ایران، اسرائیل تنازع: سچائی کے خلاف جھوٹ کی یلغار
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسعود محبوب خان
’’اور کہہ دو: حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے والا ہی تھا‘‘۔ (سورہ الاسراء: 81) حق و باطل کا معرکہ ازل سے جاری ہے۔ کبھی فرعون کے ایوانوں میں موسیٰؑ کی لاٹھی بولتی ہے، کبھی نمرود کی آگ میں ابراہیمؑ کا صبر روشن ہوتا ہے، اور کبھی یزید کے دربار میں حسینؓ کی خاموشی گونج بن جاتی ہے۔ ہر دور میں باطل، اپنی چمک دمک، حربی قوت، اور پروپیگنڈے سے حق کو دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر حق، اگرچہ کمزور اور تنہا نظر آئے، بالآخر سرفراز ہی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ایران کی مزاحمت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ظاہری طاقتوں سے بے نیاز ہو کر باطل کے ایوانوں میں سچائی کی صدا بلند کر رہا ہے۔ اسرائیل کی غاصب ریاست جو مظلومیت کا نقاب اوڑھ کر ظلم کی سنگین مثالیں قائم کر چکی ہے، درحقیقت اْس نظامِ طاغوت کی نمائندہ ہے جس سے انبیاء کرام ہمیشہ برسرِ پیکار رہے۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’افضل ترین جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔ (سنن نسائی) اسی روحانی اور فکری تناظر میں ایران، اسرائیل تنازع کو سمجھنا، فقط سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ اسلامی ضمیر کی بیداری، حق و باطل کے امتیاز، اور مظلوم کی حمایت کا فریضہ ہے۔
دنیا کی سیاسی بساط ایک ایسی شطرنج ہے جہاں شطرنج کی چالیں نہ صرف مہروں کی قربانی مانگتی ہیں بلکہ اکثر انصاف اور سچائی جیسے اعلیٰ اقدار کو بھی روندتی چلی جاتی ہیں۔ یہ شطرنج صرف سفید و سیاہ خانوں پر کھیلا جانے والا کھیل نہیں، بلکہ یہ عالمی طاقتوں کا وہ مکروہ منصوبہ ہے جس میں کچھ خطے ہمیشہ کے لیے جنگ کی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں، اور کچھ اقوام کو مقدّر ہی میں قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے۔ ان مہروں کے سر پر نہ تاج ہوتا ہے، نہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار بس ہر نئی چال کے بعد ان کا خون اس کھیل کو زندہ رکھنے کا ایندھن بنتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کا تنازع اسی خونیں بساط کا وہ رْوح فرسا باب ہے جہاں سچائی کا گلا گھونٹنے کے لیے جھوٹ کے لشکر صف بند ہو چکے ہیں۔ یہاں حقائق کو مسخ کر کے پروپیگنڈے کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے، اور میڈیا کی روشنی اتنی شدید ہے کہ آنکھوں کو دھوکا دے، دلوں کو سچ سے بیگانہ کر دے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا چمکتا چہرہ درحقیقت سچائی پر چڑھایا گیا نقاب ہے، جس کے پیچھے ظلم، ناانصافی، اور دوغلا پن پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسکرا رہا ہوتا ہے۔ یہ ایسا منظر ہے جہاں الفاظ کو ہتھیار بنایا گیا ہے، خبریں گولیوں کا کام دیتی ہیں، اور بیانیے توپوں کی مانند استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں تصویر وہی دکھائی جاتی ہے جو طاقتور کو راس آئے، اور آواز صرف وہی سنی جاتی ہے جسے طاقت کے ایوانوں سے منظوری حاصل ہو۔ ایران، جو اپنے نظریے، تہذیب اور مظلوموں کی حمایت کے سبب اس شطرنج کے خلاف کھڑا ہے، اسے ہر ممکن طریقے سے دبوچنے، بدنام کرنے اور تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا شطرنج کی ہر چال کامیاب ہوتی ہے؟ کیا ہر قربانی رائیگاں جاتی ہے؟ کیا سچائی واقعی دفن ہو سکتی ہے، یا وہ مٹی کے اندر بھی چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج کی دنیا کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹ کی اس یلغار میں کہیں سچائی کی روشنی بجھ نہ جائے۔
اگر تاریخ ایک آئینہ ہے تو ایران اس آئینے کی وہ قدیم تصویر ہے جو وقت کی گرد کو چیر کر بھی روشن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں تہذیب نے آنکھ کھولی، جہاں الفاظ نے معانی کا لباس پہنا، اور جہاں روحانیت، علم، فن اور حریت کا امتزاج نسل در نسل سفر کرتا آیا ہے۔ ایران کوئی مجرد خطہ ٔ زمین نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جس نے فردوسی کے قلم سے ’’شاہنامہ‘‘ جیسی ایسی فکری مشعل روشن کی جس نے صدیوں تک ظلم و جبر کی تاریکی میں سوچنے والوں کے لیے راہنمائی کا کام کیا۔ پھر جب وقت کی کروٹ نے ظلم کی نئی شکلوں کو جنم دیا، تو اسی ایران کی زمین نے امام خمینی جیسی شخصیت کو جنم دیا، جو فقط ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک صدائے احتجاج، اور ایک انقلاب تھا۔ ایران کا انقلاب، ایک قوم کی بیداری کا نہیں بلکہ پوری مظلوم انسانیت کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ اس کے مقابل، اسرائیل ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھرا جو نہ تاریخ کی گہرائی رکھتا ہے، نہ اخلاقی بنیاد۔ 1948ء میں ایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت اسے جبری طور پر نقشے پر کھینچا گیا اور اس کے قیام کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کی فضاؤں میں گولیوں کی گونج، بارود کی بو اور مہاجر کیمپوں کی آہیں ہمیشہ کے لیے شامل ہو گئیں۔ فلسطین کی زمین جو کبھی امن کا گہوارہ تھی، دیکھتے ہی دیکھتے دیواروں، چیک پوسٹوں اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گئی۔ اسرائیل کی بنیاد فقط زمین پر نہیں، بلکہ مظلوموں کی چیخوں، بے گھری کے کرب، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے پر رکھی گئی۔ ایران اور اسرائیل کا اختلاف فقط جغرافیہ یا سیاسی مفادات کا نہیں یہ درحقیقت دو فکری اور روحانی فلسفوں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف وہ ریاست جو طاقت اور ظلم کی زبان بولتی ہے، جو عالمی لابیوں کے سہارے زندہ ہے اور دوسری طرف وہ قوم جو صدائے حق بلند کرتی ہے، جو مظلوموں کی صف میں کھڑی ہوتی ہے، چاہے اس کے بدلے میں اسے پابندیاں، تنہائیاں یا جنگی خطرات ہی کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔
ایران کا اسرائیل سے اختلاف اس اصول پر ہے کہ دنیا فقط طاقت کے زور پر نہیں چل سکتی اسے عدل، حق اور انسانیت کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کو صرف ایک قوم یا زمین کے طور پر نہیں، بلکہ ایک امانت، ایک امتحان اور ایک عقیدے کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ ایران کی حمایت فقط فلسطین کی سر زمین کے لیے نہیں بلکہ اس سچ کے لیے ہے جو عالمی جھوٹ کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اور اسرائیل، اپنے ظلم کو چھپانے کے لیے ہمیشہ ان طاقتوں کے سائے میں کھڑا رہا ہے جن کے ضمیر کو مفادات کی دھند نے اندھا کر دیا ہے۔
زمانۂ حاضر کی جنگیں اب صرف ٹینکوں، توپوں اور بارود سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب خیالات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بیانیوں کو محاذ بنایا جاتا ہے اور میڈیا کو وہ شمشیر عطا کی گئی ہے جو زبانوں کو کاٹتی ہے، ذہنوں کو زخمی کرتی ہے اور سچائی کا گلا دبانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس جدید دور کی جنگ میں گولی نہیں چلتی، بلکہ سرخی چلتی ہے؛ خون نہیں بہتا، بلکہ کردار رگیدے جاتے ہیں اور دھواں بارود کا نہیں، بلکہ فریب، افواہ، اور نفسیاتی تسلّط کا ہوتا ہے۔ اسی میدان میں اسرائیلی لابی نے ایک ایسا نظریاتی قلعہ تعمیر کیا ہے جس کی دیواریں میڈیا کی طاقت سے بنی ہیں اور جس کے پہرے دار وہ مفاد پرست ادارے ہیں جو صحافت کی قسم کھا کر جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں۔ انہوں نے مغربی میڈیا کو اس قدر پروپیگنڈے کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک مکمل جھوٹی تصویر کو ’’سچ‘‘ کے فریم میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مظلوم کو ظالم بنا دینا اور ظالم کو امن کا علمبردار قرار دینا یہی آج کے میڈیا کی سب سے بڑی چالاکی اور ستم ظریفی ہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام، جس کی حقیقی نوعیت دفاعی، تحقیقی اور سائنسی ہے، اْسے خوف کی علامت بنا کر دکھایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل، جو دنیا میں خفیہ طور پر سیکڑوں ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے، اْس کے بارے میں میڈیا کی زبان کو گویا لقوہ مار جاتا ہے۔ نہ کوئی سوال، نہ کوئی شور، نہ کوئی انکوائری جیسے اس پر تنقید کرنا مغربی اخلاقیات کے خلاف جرم ہو۔
یہ وہ توہین ِ سچائی ہے جو انسانیت کے ضمیر پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو کبھی دھل نہیں سکتا۔ جب حق بات کرنے والوں کی آوازیں دبا دی جائیں، جب باطل کو خوبصورت نقاب پہنایا جائے، جب خبریں ’’خبر‘‘ نہ رہیں بلکہ ایجنڈہ بن جائیں تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سچائی کی موت کا اعلان ہو چکا ہے، اور میڈیا کی تلوار اب دشمن کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب تلوار دشمن کے ہاتھ میں ہو، تو وہ صرف جسموں کو نہیں کاٹتی وہ سچائی کی رگوں سے لہو نچوڑتی ہے، شعور کو مسخ کرتی ہے، اور دلوں میں شک کے کانٹے بو دیتی ہے۔ ایسے میں ایران کا مؤقف، جو صداقت کی بنیاد پر قائم ہے، اکثر مغربی میڈیا کی ’’فلٹرنگ‘‘ سے گزر کر اپنی روشنی کھو دیتا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے آج کی دنیا کو ظاہری روشنیوں میں جکڑ کر باطنی اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران کا ہیں بلکہ سچائی کی میڈیا کی جاتا ہے کے خلاف جاتی ہے ہوتا ہے ہے جہاں اور اس رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد اور اس کے تحت بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی کے منصوبے کو مسترد کردیا۔
الجزیرہ کے مطابق حماس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے مطالبات اور حقوق پر پورا نہیں اترتی۔
مزید پڑھیں: حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم، غزہ میں جشن
بیان میں کہا گیا ہے کہ قرارداد کے مطابق غزہ کا کنٹرول ایک بین الاقوامی سرپرستی میں چلا جائےگا جسے فلسطین کے عوام اور تمام مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔
حماس نے کہاکہ اگر بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر مزاحمتی دھڑوں کو غیر مسلح کرنے کا اختیار دیا جائےگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فورس غیرجانبدار نہیں رہے گی بلکہ فلسطین میں کارروائیاں کرےگی۔
مزاحمتی تنظیم نے کہاکہ بین الاقوامی فورس اگر بنائی جاتی ہے تو ضروری ہے کہ اسے صرف سرحدوں تک محدود رکھا جائے، جو صرف جنگ بندی کی نگرانی کرے، اور یہ سارا عمل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
حماس نے کہاکہ ہمارے نزدیک اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور اس کے خلاف ہر طرح کی جدوجہد جائز ہے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
حماس نے عالمی برادری اور سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ غزہ کے لیے ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جس سے جنگ کا مکمل خاتمہ ہو اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
مزید پڑھیں: پس پردہ کہانی: حماس اسرائیل معاہدہ کیسے ممکن ہوا؟
واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کرلی ہے۔
اس سے قبل حماس نے بھی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت کی تھی، تھی جس کے تحت حماس اور اسرائیل نے ایک دوسرے کے قیدی رہا کیے تھے، اور لاشوں کا بھی تبادلہ کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اقوام متحدہ بین الاقوامی فورس حماس فلسطین مزاحمتی تنظیم وی نیوز