ایران اسرائیل جنگ بندی؛ مسجد اقصیٰ کو 12 روز بعد مکمل طور پر کھول دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
مسجد اقصیٰ سمیت بیت المقدس کے دیگر مقدس مقامات کو 12 دن بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق ایران اسرائیل جنگ کے آغاز پر ہی مقبوضہ بیت المقدس کو بند کردیا گیا تھا اور سوائے مذہبی پیشوا اور انتظامیہ کے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
جمعے کی نماز کے لیے بھی بہت کم تعداد میں فلسطینیوں کو عبادت کی اجازت دی گئی تھی اور پھر دوبارہ بند کردی گئی تھی۔
علاوہ ازیں مقبوضہ بیت المقدس میں مسیحیوں کے مقدس ترین چرچ "کنیسہ القیامہ" اور یہودیوں کی "دیوار گریہ" کو بھی 12 روز کی بندش کے بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
خیال رہے کہ کورونا وبا کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب بیت المقدس کے تینوں مذاہب کے قابل احترام مقامات کو عوام کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
بیت المقدس انتظامیہ کا موقف تھا کہ یہ بندش سیکیورٹی خدشات کے باعث عائد کی گئی ہے جس کا مقصد شہریوں کی زندگیوں اور مقدس مقامات کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیت المقدس کے لیے
پڑھیں:
امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر
تہران:ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ تہران امن چاہتا ہے لیکن جوہری اور میزائل پروگرام ترک کرنے کے لیے زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم انٹرنیشنل فریم ورک کے تحت مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں مگر اس شرط پر نہیں کہ وہ کہہ دیں کہ آپ کو جوہری سائنس رکھنے یا میزائلوں کے ذریعے خود کا دفاع کرنے کا حق نہیں ہے ورنہ ہم آپ پر بمباری کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دنیا میں امن اور استحکام چاہتے ہیں لیکن مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بات قبول نہیں ہے کہ وہ جو چاہیں ہم پر مسلط کریں اور ہم اس پر عمل کریں۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں جبکہ ہمیں کہتے ہیں دفاع کے لیے میزائل نہیں رکھیں پھر وہ جب چاہیں ہمارے اوپر بم باری کرتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ایران پوچھ رہا تھا کہ کیا امریکی پابندیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔
یاد رہے کہ ایران نے دفاعی صلاحیت بشمول میزائل پروگرام اور یورینیم کی افزودگی روکنے کے منصوبے پر مذاکرات ممکن نہیں ہے۔
ایران اور واشنگٹن رواں برس جون میں 12 روزہ ایران اور اسرائیل جنگ کے بعد جوہری مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے حالانکہ امریکا اور اسرائیلی فورسز نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بم باری کی تھی۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ایران کا جوہری نظام اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے لیکن ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری میزائل امریکا، اسرائیل اور دیگر ممکنہ خطرات کے خلاف اہم دفاعی قوت ہے۔