data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت ناقابل برداشت  جب کہ ریاستی رٹ کے خلاف اقدام بغاوت سمجھا جائے گا۔

محرم الحرام کے دوران امن عامہ اور سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک جامع اور متفقہ ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے، جس میں تمام مسالک کے نمائندہ علما کی باہمی مشاورت اور دستخط شامل ہیں۔

کونسل نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی مسلح کارروائی، پرتشدد اقدام یا شدت پسندی کو بغاوت تصور کیا جائے گا، جو نہ صرف آئینی جرم ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ اس اہم اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری پر آئینی تقاضوں کی پابندی لازم ہے اور ریاستی نظم و ضبط کو چیلنج کرنا درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اعلامیے میں زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی فہم کی بنیاد پر کسی حکومتی یا سیکورٹی اہلکار یا کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے۔

محرم کے مہینے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کیے گئے اس ضابطہ اخلاق میں فرقہ واریت، لسانی تعصب اور انتہا پسندی سے اجتناب کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام مکاتب فکر کے علما کے ساتھ مشاورت کے بعد طے کیا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی یا تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور اس حوالے سے حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری سختی کے ساتھ ادا کریں۔

اعلامیے کے مطابق فرقہ وارانہ نعروں، اشتعال انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی تشہیر پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور جو افراد ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ پرامن اجتماعات و دیگر مذہبی رسومات کو مکمل آزادی حاصل ہے، مگر ان کا دائرہ قانون، اخلاقیات اور بین المسالک احترام کے دائرے میں رہنا لازم ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ریاست کی رٹ اور اداروں کی عزت کو مجروح کرنا یا قانون کو ہاتھ میں لینا اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اعلامیے میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسے عناصر سے ہوشیار رہیں جو محرم الحرام جیسے حساس مہینے کو فساد پھیلانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

کونسل نے ملک بھر کے علما، خطبا، ذاکرین اور سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے پیغام میں اعتدال، بھائی چارے اور حب الوطنی کو فروغ دیں۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کوئی بھی تقریر یا بیان جو دوسرے مکتب فکر کو نشانہ بنائے یا ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، معاشرتی فساد کا سبب بن سکتا ہے، جس سے گریز لازم ہے۔

ضابطہ اخلاق میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کی نشاندہی کرے جو انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے۔ امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنا صرف حکومتی اداروں کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نے ضابطہ اخلاق فرقہ واریت گیا ہے کہ کے خلاف کیا ہے

پڑھیں:

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

ریاض احمدچودھری

شدت پسند مودی حکومت کے دور میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا، حالیہ ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں مذہبی رواداری اور جمہوریت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ کانپور سے شروع ہونے والے مذہبی تنازع نے 4 ستمبر کو بڑے فسادات کی شکل اختیار کر لی جسے مبصرین نے "گجرات ٹو” قرار دیا ہے، یہ آگ تیزی سے دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ فسادات کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں متعدد معصوم مسلمان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھارت کو فاشزم کی تجربہ گاہ میں بدل چکا ہے، نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ مذہبی آزادی بھی اب مکمل طور پر ہندوتوا نظریے کی تابع بنا دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی کی سیاست نے بھارت کو مذہبی منافرت اور ریاستی جبر کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
سال 2025ء کی آمد پر بھارتی ریاست منی پور میں خونریزی اور نسلی فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ منی پور کے علاقے امپھال میں عسکریت پسندوں نے حالیہ حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں۔ان حملوں میں عسکریت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں کے بعد، کوکی قبائل کے افراد نے بھارتی فورسز اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے گاؤں والوں کو لوٹا۔ مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نہتے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔کوکی قبائل کے افراد نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی متصبانہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ حکمت عملیوں کے باعث منی پور میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں، اور مقامی لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ منی پور میں نسلی اور مذہبی کشیدگی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی اور عدم مداخلت کی وجہ سے ریاست میں امن و سکون کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے فوری طور پر مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک؛ 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک؛ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک؛ گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلم ثقافت، مذہبی ورثے اور تاریخی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم مہم پر گامزن ہے۔ مودی سرکار کی یہ پالیسیاں بھارت کو ”ہندو راشٹر” میں تبدیل کرنے کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی عکاس ہیں۔مودی حکومت کے تحت مساجد کی شہادت، تاریخی عمارتوں پر قبضے اور مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور سیاسی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اْتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی آباد کا نام کبیر دھام رکھا جائے گا۔یوگی آدتیہ ناتھ کا الزام ہے کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، اور پریاگ راج کا الہٰ آباد رکھا تھا۔اب مودی حکومت تاریخی مقامات کے نام ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقیدے اور ورثہ کی ترقی کیلئے استعمال ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کی یہ مہم محض شہروں کے ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی مسلم تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی سازش ہے۔ مودی کا نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” عملی طور پر ”سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” میں بدل چکا ہے۔بھارتی مسلمان، مودی حکومت کی سرپرستی میں ریاستی سطح پر جاری نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • اجتماع عام استحصالی نظام سے بغاوت کا اعلان ہے، کاشف سعید
  • اجتماع عام ظلم کے نظام کیخلاف ایک نئی اور منظم تحریک کا آغاز ہوگا‘ منعم ظفر خان
  • ریاستی اداروں کیخلاف بیان پرسہیل آفریدی کیخلاف مقدمہ درج
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کیخلاف مقدمہ درج، ریاستی اداروں کیخلاف گمراہ کن ویڈیوز کے ابلاغ کا الزام
  • وزیراعلیٰ کے پی کا حالیہ بیان فرقہ واریت کو ہوا دے گا، آفتاب شیر پائو
  • خاتون جسٹس کیخلاف توہین عدالت کی درخواست خارج، درست فورم جوڈیشل کونسل: اسلام آباد ہائیکورٹ
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • گرانفروشی ناقابل برداشت عوامی خدمت کیلئے کوشاں،چوہدری شفقت محمود
  • مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا