مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے بنچ میں کچھ ججز کی شمولیت پر اعتراض کیا، جن ججز کی 26ویں ترمیم کے بعد بنچ میں شمولیت پر اعتراض ہوا میں بھی ان میں شامل ہوں، میں ان وجوہات کی بنا پر بنچ میں مزید نہیں بیٹھ سکتا جس کئ بعد سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا۔ اسلام ٹائمز۔ مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا۔ سپریم کورٹ میں جاری مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کی سماعت کے آغاز میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کر لی جس پر کیس کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا۔ سماعت کے آغاز میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا ہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد لازم ہے، ضروری ہے کسی فریق کا بنچ پر اعتراض نہ ہو۔
جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ حامد خان نے بنچ میں کچھ ججز کی شمولیت پر اعتراض کیا، جن ججز کی 26ویں ترمیم کے بعد بنچ میں شمولیت پر اعتراض ہوا میں بھی ان میں شامل ہوں، میں ان وجوہات کی بنا پر بنچ میں مزید نہیں بیٹھ سکتا، میں اپنا مختصر فیصلہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس صلاح الدین نے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ کا اعتراض ہمارے اس بنچ میں بیٹھنے سے تھا، ذاتی طور پر تو آپ کا میرا ساتھ 2010ء سے رہا ہے، آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا مگر یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں ہے۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ ججز پر جانبداری کا الزام لگا جس سے تکلیف ہوئی، عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے درست نہیں۔
اس موقع پر وکیل حامد خان نے کہا کہ میں آپ کے اقدام کا خیر مقدم کرتا ہوں، اس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ خیرمقدم کرنے کا معاملہ نہیں ہے، ہم اسی کیس میں سنی اتحاد کونسل کے دوسرے وکیل کو سن رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے، ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو موقع دیا، آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جسٹس صلاح الدین نے شمولیت پر اعتراض الدین نے کہا کہ بنچ ٹوٹ گیا سپریم کورٹ ججز کی کا بنچ
پڑھیں:
حکومت، اپوزیشن کام نہیں کرتیں سارابوجھ عدالت پر پڑتا ہے، سپریم کورٹ
کیاہم پارلیمنٹ کو ہدایت کرسکتے ہیں؟ ہماری خواہش ہے کہ آئین پر چلیں، پارلیمنٹ کی نیت اورمقاصد کودیکھناہے، بحث کو نہیں دیکھ سکتے
عوام نے ارکان کوووٹ دے کراس لئے نہیں بھیجا کہ اسمبلی میں گونگے بن کر بیٹھے رہیں،سپرٹیکس معاملے میں سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس کے معاملہ پر لاہور، سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن اپنا کام نہیں کرتیں توسارابوجھ عدالت پر پڑتا ہے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ کیاہم پارلیمنٹ کو ہدایت کرسکتے ہیں؟ ہماری خواہش ہے کہ آئین پر چلیں۔ اگر بینظیر بھٹو کی حکومت کو مس مینجمنٹ کی بنیاد پرفارغ کیا گیا تھاتوکیا اُس وقت مس مینجمنٹ زیادہ تھی یاآج کے زمانہ میں زیادہ ہے۔ 15کروڑ سے اوپر جو 10لاکھ ہیں وہ خیرات کردیں توٹیکس نہیں لگے گا۔ گیس کے 300یونٹس کا اورریٹ ہے اور زائد پر اورریٹ ہے اگرہم وکیل کے دلائل مان لیں توپھر ہرکوئی عدالت آجائے گا۔ اگر ٹیکس ریکوری مئوثر ہو جاتی تو حکومت کو اضافی ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ ہرقسم کی قانون سازی ایک ہی طریقہ سے ہوتی ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اغراض ومقاصد کیا ہیں، اگر اغراض ومقاصد آئین کے خلاف ہوں توپھر قانون سازی کالعدم قراردی جاسکتی ہے۔ ہم نے پارلیمنٹ کی نیت اورمقاصد کودیکھناہے، بحث کو نہیں دیکھ سکتے۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضو ی نے ریمارکس دیٔے ہیںکہ عوام نے ارکان کوووٹ دے کراس لئے نہیں بھیجا کہ اسمبلی میں گونگے بن کر بیٹھے رہیں،بحث ہوگی تواچھی یابری نیت کاپتا چلے گا۔ اپوزیشن نے سینیٹ میں بھی نعرے ہی لگائے ہوں گے۔ پرنٹ یاسوشل میڈیا پر کوئی بات ایسی نہیں آئی کہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہو،اس حوالہ سے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے منگل کے روز سپر ٹیکس کے معاملہ پر لاہور، سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے دائر2044درخواستوںپرسماعت کی۔