ظہران کوامے ممدانی کی نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک میئرل پرائمری میں کامیابی نے بھارت اور امریکا  میں موجود ہندو قوم پرست حلقوں اور بھارتی تارکین وطن کے بعض طبقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔

یہ تنقید اور بعض اوقات کھلی دشمنی ان کی مذہبی اور نسلی شناخت، سیاسی نظریات، اور بھارت و فلسطین کے بارے میں ان کے کھلے بیانات سے جڑی ہوئی ہے۔

33 سالہ بھارتی نژاد امریکی، مسلمان اور جمہوری سوشلسٹ ظہران ممدانی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر کھلی تنقید کی، فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، اور ترقی پسند نظریات اپنائے، جن کی وجہ سے بھارتی میڈیا اور ایکس سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کے خلاف مہم تیز ہو گئی۔

حال ہی میں ظہران ممدانی نے نریندر مودی کو ’جنگی مجرم‘ قرار دیا اور ان کا موازنہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کیا، جس کا حوالہ 2002 کے گجرات فسادات کے تناظر میں دیا گیا۔ اس بیان پر بھارتی نژاد امریکی رہنماؤں نے سخت ردعمل دیا اور ظہران ممدانی پر امریکا  کی مقامی سیاست میں ’تقسیم پیدا کرنے والا بیانیہ‘ اپنانے کا الزام عائد کیا۔

ظہران ممدانی نے ٹائمز اسکوائر میں ایک احتجاج کی قیادت کی جس میں ایسے نعرے لگائے گئے جو دائیں بازو کے ہندوؤں کو ناگوار گزرے، یہ مظاہرہ مبینہ طور پر سکھ حقوق کے حامیوں کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بھارت میں مزید غصہ پیدا ہوا کیونکہ ظہران ممدانی کو انتہا پسند تحریکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔

ظہران ممدانی نے ’گلوبلائز دی انتفاضہ‘ کے نعرے کی بھی کھل کر حمایت کی، جسے انہوں نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی قرار دیا، ان کے بیانات پر بھارتی نژاد امریکی برادری میں خاصا ردعمل سامنے آیا، خاص طور پر ان افراد کی طرف سے جو ان کی باتوں کو اشتعال انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والی سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر کے لیے امیدوار ظہران ممدانی اور امریکی صدر ٹرمپ آمنے سامنے

ظہران ممدانی پر ہونے والی تنقید صرف نظریاتی نہیں بلکہ مذہبی اور نسلی تعصب پر بھی مبنی ہے، کئی ہندو قوم پرستوں نے ان کی مسلم شناخت اور بھارتی پس منظر کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’غیرملکی‘ یا ’ملک دشمن‘ قرار دیا، سوشل میڈیا، رائے مضامین، اور قوم پرست فورمز پر انہیں بھارت مخالف قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ خود بھارتی نژاد ہیں۔

یہ رجحان اس وسیع تر مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارتی مسلمان دانشوروں کو صرف ان کے نظریات نہیں بلکہ ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، دائیں بازو کے غصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کی آواز کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔

یہ غصہ جلد ہی ایکس سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیل گیا، جہاں کمنٹیٹرز نے ظہران ممدانی پر سخت تنقید کی۔ ایک وائرل پوسٹ میں انہیں ’جہادی میئر‘ مخاطب کرتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ وہ ہندوؤں اور یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان کے والد ماہر تعلیم محمود ممدانی اور والدہ فلمساز میرا نائر کو بھی دوغلے قرار دیا گیا۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ نے نیو یارک کے امیدوار برائے میئرشپ ظہران ممدانی کو ’کمیونسٹ پاگل‘ قرار دیدیا

ایک اور صارف نے لکھا کہ وہ بھارتی کمیونٹی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر رہے ہیں اور ہندوؤں کو فسطائی کہہ کر ان کی توہین کر رہے ہیں، جو ناقابلِ قبول ہے، امریکی کانگریس کے کئی ریپبلکنز اور دائیں بازو کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے بھی ایکس پر نفرت آمیز بیانات دیے۔

New York City just handed its Democrat mayoral primary to @ZohranKMamdani, a communist jihadi backed by New York’s communist Attorney General Letitia James @TishJames and raised by a father who believes terrorism is justified as "anti-colonial resistance.

"

Trevor Loudon… pic.twitter.com/zNOco3Niwq

— Laura Loomer (@LauraLoomer) June 26, 2025

قدامت پسند شخصیت لورا لوومر نے دعویٰ کیا کہ ظہران ممدانی امریکیوں کو قتل کرانا چاہتے ہیں، ایک اور پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ مسلمان اب نیویارک میں جہاد شروع کریں گے۔

قدامت پسند کارکن چارلی کرک نے 9/11 کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 24 سال پہلے مسلمانوں نے 2,753 افراد کو مارا، اب ایک مسلمان سوشلسٹ نیویارک کا میئر بننے جا رہا ہے۔

ایک بھارتی سیاسی مبصر نے ظہران ممدانی کی جیت کو مشہور ٹی وی سیریز ڈیئرڈیول (Daredevil)  کے ولن ’ولسن فسک‘ کے میئر منتخب ہونے سے تشبیہ دی۔

When I first watched the #Daredevil series, I wondered how the people of New York could ever elect Kingpin like Wilson Fisk as their Mayor, it's so fake.

But now, seeing New York elect an Islamist like Zohran Mamdani, I realise, maybe Daredevil wasn’t fiction after all.

— Mr Sinha (@MrSinha_) June 25, 2025

یہ تمام بیانات اس بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں جہاں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو، خاص طور پر ان افراد کو جو ہندوتوا یا اسرائیلی پالیسیوں کے ناقد ہوں، سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ظہران ممدانی  کی جیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطین، بھارت کی سیاست، اور مذہبی شناخت جیسے عالمی مسائل اب امریکا  کے مقامی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، چاہے انہیں آپ ایک مثبت انقلابی سمجھیں یا متنازع شخصیت، ان پر ہونے والا ردعمل یہ واضح کرتا ہے کہ آج کی سیاست میں شناخت اور نظریہ کتنی گہری اہمیت رکھتے ہیں۔

شناختی سیاست: دائیں بازو اتنا مشتعل کیوں ہے؟

ظہران  ممدانی  کی سیاست ان کے خاندانی پس منظر سے جڑی ہے، جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف اور فلسطین کی حمایت پر مبنی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ان کے درمیانی نام ’کوامے‘ کا تعلق ان کے افریقی ورثے سے ہے، جو ان کے والد کی جانب سے ہے۔ یہ نام گھانا کے پہلے صدر ’کوامے نکروما’ کی یادگار ہے، جو پین افریقن تحریک کے اہم رہنما تھے۔

ان کے والد محمود ممدانی  نے ایک بار کہا تھا کہ یہودیوں کو ایک وطن کا حق ہے، مگر ریاست کا نہیں، جس پر انہیں اسرائیلی حامی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی والدہ میرا نائر نے اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً 2013 میں حیفہ فلم فیسٹیول میں شرکت سے انکار کر دیا تھا اور وہ ’بائیکاٹ، سرمایہ نکالو، پابندیاں لگاؤ‘ تحریک کی حامی ہیں۔

 

ظہران  ممدانی نے فلسطینیوں کے لیے اسٹوڈینٹس فارجسٹس ان فلسطین گروپ کی بنیاد رکھی، وہ بلیک لائفس میٹر کی حمایت کرتے ہیں، اور ودان اور لائف ٹائم نامی فلسطین حامی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں، ان کے یہ نظریات انہیں عالمی بائیں بازو کی تحریک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ وہ ہندوتوا اور صیہونی نظریات سے ٹکرا جاتے ہیں۔

ان کی مسلم اور بھارتی شناخت، فلسطینی حمایت اور ہندوتوا پر تنقید انہیں بھارت اور امریکا ، دونوں ممالک کی مرکزی سیاست سے الگ ایک نظریاتی شخصیت بنا دیتی ہے، ان کے پس منظر اور نظریاتی وابستگیوں کی وجہ سے جو ردعمل آیا ہے وہ پالیسی سے زیادہ شناخت پر مبنی ہے، جو مغربی دنیا میں اقلیتی سیاست دانوں کو درپیش ایک مسلسل چیلنج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افریقی ورثے انقلابی جہادی میئر حیفہ فلم فیسٹیول طہران ممدانی گجرات متنازع شخصیت، محمود ممدانی مسلمان سوشلسٹ میئر میرا نائر نوآبادیاتی نظام نیویارک ہندوتوا

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افریقی ورثے انقلابی جہادی میئر گجرات متنازع شخصیت نوآبادیاتی نظام نیویارک ہندوتوا بھارتی نژاد سوشل میڈیا اور بھارت جا رہا ہے قرار دیا کے خلاف رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

امریکہ، چین اور خطے کی سیاست

محمد آصف

دنیا کی سیاست میں امریکہ اور چین دو ایسی بڑی طاقتیں ہیں جن کا اثر و رسوخ صرف اپنی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا پر براہِ راست پڑتا ہے ۔ اکیسویں صدی کو اگر ”ایشیا کی صدی” کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی معیشت اور سیاست کا محور تیزی سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے ۔ چین اپنی معاشی ترقی، ٹیکنالوجی میں جدت، اور خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے ، جبکہ امریکہ اب بھی عسکری طاقت، عالمی اداروں میں اثر و رسوخ، اور روایتی اتحادیوں کے سہارے دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے ۔ یہی کشمکش خطے کی سیاست کو پیچیدہ اور غیر یقینی بنا رہی ہے ۔
امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ کردار سوویت یونین کے خلاف تھا اور آج یہی پالیسی چین کے خلاف نظر آتی ہے ۔ امریکہ خطے میں بھارت کو ایک بڑی اسٹریٹجک طاقت کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے تاکہ چین کو روکا جا سکے ۔ دوسری طرف، چین”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو”(BRI)اور”چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور” (CPEC) جیسے منصوبوں کے ذریعے خطے میں معاشی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔ یہ صورتحال امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئے قسم کے سرد جنگی ماحول کو جنم دے رہی ہے ۔ پاکستان اس کشمکش میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے
پاکستان خطے کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چین کے ساتھ اس کے تعلقات روایتی طور پر مضبوط ہیں اور سی پیک کو پاکستان اپنی معاشی ترقی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے ۔ مگر دوسری طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کو نظرانداز نہیں کر سکتا، کیونکہ امریکہ اب بھی عالمی
مالیاتی اداروں، فوجی امداد، اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بار بار ”بیلنسنگ ایکٹ”کرنا پڑتا ہے ، یعنی ایک طرف چین سے قریبی تعلقات رکھنا اور دوسری طرف امریکہ کو بھی ناراض نہ کرنا۔
خطے میں بھارت کا کردار بھی امریکہ اور چین کی سیاست کا اہم حصہ ہے ۔ امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔”کواڈ” (QUAD) اتحاد جس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں ۔اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ایشیا میں چین کے بڑھتے اثرکو روکنے کے لیے ایک اتحاد بنا رہا ہے ۔ اس کے مقابلے میں چین پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں بھارت کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کشمکش کے اثرات نہ صرف سیاسی اور دفاعی شعبوں میں ہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی نمایاں ہیں۔
افغانستان کی صورتحال بھی اس خطے کی سیاست پر گہرے اثرات ڈال رہی ہے ۔ امریکہ نے طویل جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کیا، لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے چین اور روس آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے بعد افغانستان میں امن و امان اور دہشت گردی کے خدشات کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات نے خطے کے ممالک کو نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہا ہے جبکہ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان اس سارے منظرنامے میں براہِ راست متاثر ہو رہا ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال کا اثر اس کی سیکیورٹی اور معیشت دونوں پر پڑتا ہے ۔
امریکہ اور چین کے درمیان یہ مقابلہ محض عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت اور عالمی اداروں پر اثر و رسوخ کی جنگ بھی ہے ۔ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ ہائی ٹیک انڈسٹریز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، اور دفاعی ٹیکنالوجیز پر اپنی برتری قائم رکھے ، جبکہ چین تیزی سے ان شعبوں میں ترقی کر رہا ہے ۔ 5G ٹیکنالوجی، الیکٹرک گاڑیاں، اور جدید انفراسٹرکچر میں چین نے کئی ممالک کو اپنی طرف مائل کر لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چینی ٹیکنالوجی، خاص طور پر ہواوے اور دیگر کمپنیوں کو استعمال نہ کریں۔
خطے کے دوسرے ممالک جیسے ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستیں، اور خلیجی ممالک بھی اس بڑی طاقتوں کی کشمکش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایران چین کے ساتھ معاہدے کر کے امریکہ کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، جبکہ خلیجی ممالک ایک طرف امریکہ کے روایتی اتحادی ہیں مگر دوسری طرف وہ چین سے معاشی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے کی سیاست اب ایک کثیر رخی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں ممالک صرف ایک طاقت پر انحصار کرنے کے بجائے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اس عالمی اور علاقائی کشمکش میں اپنے مفادات کو کیسے محفوظ رکھے ۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان کو توانائی، انفراسٹرکچر اور روزگار کے مواقع مل رہے ہیں، مگر امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا مطلب عالمی مالیاتی اداروں سے مشکلات اور سفارتی دباؤ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے پاکستان کو نہ صرف معاشی خودکفالت کی طرف جانا ہوگا بلکہ ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ وہ دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکے ۔ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے امریکہ، چین اور خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب یا دور کیا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل نہیں کہ وہ تنہا ان سے نمٹ سکیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کو قائل کرے کہ ماحولیاتی انصاف کے تحت کمزور ممالک کی مدد کی جائے ۔ چین نے گرین انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی ہے ، جبکہ امریکہ نے بھی ”کلائمٹ چینج” کے حوالے سے کئی عالمی وعدے کیے ہیں۔ خطے کی سیاست میں یہ پہلو بھی ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے ۔ مستقبل کی سیاست کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکہ اور چین کی یہ کشمکش کہاں تک جاتی ہے ۔ اگر یہ محاذ آرائی کھلی ٹکراؤ میں بدلتی ہے تو خطے کے ممالک کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی، لیکن اگر یہ مقابلہ زیادہ تر معاشی اور سفارتی حدود میں رہے تو چھوٹے ممالک اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موقع یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت، معاشی مواقع اور سفارتی کردار کو اس انداز میں استعمال کریں کہ دونوں طاقتوں سے فائدہ بھی اٹھائیں اورکسی بڑی طاقت کے ساتھ دشمنی مول نہ لیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • شادی کے لیے خون سے لکھے ہوئے خط موصول ہوئے، امریتا راؤ
  • امریکہ، چین اور خطے کی سیاست
  • فرانس کے سابق صدر کو قذافی فنڈنگ کیس میں 5 سال قید کی سزا
  • کارگل جنگ میں بھی کھلاڑی ہاتھ ملا رہے تھے تو اب ایسا کیوں ہے؟ سابق بھارتی وزیربھی بول پڑے
  • ایک سال سے کہانیاں سنائی جارہی ہیں، سات دن میں خالی آسامیاں پُر کریں، جسٹس محسن اختر کیانی ڈپٹی کمشنر پر برہم
  • کِم کارڈیشین 44 برس کی عمر میں اتنی فٹ کیسے ہیں؟
  • ایس ایس جی سی کی مبینہ کرپشن‘اووربلنگ‘بدنظمی سامنے آگئی
  • ’سیاست سے باہر نکلیں اور ٹیم کے لئے کھیلیں ‘، یونس خان قومی ٹیم پر برس پڑے
  • کیا امریتا راؤ شاہ رُخ خان کی وجہ سے کم فلموں میں نظر آئیں؟
  • وحید مراد روڈ پر عرصہ دراز سے سیوریج کانظام درہم برہم ہے جس کی وجہ سے ٹریفک روانی میں مشکلات کاسامناہے