ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور WhatsAppFacebookTwitter 0 25 June, 2025 سب نیوز
تحریر: عاصم قدیر رانا
دنیا نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ہفتوں کی شدید بمباری، میزائل حملے، اور خدشہ کہ شاید تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے — بالآخر ختم ہوا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔ یہ خبر بظاہر مختصر لگتی ہے، لیکن اس کے پیچھے خون، آگ، سیاست اور عالمی طاقتوں کی تدبیریں چھپی ہوئی ہیں۔
اب جب جنگ کے شعلے سرد ہو چکے ہیں، اصل سوال یہ ہے:
“کیا دنیا واقعی امن کی طرف بڑھے گی یا یہ صرف ایک وقفہ ہے؟”
جنگ بندی کے عوامل: ایک پس منظر
یہ جنگ اچانک نہیں ہوئی۔ پچھلے کئی مہینوں سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایران کے جوہری پروگرام، شام اور لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ، اور اسرائیل کی جارحیت — سب مل کر ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ بنے۔
جب امریکی اسٹیلتھ بمبارز نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کیے، اور ایران نے اس کے جواب میں اسرائیل کے حیفا، دیمونا اور تل ابیب پر میزائل داغے، تو پوری دنیا لرز گئی۔ مگر جیسے ہی امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا: “امن ہی طاقت ہے، تیل بہنے دو، دنیا کو سانس لینے دو اسرائیل اور ایران دونوں نے دباؤ میں آ کر جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی۔
اب کیا کرنا ہے؟ ایک حکمتِ عملی درکار ہے
اعلاقائی سلامتی کا نیا خاکہ
مشرقِ وسطیٰ کو ایک نیا علاقائی سیکیورٹی فریم ورک درکار ہے۔ ایران، سعودی عرب، ترکی، مصر اور متحدہ عرب امارات کو مل کر ایک “مشرقِ وسطیٰ امن معاہدہ” تشکیل دینا ہو گا، جس میں اسرائیل کی شمولیت بھی غیر مشروط ہو۔ اس معاہدے کے تین اہم ستون ہونے چاہئیں:
• ریاستی خودمختاری کا احترام
• غیر ریاستی گروہوں کی عسکری معاونت کا خاتمہ
• فلسطین و اسرائیل تنازع کا پرامن حل
اقتصادی بحالی اور عالمی مارکیٹ
جنگ نے عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تیل 130 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچا، شپنگ لائنیں متاثر ہوئیں، اور یورپی یونین کے کئی ممالک ریسیشن کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور G20 کو فوری طور پر ایک “مشرق وسطیٰ اکنامک اسٹیبلائزیشن فنڈ” بنانا چاہیے، جس سے ایران، لبنان، اور شام جیسے ممالک کی معیشت سنبھالی جا سکے۔
پاکستان کا کردار: خاموشی کا وقت ختم
پاکستان ایک ایٹمی قوت، مسلمان دنیا کا نمایندہ اور ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ اب محض بیانات کافی نہیں۔ ہمیں اقوامِ متحدہ میں ایک “مسلم امن قرارداد” پیش کرنی چاہیے، جو تمام اسلامی ممالک کو اسرائیل و ایران دونوں کے ساتھ ایک متوازن مکالمہ کے لیے متحرک کرے۔
آئندہ خطرات — اگر کچھ نہ کیا گیا
اگر عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ، روس اور چین، نے اس جنگ بندی کو صرف وقتی سکون سمجھا، اور فلسطین، غزہ، شام اور یمن جیسے مسائل کو جوں کا توں چھوڑ دیا، تو اگلی جنگ مزید خطرناک ہوگی۔ اسرائیل کے اندر سیاسی عدم استحکام، ایران میں داخلی مظاہرے، اور خطے میں طاقت کے خلا — سب مل کر ایک نئی تباہی کو جنم دے سکتے ہیں۔
اصلاحِ احوال: جنگ ذہنوں میں ختم کرنی ہے
اصل جنگ بموں اور بندوقوں کی نہیں، بلکہ بیانیے کی ہے۔ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے گا، اور جب تک ایران مغرب سے مکمل کٹاؤ کی پالیسی پر کاربند رہے گا، امن محض ایک فریب ہو گا۔
مسلمان دنیا کو بھی سوچنا ہو گا:
• ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں؟
• ہم داخلی جمہوریت، آزادیِ اظہار، اور تعلیم کو ترجیح کیوں نہیں دیتے؟
• ہمارا نوجوان صرف انتقام اور مظلومیت کے بیانیے میں کیوں الجھا ہوا ہے؟
امن کا دروازہ کھلا ہے، آگے بڑھنا ہم پر ہے
یہ جنگ بندی صرف ایک آغاز ہے۔ یہ ایک موقع ہے کہ دنیا خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اپنی تاریخ کا دھارا بدل دے۔ اگر ہم نے دانشمندی نہ دکھائی، تو یہ خاموشی طوفان سے پہلے کی ہو سکتی ہے۔
امن صرف معاہدے سے نہیں آتا، نیت سے آتا ہے۔ اگر دلوں میں نفرت باقی رہی، تو معاہدے کاغذ بن کر رہ جائیں گے۔ لیکن اگر نیت صاف ہو، تو دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے جیسا کہ فرانس اور جرمنی میں ہوا، جاپان اور امریکہ میں ہوا۔
تو آیئے، اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔ ایران و اسرائیل کے درمیان آگ بجھی ہے، اب دلوں میں چراغ جلانے کا وقت ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرطاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
غزہ میں غذا کی شدید کمی، حماس نے اسرائیلی قیدی کی لاش واپس کردی
غزہ میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی انسانی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔
بین الاقوامی سطح کی امدادی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ غزہ میں امدادی سامان کی بغیر رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ لاکھوں بے گھر فلسطینی خیموں، خوراک اور بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
اسرائیلی قیدی کی لاش واپس
عرب میڈیا کے مطابق حماس نے گزشتہ روز ایک اسرائیلی قیدی کی لاش انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیلی حکام کے حوالے کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی ہے، اب بھی چھ مزید اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں غزہ میں موجود ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ جب تک تمام لاشیں واپس نہیں کی جاتیں، وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں انسانی امداد کی آزادانہ ترسیل کے وعدے پر عمل نہیں کرے گا۔
اسی دوران اسرائیلی فوج نے یہ الزام لگاتے ہوئے مرکزی غزہ میں دو فلسطینیوں کو شہید کر دیا کہ وہ جنگ بندی کی حدود کے قریب پہنچ گئے تھے۔
غزہ کے صحت حکام کے مطابق، لکڑیاں جمع کرنے والا ایک فلسطینی بھی اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہوا ہے۔
عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس نے تمام لاشیں واپس نہ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ حماس کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں لاشوں کی تلاش مشکل ہے، اسرائیل بھاری مشینری اور بلڈوزرز کی غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق جس لاش کو حال ہی میں واپس کیا گیا ہے اسے مشرقی غزہ کے علاقے شجاعیہ میں چار روز تک ملبہ کھودنے کے بعد نکالا گیا تھا، اس کارروائی میں مصری ماہرین نے بھی حصہ لیا تھا، یہ علاقہ کئی ماہ سے اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہے۔
غزہ میں امدادی بحران برقرار
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد امدادی سامان کی ترسیل میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ اب بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک (WFP) کی ترجمان عبیر عتیفہ نے کہا ہے کہ ہم وقت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، سردی قریب ہے، لوگ بھوک سے دوچار ہیں اور ضرورتیں بے پناہ ہیں۔
غزہ حکام کے مطابق جنگ بندی کے بعد روزانہ اوسطاً 145 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ معاہدے کے تحت یہ تعداد 600 ٹرک ہونی چاہیے۔