غزہ میں اسرائیل-حماس جنگ بندی چند دنوں میں متوقع: ٹرمپ کے ثالث کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سرکاری ثالث بشارہ بہبہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ چند دنوں میں ممکن ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق بشارہ بہبہ فلسطینی نژاد امریکی سیاسی کارکن ہیں اور انہوں نے مصر و قطر کے ساتھ مل کر ثالثی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مصری چینل 'الغد' کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد اب غزہ ایک بار پھر خطے کی ترجیح بن چکا ہے۔
بشارہ کے مطابق، اصل اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ آیا عارضی جنگ بندی کے اختتام پر فریقین خودبخود مستقل جنگ بندی پر منتقل ہوں یا نہیں۔ حماس اس کی خودکار توسیع چاہتی ہے۔
بشارہ بہبہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں حماس کے رہنما غازی حمد سے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے علاوہ انسانی امداد کی فراہمی میں تیزی لانا بھی مذاکرات کا ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ فی الوقت روزانہ صرف 60 ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کے مطابق ناکافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف تجاویز زیر غور ہیں، کچھ مکمل یرغمالیوں کی رہائی پر مبنی ہیں جبکہ کچھ جزوی رہائی کے فارمولے پر ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ میں قتل و غارت کی تمام حدود پار ہوگئیں، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ناگزیر ہے: سربراہ اقوام متحدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیو یارک: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ کے عوام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ناگزیر ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں جاری تنازعات، انسانی حقوق کی پامالیوں اور بڑھتے ہوئے بحرانوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے غزہ اور یوکرین کی صورتحال کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا کہ 80 سال قبل متعدد ممالک نے عالمی امن کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی تھی، تاہم آج یہ ادارہ مختلف جانب سے اپنی صلاحیتیں محدود کرنے کی منظم کوششوں کا سامنا کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی امن اور ترقی کے اہداف شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں عوام پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ناگزیر ہے، جبکہ عالمی برادری کو انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں، حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے جواب میں غزہ کے معصوم عوام کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جنرل اسمبلی کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کے کردار کو اجاگر کیا اور کہا کہ جنرل اسمبلی بات چیت اور امن کے لیے ایک خاص فورم ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا میں استثنیٰ کی مسلسل پالیسی کے سبب امن کے ستون کمزور ہو رہے ہیں اور اگر مؤثر کثیرالجہتی ادارے نہ رہیں تو دنیا افراتفری کا شکار ہو جائے گی۔
سیکریٹری جنرل نے عالمی برادری سے سوال کیا کہ کیا ہم افراتفری کی دنیا چاہتے ہیں یا استحکام اور امن کی دنیا؟ انہوں نے زور دیا کہ قیام امن ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، لیکن جنگیں بے دردی سے پھیل رہی ہیں۔
آخر میں انتونیو گوتریس نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بین الاقوامی قانون کی اہمیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کا عزم برقرار رہنا چاہیے۔