین پر حملہ کرنے والی صیہونی حکومت کے خلاف موثر کردار ادا کیا، اور انہوں نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں حزب اللہ کی مرکزی تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ 1997 سے صیہونی غاصبوں سے لبنان کی آزادی کے بعد تک، وہ جبل آپریشن یونٹ کی کمانڈ کرنے کے ذمہ دار تھے، اور اس عرصے کے دوران لبنانی مزاحمت کی بہت سی جدید طرز کی کارروائیوں کی براہ راست کمانڈ شہید ابراہیم عقیل نے کی۔

شہید ابراہیم عقیل نے صہیونی دشمن کے خلاف لبنانی اسلامی مزاحمتی کارروائیوں کی بنیاد رکھی اور 2008 سے حزب اللہ کے آپریشنل امور کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور لبنانی مزاحمتی تنظیم کی جہادی کونسل کے رکن بنے۔ وہ جولائی 2006 کی جنگ میں صہیونی دشمن کے خلاف بہادری سے لڑنے والے حزب اللہ کے عظیم کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ اسلامی مزاحمت کے ملٹری میڈیا کے مطابق اس شہید کمانڈر نے اپنی شہادت تک رضوان یونٹ کے قیام، ترقی اور کمانڈ کی نگرانی کی اور وہ ان عظیم جہادی کمانڈروں میں سے ایک تھے۔

شہید عقیل ابراہیم نے لبنان کی مشرقی سرحدوں اور شام کے دیگر علاقوں، القصیر، القلمون اور دیگر علاقوں میں دہشت گرد تکفیری گروہوں کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور انتظامات انجام دیئے۔ مزاحمتی ذرائع کے مطابق شہید ابراہیم عقیل آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز سے ہی غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کے رضوان یونٹ کی فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی کر رہے تھے۔ شہید ابراہیم عقیل کی یہ تصاویر عظیم شہداء بشمول سید حسن نصر اللہ، حج قاسم سلیمانی، حج علی کرکی کیساتھ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • آج ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان سے ملاقات کروں گا .صدرمیکرون
  • ’امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایران یورینیئم کی افزودگی نہیں روکے گا‘
  • جوہری ہتھیاربنانے کا کوئی ارادہ نہیں،مگر یورینیئم افزودگی پردباؤ میں نہیں آئیں گے:خامنہ ای
  • ایران کیساتھ مذاکرات کسی فوجی کارروائی میں رکاوٹ نہیں بلکہ جنگ کی ایک شکل ہیں، صیہونی ٹی وی
  • ہرنائی سے ملنے والی لاش اسسٹنٹ کمشنر کی نہیں
  • چین نے ہر سیکٹر میں پاکستان کو سپورٹ کیا زیادہ آبادی کو طاقت بنایا : گورنر پنجاب 
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • حزب اللہ کے شہید کمانڈر ابراہیم عقیل کی چند تصاویر
  • ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟