Jasarat News:
2025-08-13@15:52:34 GMT

ایران، اسرائیل تنازع: سچائی کے خلاف جھوٹ کی یلغار

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مسعود محبوب خان
’’اور کہہ دو: حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے والا ہی تھا‘‘۔ (سورہ الاسراء: 81) حق و باطل کا معرکہ ازل سے جاری ہے۔ کبھی فرعون کے ایوانوں میں موسیٰؑ کی لاٹھی بولتی ہے، کبھی نمرود کی آگ میں ابراہیمؑ کا صبر روشن ہوتا ہے، اور کبھی یزید کے دربار میں حسینؓ کی خاموشی گونج بن جاتی ہے۔ ہر دور میں باطل، اپنی چمک دمک، حربی قوت، اور پروپیگنڈے سے حق کو دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر حق، اگرچہ کمزور اور تنہا نظر آئے، بالآخر سرفراز ہی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ایران کی مزاحمت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ظاہری طاقتوں سے بے نیاز ہو کر باطل کے ایوانوں میں سچائی کی صدا بلند کر رہا ہے۔ اسرائیل کی غاصب ریاست جو مظلومیت کا نقاب اوڑھ کر ظلم کی سنگین مثالیں قائم کر چکی ہے، درحقیقت اْس نظامِ طاغوت کی نمائندہ ہے جس سے انبیاء کرام ہمیشہ برسرِ پیکار رہے۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’افضل ترین جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔ (سنن نسائی) اسی روحانی اور فکری تناظر میں ایران، اسرائیل تنازع کو سمجھنا، فقط سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ اسلامی ضمیر کی بیداری، حق و باطل کے امتیاز، اور مظلوم کی حمایت کا فریضہ ہے۔

دنیا کی سیاسی بساط ایک ایسی شطرنج ہے جہاں شطرنج کی چالیں نہ صرف مہروں کی قربانی مانگتی ہیں بلکہ اکثر انصاف اور سچائی جیسے اعلیٰ اقدار کو بھی روندتی چلی جاتی ہیں۔ یہ شطرنج صرف سفید و سیاہ خانوں پر کھیلا جانے والا کھیل نہیں، بلکہ یہ عالمی طاقتوں کا وہ مکروہ منصوبہ ہے جس میں کچھ خطے ہمیشہ کے لیے جنگ کی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں، اور کچھ اقوام کو مقدّر ہی میں قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے۔ ان مہروں کے سر پر نہ تاج ہوتا ہے، نہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار بس ہر نئی چال کے بعد ان کا خون اس کھیل کو زندہ رکھنے کا ایندھن بنتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کا تنازع اسی خونیں بساط کا وہ رْوح فرسا باب ہے جہاں سچائی کا گلا گھونٹنے کے لیے جھوٹ کے لشکر صف بند ہو چکے ہیں۔ یہاں حقائق کو مسخ کر کے پروپیگنڈے کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے، اور میڈیا کی روشنی اتنی شدید ہے کہ آنکھوں کو دھوکا دے، دلوں کو سچ سے بیگانہ کر دے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا چمکتا چہرہ درحقیقت سچائی پر چڑھایا گیا نقاب ہے، جس کے پیچھے ظلم، ناانصافی، اور دوغلا پن پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسکرا رہا ہوتا ہے۔ یہ ایسا منظر ہے جہاں الفاظ کو ہتھیار بنایا گیا ہے، خبریں گولیوں کا کام دیتی ہیں، اور بیانیے توپوں کی مانند استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں تصویر وہی دکھائی جاتی ہے جو طاقتور کو راس آئے، اور آواز صرف وہی سنی جاتی ہے جسے طاقت کے ایوانوں سے منظوری حاصل ہو۔ ایران، جو اپنے نظریے، تہذیب اور مظلوموں کی حمایت کے سبب اس شطرنج کے خلاف کھڑا ہے، اسے ہر ممکن طریقے سے دبوچنے، بدنام کرنے اور تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا شطرنج کی ہر چال کامیاب ہوتی ہے؟ کیا ہر قربانی رائیگاں جاتی ہے؟ کیا سچائی واقعی دفن ہو سکتی ہے، یا وہ مٹی کے اندر بھی چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج کی دنیا کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹ کی اس یلغار میں کہیں سچائی کی روشنی بجھ نہ جائے۔

اگر تاریخ ایک آئینہ ہے تو ایران اس آئینے کی وہ قدیم تصویر ہے جو وقت کی گرد کو چیر کر بھی روشن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں تہذیب نے آنکھ کھولی، جہاں الفاظ نے معانی کا لباس پہنا، اور جہاں روحانیت، علم، فن اور حریت کا امتزاج نسل در نسل سفر کرتا آیا ہے۔ ایران کوئی مجرد خطہ ٔ زمین نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جس نے فردوسی کے قلم سے ’’شاہنامہ‘‘ جیسی ایسی فکری مشعل روشن کی جس نے صدیوں تک ظلم و جبر کی تاریکی میں سوچنے والوں کے لیے راہنمائی کا کام کیا۔ پھر جب وقت کی کروٹ نے ظلم کی نئی شکلوں کو جنم دیا، تو اسی ایران کی زمین نے امام خمینی جیسی شخصیت کو جنم دیا، جو فقط ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک صدائے احتجاج، اور ایک انقلاب تھا۔ ایران کا انقلاب، ایک قوم کی بیداری کا نہیں بلکہ پوری مظلوم انسانیت کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ اس کے مقابل، اسرائیل ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھرا جو نہ تاریخ کی گہرائی رکھتا ہے، نہ اخلاقی بنیاد۔ 1948ء میں ایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت اسے جبری طور پر نقشے پر کھینچا گیا اور اس کے قیام کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کی فضاؤں میں گولیوں کی گونج، بارود کی بو اور مہاجر کیمپوں کی آہیں ہمیشہ کے لیے شامل ہو گئیں۔ فلسطین کی زمین جو کبھی امن کا گہوارہ تھی، دیکھتے ہی دیکھتے دیواروں، چیک پوسٹوں اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گئی۔ اسرائیل کی بنیاد فقط زمین پر نہیں، بلکہ مظلوموں کی چیخوں، بے گھری کے کرب، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے پر رکھی گئی۔ ایران اور اسرائیل کا اختلاف فقط جغرافیہ یا سیاسی مفادات کا نہیں یہ درحقیقت دو فکری اور روحانی فلسفوں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف وہ ریاست جو طاقت اور ظلم کی زبان بولتی ہے، جو عالمی لابیوں کے سہارے زندہ ہے اور دوسری طرف وہ قوم جو صدائے حق بلند کرتی ہے، جو مظلوموں کی صف میں کھڑی ہوتی ہے، چاہے اس کے بدلے میں اسے پابندیاں، تنہائیاں یا جنگی خطرات ہی کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔

ایران کا اسرائیل سے اختلاف اس اصول پر ہے کہ دنیا فقط طاقت کے زور پر نہیں چل سکتی اسے عدل، حق اور انسانیت کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کو صرف ایک قوم یا زمین کے طور پر نہیں، بلکہ ایک امانت، ایک امتحان اور ایک عقیدے کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ ایران کی حمایت فقط فلسطین کی سر زمین کے لیے نہیں بلکہ اس سچ کے لیے ہے جو عالمی جھوٹ کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اور اسرائیل، اپنے ظلم کو چھپانے کے لیے ہمیشہ ان طاقتوں کے سائے میں کھڑا رہا ہے جن کے ضمیر کو مفادات کی دھند نے اندھا کر دیا ہے۔

زمانۂ حاضر کی جنگیں اب صرف ٹینکوں، توپوں اور بارود سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب خیالات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بیانیوں کو محاذ بنایا جاتا ہے اور میڈیا کو وہ شمشیر عطا کی گئی ہے جو زبانوں کو کاٹتی ہے، ذہنوں کو زخمی کرتی ہے اور سچائی کا گلا دبانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس جدید دور کی جنگ میں گولی نہیں چلتی، بلکہ سرخی چلتی ہے؛ خون نہیں بہتا، بلکہ کردار رگیدے جاتے ہیں اور دھواں بارود کا نہیں، بلکہ فریب، افواہ، اور نفسیاتی تسلّط کا ہوتا ہے۔ اسی میدان میں اسرائیلی لابی نے ایک ایسا نظریاتی قلعہ تعمیر کیا ہے جس کی دیواریں میڈیا کی طاقت سے بنی ہیں اور جس کے پہرے دار وہ مفاد پرست ادارے ہیں جو صحافت کی قسم کھا کر جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں۔ انہوں نے مغربی میڈیا کو اس قدر پروپیگنڈے کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک مکمل جھوٹی تصویر کو ’’سچ‘‘ کے فریم میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مظلوم کو ظالم بنا دینا اور ظالم کو امن کا علمبردار قرار دینا یہی آج کے میڈیا کی سب سے بڑی چالاکی اور ستم ظریفی ہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام، جس کی حقیقی نوعیت دفاعی، تحقیقی اور سائنسی ہے، اْسے خوف کی علامت بنا کر دکھایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل، جو دنیا میں خفیہ طور پر سیکڑوں ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے، اْس کے بارے میں میڈیا کی زبان کو گویا لقوہ مار جاتا ہے۔ نہ کوئی سوال، نہ کوئی شور، نہ کوئی انکوائری جیسے اس پر تنقید کرنا مغربی اخلاقیات کے خلاف جرم ہو۔

یہ وہ توہین ِ سچائی ہے جو انسانیت کے ضمیر پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو کبھی دھل نہیں سکتا۔ جب حق بات کرنے والوں کی آوازیں دبا دی جائیں، جب باطل کو خوبصورت نقاب پہنایا جائے، جب خبریں ’’خبر‘‘ نہ رہیں بلکہ ایجنڈہ بن جائیں تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سچائی کی موت کا اعلان ہو چکا ہے، اور میڈیا کی تلوار اب دشمن کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب تلوار دشمن کے ہاتھ میں ہو، تو وہ صرف جسموں کو نہیں کاٹتی وہ سچائی کی رگوں سے لہو نچوڑتی ہے، شعور کو مسخ کرتی ہے، اور دلوں میں شک کے کانٹے بو دیتی ہے۔ ایسے میں ایران کا مؤقف، جو صداقت کی بنیاد پر قائم ہے، اکثر مغربی میڈیا کی ’’فلٹرنگ‘‘ سے گزر کر اپنی روشنی کھو دیتا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے آج کی دنیا کو ظاہری روشنیوں میں جکڑ کر باطنی اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایران کا ہیں بلکہ سچائی کی میڈیا کی جاتا ہے کے خلاف جاتی ہے ہوتا ہے ہے جہاں اور اس رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے پر بضد ہے، پاکستان واضح کرچکا ہے کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ، امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی ممنون ہے جن کی اسٹرٹیجک لیڈر شپ کی بدولت نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ رکی بلکہ دنیا میں جاری بہت سی جنگوں کو روکا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا کوئی اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔

 فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ دورہ امریکا قومی اور بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ نہ صرف عسکری سطح پر تعلقات کی بہتری کی کوششوں کا آئینہ دار ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھانے کی ایک مدبرانہ کوشش بھی ہے۔

ان کا امریکی دارالحکومت میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب، صرف ایک رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی بیانیے کا اعلان تھا جس میں پاکستان کی داخلی و خارجی ترجیحات، چیلنجز اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے خدوخال کو واضح کیا گیا۔

 پاکستانی کمیونٹی سے دوران خطاب انھوں نے عالمی اور علاقائی خطرات پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا سب سے توانا اور دو ٹوک موقف بھارت کی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسی RAW کی سرگرمیوں کے خلاف تھا۔ انھوں نے بھارت کی نام نہاد ’’ وشوا گرو‘‘ پالیسی کو ایک مصنوعی دعویٰ قرار دیا اور کہا کہ بھارت نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔

اس ضمن میں انھوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل، قطر میں آٹھ بھارتی نیول افسران کا معاملہ اورکلبھوشن یادیو جیسے واقعات کا حوالہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ ان واقعات کی فہرست پاکستان کے اُس دیرینہ مؤقف کی تصدیق ہے جس میں وہ عالمی برادری کو مسلسل خبردار کرتا رہا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔

 یہ بیانیہ صرف ایک الزام نہیں بلکہ ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنا ہے تاکہ بھارت کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ آج دنیا میں خارجہ پالیسی صرف دو طرفہ ملاقاتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بیانیہ سازی ایک اہم آلہ کار بن چکا ہے۔ فیلڈ مارشل نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ بھارت کا اصل چہرہ اب مزید چھپایا نہیں جا سکتا اور بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے دو ٹوک مؤقف اختیارکرے۔

 اس خطاب کا ایک اور اہم پہلو حالیہ بھارتی جارحیت پر فیلڈ مارشل کا موقف تھا، جس میں انھوں نے کہا کہ بھارت نے ’’ شرمناک بہانوں‘‘ کے تحت پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اور معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے اس اشتعال انگیزی کا پُرعزم اور بھرپور جواب دیا اور وسیع تر تنازعہ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے،کیونکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اپنی خود مختاری اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

 فیلڈ مارشل نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کسی بھی نئی بھارتی جارحیت کا ’’منہ توڑ جواب‘‘ دیا جائے گا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب کسی قسم کی نرمی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ ماضی میں پاکستان کو بارہا ایسے چیلنجزکا سامنا رہا جہاں بھارت نے طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کیا، مگر اب پاکستان ایک باوقار اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنے دفاعی نظریے کو عالمی سطح پر پیش کر رہا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قیادت اب محض ردعمل دینے پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ ایک فعال اور جارحانہ سفارتی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔

خطاب کا سب سے اہم اور جذباتی پہلو کشمیر کے مسئلے پر دیا گیا بیان تھا۔ فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی قول کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ بیان صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ موجودہ تناظر میں ایک بھرپور سیاسی پیغام ہے۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان نے جس مؤثر انداز میں بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اجاگر کیا ہے، فیلڈ مارشل کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کا یہ موقف عالمی ضمیر کو ایک بار پھر متوجہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کوئی علیحدگی پسندی نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کی قانونی، آئینی اور انسانی بنیادوں پر کی جانے والی تحریک ہے جسے کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔

خطاب میں فیلڈ مارشل نے ایک دلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی ’’ اسٹرٹیجک لیڈر شپ‘‘ نے نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ کو روکا بلکہ دنیا میں جاری کئی دیگر تنازعات کو بھی کم کرنے میں مدد دی۔

اگرچہ یہ بیان کچھ حلقوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لیکن بین الاقوامی تعلقات میں جذبات سے زیادہ حقیقت پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے، اگر کسی وقت امریکا نے تعمیری کردار ادا کیا، تو اس کا اعتراف بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا تنقید کا اظہار۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا جائے اور فیلڈ مارشل کے اس بیان سے بھی یہی جھلکتا ہے۔اس پورے خطاب کا خلاصہ اگر نکالا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک دفاعی ادارے کے سربراہ کا بیان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مکمل قومی بیانیہ تھا جو ملکی سالمیت، خود مختاری، کشمیرکاز، عالمی سفارت کاری اور قوم سے ربط کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

فیلڈ مارشل نے اپنی گفتگو میں صرف حالیہ خطرات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی مستقبل کی سمت بھی واضح کی۔ انھوں نے پاکستان کے مضبوط دفاع، مستحکم معیشت اور خود دار خارجہ پالیسی کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو آج کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشمکش شامل ہیں۔

 انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات اور ان کی علمی و فنی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے ’’برین ڈرین‘‘ کے بجائے ’’برین گین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جو ایک نہایت مثبت اور مستقبل بین سوچ کی نمایندگی ہے۔ یہ جملہ صرف ایک فقرہ نہیں، بلکہ ایک سوچ کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شہریوں کو ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ یہ بیان اُن لاکھوں پاکستانیوں کے دل کو چھو گیا جو اپنے وطن سے دور ہو کر بھی اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ملکی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ قومی وحدت، آئینی بالادستی اور جمہوری تسلسل کے حامی ہیں۔ انھوں نے افواجِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرتے ہوئے عوام سے بھی قربت بڑھائی ہے، تاکہ فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یکجہتی کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔ جنرل عاصم منیر صرف ایک سپہ سالار نہیں، ایک ایسے وژنری رہنما ہیں جو پاکستان کے مستقبل کو ایک باوقار، پُرامن اور مضبوط ریاست کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں قوم کو امید ہے کہ ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے، جمہوریت مستحکم ہوگی اور دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بلاشبہ پاکستانی کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے، فیلڈ مارشل کا انداز ایک قومی رہنما کا تھا، جو صرف دفاعی پالیسی بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک فکری و نظریاتی موقف بھی دے رہا تھا۔ انھوں نے پاکستانی تارکینِ وطن کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستانی ثقافت کے سفیر ہیں بلکہ اپنے طرزِ عمل، کامیابیوں اور اخلاقیات کے ذریعے پاکستان کا چہرہ دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اس پیغام کے ذریعے انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے کی کوشش کی، جو آج کے دور میں کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
  • امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
  • اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ
  • کیا ایف بی آر سوشل میڈیا پر جھوٹی مہم کے خلاف مقدمہ دائر کرے گا؟
  • ڈمپر حادثات کسی لسانی تنازع کا نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے، علی خورشیدی
  • ایران،  اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ کشیدگی کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
  • انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
  • ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
  • ایران کے جوہری سائنس دان خفیہ مقامات پر منتقل، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار