اسلام آباد:

پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ جو ایٹمی انرجی کا ادارہ ہے وہ نقصان کا جائزہ لے رہا ہے، امریکی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اسے مکمل تباہ کر دیا ہے. 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہمارے جو ایکسپرٹس ہیں اور ایٹمی توانائی کا جو ہمارا ادارہ ہے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کہاں تک یہ نقصان ہوا ہے، وہاں جو انفراسٹرکچر ہے جس میں اسٹیل ہے یا جو باقی سیٹری فیوجز ہیں وہ ضرور تباہ کر دیے ہیں لیکن ہمارا اٹامک نالج ہے وہ تباہ نہیں ہوا ہے، ہمارا ایٹمی نالج ہمارے سائنسدانوں کے سینے اور دماغ میں موجود ہے، بوشیر اور تہران میں ہمارے جو ری ایکٹر ہیں وہ کام کر رہے ہیں.

 

تجزیہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ ایس سی او میں بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے کیونکہ قومی سلامتی مشیر اور ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل عاصم ملک اور انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول وہ تو گذشتہ دو دنوں سے وہیں تھے، جو سیشن تھا اس میں بھی آمنے سامنے بیٹھے رہے، این ایس اے نے پاکستان کا پرسپیکٹیو دیا، بی جے پی گورنمنٹ جب سے آئی ہے، انڈیا پالیسی کا جو ایک کنسٹرکٹ ہے وہ اجیت ڈوول ہے تو اجیت ڈوول کا وہاں موجود ہونا اور ڈی جی آئی ایس آئی کا ہونا یہ بڑا مینگ فل ہے. 

تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ موقع سے فائدہ اٹھانے کا انحصار اس پر ہے کہ انڈیا کس موڈ میں ہے، انھوں نے جس طریقے سے کوشش کی وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہم پر حاوی ہو جائیں گے، پاکستان کو دبائیں گے لیکن اس کا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا، اب جو یہ ملاقات ہورہی ہے یہ ایک ڈیفرنٹ مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہو رہی ہے، حالیہ عرصے میں ہم نے ان کو ایک شکست دی ہے، راج ناتھ سنگھ نے وہاں سے صرف باتیں کی ہیں اور ہماری افواج نے اصل کام کر کے دکھایا ہے.

(ر) میجر جنرل زاہد محمود نے بظاہر تو اس وقت امکان نظر نہیں آتا لیکن ایک چیز یاد رکھیے گا کہ جو ٹریک ٹوز ہوتے ہیں یا بیک ڈور چینلز ہوتے ہیں وہ مسلسل کہیں نہ کہیں کام کر رہے ہوتے ہیں، جب پلوامہ کا بھی واقعہ ہوا تھا تو تھرو چین کافی چیزیں شیئر بھی ہوئی تھیں اور تھرو تھرڈ پارٹی اجیت ڈوول اور یہ لوگ پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کوشش کر رہے تھے، موجودہ ایسکلیشن کے دوران اجیت ڈوول نے کوشش کی پاکستان کی ملٹری قیادت تک پہنچنے کی تو بیک ڈور میں کچھ چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

-1تعارف:
بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود انسانی ترقی کے اشاریوں میں سب سے پسماندہ ہے۔ صوبے کے پہاڑوں کے نیچے چھپے کوئلے، تانبے، سونے اور گیس کے ذخائر پاکستان کی صنعتی و تجارتی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان وسائل کے دوہنے میں سب سے زیادہ حصہ کوئلے کی کان کنی کا ہے، جس نے ہزاروں مزدوروں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ تاہم، یہی شعبہ مزدوروں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر منصفانہ بھی ہے۔ بلوچستان کے کوئلہ کان کن نہ صرف غربت، بیماری اور سماجی محرومی کا شکار ہیں بلکہ ریاستی و نجی اداروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث ان کی زندگیاں ہر لمحہ خطرے میں رہتی ہیں۔

بلوچستان کی کوئلہ کان کنی کا نظام روایتی، غیر منظم اور غیر انسانی اصولوں پر قائم ہے۔ کان کن عموماً ایسے افراد ہوتے ہیں جو تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات سے محروم پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اجرت معمولی ہے، مگر ان کا کام جسمانی طور پر انتہا درجے کا مشکل اور خطرناک ہے۔ ان مزدوروں کو نہ تو مستقل ملازمت ملتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سماجی تحفظ کی ضمانت۔ اکثر اوقات کانوں میں کام کرنے والے مزدور ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو انہیں حفاظتی سامان دینے کے بجائے پیداوار بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً کوئلے کے دھوئیں، زہریلی گیسوں اور زمین دھنسنے کے حادثات روزمرہ کے معمول میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ بلوچستان میں کان کنوں کے استحصال کے معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل کیا ہیں، اور ریاستی ادارے اس استحصال کو کم کرنے میں کس حد تک ناکام رہے ہیں۔ اس مطالعے میں کوئلہ کان کنی کے تاریخی پس منظر، مزدوروں کی موجودہ حالت، حکومتی پالیسیوں، حادثات کے تجزیے اور مزدور یونینز کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق میں اس امر پر بھی بحث کی گئی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور ناقص حفاظتی انتظامات نے انسانی جانوں کو کس طرح کمزور معیشت کے ایندھن میں بدل دیا ہے۔
یہ مضمون تحقیقی اور تجزیاتی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے، جس میں سرکاری اعداد و شمار، انسانی حقوق کی رپورٹس اور ذرائع ابلاغ کی معتبر دستاویزات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تحقیق کا مقصد صرف استحصال کی نشاندہی نہیں بلکہ ان ممکنہ پالیسی اصلاحات کی نشاندہی بھی ہے جن سے کان کنوں کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ چونکہ بلوچستان کی کان کنی ملک کی توانائی کا اہم ذریعہ ہے، لہٰذا اس کے انسانی پہلو کو نظر انداز کرنا نہ صرف سماجی ناانصافی ہے بلکہ معاشی استحکام کے لیے بھی خطرناک ہے۔

-2 تاریخی پس منظر:
بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا، جب انگریز حکام نے ہرنائی، مچ اور دکی کے علاقوں میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے۔ برطانوی سامراج نے اس خطے کے قدرتی وسائل کو اپنی ریلوے اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال کیا، مگر مقامی آبادی کو اس عمل سے کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ کان کنی کے ابتدائی نظام میں مزدوروں کو نہ حفاظتی انتظامات میسر تھے، نہ اجرت کا باقاعدہ ڈھانچہ موجود تھا۔ یہ استحصال نوآبادیاتی دور میں شروع ہوا اور بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتِ بلوچستان نے کوئلے کی کانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی، مگر عملی سطح پر یہ نظام سرمایہ دارانہ ٹھیکیداری ڈھانچے میں جکڑا رہا۔ بیشتر کانیں نجی لیز پر مقامی یا غیر مقامی سرمایہ داروں کے حوالے کی گئیں۔ ان ٹھیکیداروں نے برطانوی نظامِ مزدوری کو برقرار رکھا جہاں محنت کش صرف ایک ’’پیداواری ذریعہ‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 50 کی دہائی میں محکمہ مائنز اینڈ منرلز قائم ہوا، مگر اس کا کردار کاغذی حد تک محدود رہا۔

70 اور اسی کی دہائی میں کان کنی بلوچستان کی معیشت میں اہم کے دھماکوں سے ہلاکتیں عام ہیں۔ یہ استحصال اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب زخمی یا ہلاک مزدوروں کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
(جاری )

عبدالحکیم مجاہد گلزار

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی جانب سے افغان بارڈر کی بندش سے کتنے کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا؟
  • پاکستان کی جانب سے افغانستان بارڈرز کی بندش سے کتنے کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا؟
  • اقبالؒ اسلام کی روح اور فارسی ادب کی خوشبو سے پہچانے جاتے ہیں‘ ایرانی سفیر
  • بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
  • اقوام متحدہ کا پاکستان کی منشیات کے خلاف کارروائیوں کا عالمی سطح پر اعتراف
  • عبدالصمد کی جارحانہ اننگز، پاکستان کی سیمی فائنل میں انٹری
  • پاکستان کی موثر انسدادِ منشیات کارروائیوں پر اقوام متحدہ کا اعتراف
  • پاکستان کو منشیات کے خلاف جنگ میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا: اقوام متحدہ
  • پاکستان میں گوگل کے دفاتر کا قیام، وزیرِ اعظم شہباز شریف کا خیر مقدم
  • ہانگ کانگ سکسز: بارش نے بھارت کو شکست سے بچالیا، پاکستان کیخلاف 2 رنز سے فتح