Jasarat News:
2025-08-11@16:35:10 GMT

امریکی سیاست پر ڈھیلی پڑتی صہیونی گرفت

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیو یارک میں چوبیس جون کو ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے مئیر کے عہدے کے لیے پرائمری انتخابات بظاہر ایک معمولی انتخابات تھے جس میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک کو نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اپنے نمائندے کا چنائوکرنا تھا مگر یہ انتخابات نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ یوں تو اس انتخاب میں گیارہ امیدوار تھے مگر اصل مقابلہ نیویارک کے ایک نہایت اہم سیاسی خاندان کے نمائندے گورنر ابن گورنر اینڈریو کیومو اور سیاسی میدان میں نووارد یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ہندوستانی نژاد مسلمان امیدوار تینتیس سالہ ظہران ممدانی کے درمیان تھا۔ ظہران ممدانی نے فقط آٹھ سال پہلے امریکی شہریت اختیار کی ہے۔ ظہران ممدانی پروفیسر محمود ممدانی اور مشہور ہندوستانی فلم ساز میرا نائیر کے صاحبزادے ہیں اور خود کو ایک ’’مسلم سوشلسٹ‘‘ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ ظہران ممدانی نے یہ مقابلہ باآسانی جیت کر امریکی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے۔ امید تو یہ کی جارہی تھی رینک چوائیس ووٹنگ میں شاید دوسرے راونڈ میں کوئی واضح صورت حال سامنے آئے مگر ظہران نے پہلے ہی راونڈ میں فیصلہ کن برتری حاصل کرکے سارے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ ظہران ممدانی یوں تو اپنی مہم کا مرکز نیویارک میں بڑھتے ہوئے مکان کے کرایوں کی روک تھام، مفت ٹرانسپورٹ اور بچوں کی مفت نگہداشت کو بنائے ہوئے تھے مگر جس چیز نے اس مہم کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا وہ ان کی ماضی میں اسرائیل کی درندگی کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ وہ اسرائیل کی بائیکاٹ مہم کا حصہ بھی رہے تھے۔
اپنی انتخابی مہم کے شروع میں ظہران ممدانی کو شاید ان کے محلے ایسٹوریا سے باہر بھی، جہاں سے وہ نیویارک کے گانگریس مین منتخب ہوئے تھے، کوئی نہ جانتا ہوگا۔ ابتدائی طور پر مئیر کی مہم میں ان کی مقبولیت صرف ایک فی صد تھی مگر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کے ذریعے انہوں نے رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم تیار کرکے نیویارک کے گھر گھر پر دستک دینا شروع کردیا۔ مبصرین کے مطابق ان جیسی توانائی سے بھرپور سیاسی مہم کی حالیہ ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی اس مقبولیت نے اسرائیل نواز صہیونی لابی کو چوکنا کردیا اور انہوں نے ظہران ممدانی کے خلاف یہودی مخالف (اینٹی سیمیائیٹ) ہونے کی مہم شروع کردی۔ نیویارک اسرائیل سے باہر یہودیوں کا سب سے بڑا شہر ہے جس میں تقریباً دس لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ نیویارک پر یہودی لابی کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ الیکشن سے ایک روز قبل اسرائیل کے بائیں بازو کے ایک اہم اخبار ہاریٹز نے اس دوڑ کو امریکا پر اسرائیل کے اثر رسوخ کے مستقبل کے لیے ایک بہت اہم مقابلہ قرار دیا تھا۔ اخبار کے مطابق اگرچہ کہ ظہران ممدانی کا کوئی یہود مخالف ( اینٹی سیمیٹک) ریکارڈ نہیں ہے مگر اسرائیلی لابی ظہران ممدانی کے خلاف اینٹی سیمائیٹ ہونے کا الزام لگا کر ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیے ہوئے ہے۔ اخبار کے مطابق اس مضبوط اسرائیلی لابی کے لیے ظہران ممدانی کا اینٹی سیمائیٹ ہونا اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے جتنا ان کا نیویارک کے مئیر کی دوڑ جیتنے کی صورت میں امریکی سیاست کی بنیادیں ہلادینا ہے۔ اخبار کے مطابق ظہران ممدانی کی کامیابی کی صورت میں واشنگٹن تک سیاست کی بنیادیں ہلنے کا خطرہ ہے اور ڈیموکریٹ پارٹی پر اسرائیلی لابی کی گرفت ڈھیلی پڑ سکتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پہلے ہی ڈیموکریٹس ووٹ بیس کے اندر اسرائیل کی حمایت میں نمایاں کمی اور فلسطین کی حمایت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق ظہران ممدانی نے اپنے خلاف ان الزامات کا اب تک بڑی سمجھداری اور بردباری سے مقابلہ کیا ہے۔
ممدانی نے شروع سے فلسطینیوں کی جدو جہد کا ساتھ دیا ہے اور غزہ میں جاری قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ ان کا رویہ اسرائیل کے حوالے سے اب تک غیر معذرت خواہانہ رہا ہے۔ ایک مباحثے کے دوران جب تمام امیدواروں سے پوچھا گیا کہ وہ مئیر بننے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کریں گے تو اسرائیلی لابی کی خوشامد کے لیے سابق گورنر کیومو سمیت اکثر نے اسرائیل کہا جبکہ ممدانی نے کہا کہ وہ شہر میں رہ کر شہر کی خدمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شہر کے لوگوں کی خدمت کرتے وقت یہودی، عیسائی، مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کریں گے۔ اس سوال کے بعدوہ واحد امیدوار تھے جن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اسرائیلی ریاست کی یہودی شناخت کے ساتھ وجود رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی ریاست پر سب کے لیے یکساں حقوق کی ضمانت کے ساتھ وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
قسمت کا کھیل دیکھیے کہ جو سوال ظہران ممدانی کو گھیرنے کے لیے کیا گیا تھا اسی کے جواب نے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ایک شہر کے مئیر کے الیکشن کا اسرائیل سے کیا تعلق ہے۔ یہی سوال مختلف نیوز چینلوں پر ان سے دہرایا جاتا رہا۔ جہاں وہ اپنے یہودی مخالف ہونے کی تردید کرتے وہیں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ بھی کرتے۔ ان کا یہ غیر معذرت خواہانہ انداز اکثر لوگوں کو بھا گیا یہاں تک کہ ان کو ووٹ دینے والوں میں ایک معقول تعداد یہودیوں کی بھی تھی۔ ظہران ممدانی کے خلاف صہیونی لابی کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیویارک کے اسٹیٹ سینیٹر سیم سٹن نے تل ابیب کے بم شیلٹر سے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ممدانی کو نہ روکا گیا تو امریکا میں بھی آپ کو اسرائیل کی طرح شیلٹر میں پناہ لینی پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے’’یہودیوں کے دوست‘‘ کیومو کو وووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز جو نیویارک کا موثر ترین اخبار ہے اور جس کی اینڈورسمنٹ نیویارک کے الیکشن میں اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے اس نے اپنے ایک اداریے میں پہلی دفعہ انوکھا رخ اختیار کرتے ہوئے کسی امیدوار کی توثیق نہیں کی تھی بلکہ ظہران ممدانی کو نیو یارک کے لیے خصوصی طور پر غیر موزوں قرار دیتے ہوئے ان کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی۔ اسی طرح سب سے مقبول ٹیبلوائیڈ نیویارک پوسٹ نے الیکشن والے دن سرورق پر ظہران ممدانی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی۔
یہودی لابی کی اس بھر پور مخالفت کے باوجود ظہران ممدانی کا اتنی بھاری اکثریت سے پہلے ہی راؤنڈ میں جیتنا حیرت انگیز ہے اور مبصرین کے مطابق اس جیت نے امریکی سیاست کو ہلا دیا ہے۔
اس سے پہلے سیاہ فام نیویارک سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین جمال بو مین کو صہیونی لابی نے ان کے اسرائیل مخالف بیانیے کی پاداش میں پندرہ ملین ڈالر خرچ کرکے ہروا دیا تھا۔ اس دفعہ اسرائیل نواز اینڈریو کیومو کو پچیس ملین ڈالر بھی شکست سے نہ بچا سکے۔ جمال بومین نے ظہران ممدانی کی فتح کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ایپیک (صہیونی لابی) کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب خوف اور لالچ کے حربے ان کے کام نہ آئیں گے اور اب سیاست کرنی ہے تو ایشوز پر کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب امریکی عوام معصوم بچوں کا بے دردی سے قتل عام ہوتا دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔
ظہران ممدانی نے پرائمری انتخابات میں فتح حاصل تو کرلی ہے جس سے ان کے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جیت کے بہت واضح امکانات ہیں مگر دوسری طرف زخم خوردہ صہیونی لابی میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور وہ عام انتخابات میں ظہران ممدانی کو شکست دینے کا کوئی بھی طریقہ ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔ ٹرمپ سمیت دائیں بازو کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا سیاستدان اور انفلوئنسر ہو جس نے ظہران ممدانی کے جیتنے پر گہری تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ مشہور میڈیا پرسن چارلی کرک نے اس کو مغرب کے دو معاشی گڑھ لندن اور نیویارک کا سقوط قرار دیا اور ممدانی کی جیت کو مسلمانوں کی مغرب پر یلغار قرار دیا۔ ٹرمپ کے قریب سمجھی جانے والی ماگا موومنٹ کی روح روان مارجری ٹیلر گرین نے ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں نیویارک کے مجسمہ آزادی کو برقع پہنے دکھایا گیا ہے۔ جنرل الیکشن میں جہاں ری پبلیکن پارٹی کے کرٹس سلوا ہوں گے وہیں موجودہ مئیر ایرک ایڈمز آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لیں گے۔ خود شکست خوردہ اینڈریو کیومو بھی اپنی الگ بنائی ہوئی پارٹی کے تحت الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔
مگر غالب امکان یہی ہے صہیونی لابی سیاہ فام مئیر ایرک ایڈمز کو ہی ممدانی کے مقابلے میں جتوانے کی کوشش کرے گی کیوں کہ کیومو کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور سلوا کے غبارے میں کبھی ہوا تھی ہی نہیں۔ ایرک ایڈمز اگرچہ کرپشن کے الزامات میں زیر عتاب رہے ہیں مگر ٹرمپ کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ان پر یہ مقدمات واپس لے لیے گئے تھے۔ ممدانی کے مقابلے میں نیویارک کے سیاہ فام ووٹرز جو نیویارک کا ایک بڑا ووٹنگ بلاک ہیں ایرک ایڈمز کو ووٹ دینا پسند کریں گے۔ ایرک ایڈمز اپنی پہلی الیکشن کی مہم میں ہی صہیونی لابی کے در پر سجدہ کرچکے تو دوسری دفعہ بھی یہ کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ لگتا یہی ہے کہ ممدانی کے مقابلے میں ان کو ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے لایا جائے گا اور نیویارک پر اپنی پھسلتی ہوئی گرفت پھر سے مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ظہران ممدانی کو ظہران ممدانی کے اخبار کے مطابق اسرائیلی لابی امریکی سیاست صہیونی لابی اسرائیل کی ایرک ایڈمز نیویارک کے ہونے والے نے کہا کہ انہوں نے قرار دیا لابی کی کریں گے کے خلاف کی تھی کو ووٹ کے لیے ہے اور خلاف ا دیا ہے

پڑھیں:

بھارت میں امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی

بھارت میں متعدد امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی ہے، جس میں کاروباری شخصیات اور وزیراعظم نریندر مودی کے حامی واشنگٹن کی جانب سے عائد درآمدی ڈیوٹیوں کے خلاف امریکا مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس لگانے کے بعد بھارت میں سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر مقامی مصنوعات خریدنے اور امریکی مصنوعات کو چھوڑنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اگرچہ تاحال فروخت میں کمی کا کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا، لیکن برآمد کنندگان کو جھٹکا لگا ہے اور دہلی و واشنگٹن کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص پر اہم کتاب نے بھارت کے دعوؤں کا پول کھول دیا

مقامی اسکن کیئر کمپنی کے شریک بانی منیش چوہدری نے لنکڈ اِن پر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کسانوں اور اسٹارٹ اپس کی حمایت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میڈ اِن انڈیا کو عالمی سطح پر مشہور بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہزاروں میل دور سے آنے والی مصنوعات کے لیے قطار میں لگتے ہیں اور غیر ملکی برانڈز پر فخر سے خرچ کرتے ہیں، جبکہ اپنے ملک کے بنانے والے اپنی ہی سرزمین پر توجہ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

کار ڈرائیور آن کال سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے سی ای او راہل شاستری نے لکھا کہ بھارت کو اپنا مقامی ٹوئٹر، گوگل، یوٹیوب، واٹس ایپ اور فیس بک بنانا چاہیے، جیسے چین کے پاس ہے۔

بھارت کی ریٹیل کمپنیاں اگرچہ ملکی منڈی میں غیر ملکی برانڈز کو سخت مقابلہ دیتی ہیں، لیکن عالمی سطح پر جانا ان کے لیے اب بھی ایک چیلنج ہے۔ اس کے برعکس بھارتی آئی ٹی سروسز کمپنیاں جیسے ٹی سی ایس اور انفوسس دنیا بھر میں سافٹ ویئر حل فراہم کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ

اتوار کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلورو میں ایک اجتماع سے خطاب میں خود انحصاری کی خصوصی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ٹیکنالوجی کمپنیاں دنیا کے لیے مصنوعات بناتی ہیں لیکن اب وقت ہے کہ ہم بھارت کی ضروریات کو زیادہ ترجیح دیں۔

اسی دوران بی جے پی سے منسلک تنظیم سوادیشی جاگرن منچ نے اتوار کو بھارت بھر میں چھوٹے عوامی مظاہرے کر کے امریکی برانڈز کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔ تنظیم کے شریک کنوینر اشونی مہاجن نے کہا کہ لوگ اب بھارتی مصنوعات کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ عمل وقت کے ساتھ نتیجہ دے گا۔ یہ قوم پرستی اور حب الوطنی کی پکار ہے۔ انہوں نے ایک فہرست بھی شیئر کی جس میں غیر ملکی صابن، ٹوتھ پیسٹ اور مشروبات کے بجائے بھارتی برانڈز استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس مہم کے تحت ایک مہم “غیر ملکی فوڈ چینز کا بائیکاٹ” کے عنوان سے چل رہی ہے، جس میں مختلف امریکی ریستوران برانڈز کے لوگو شامل ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان احتجاجات کے دوران امریکی کمپنی ٹیسلا نے نئی دہلی میں اپنا دوسرا شوروم کھولا، جس کی افتتاحی تقریب میں بھارتی وزارت تجارت کے افسران اور امریکی سفارت خانے کے نمائندے شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ-مودی 35 منٹ کی کال جس نے بھارت امریکا تعلقات میں دراڑ ڈال دی

اتر پردیش کے شہر لکھنؤ میں 37 سالہ راجت گپتا، جو پیر کو ایک امریکی ریسٹورنٹ چین میں کافی پی رہے تھے، نے کہا کہ انہیں ٹیکس کے تنازع سے کوئی غرض نہیں۔ ان کے مطابق ٹیکس کا معاملہ سفارتکاری کا حصہ ہے اور ان کی 49 روپے والی کافی کو اس میں نہ گھسیٹا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ابھارت امریکا امریکی پراڈیکٹ بائیکاٹ ٹرمپ ٹیرف

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی
  • نیویارک ٹائمز اسکوائر میں فائرنگ سے 3 افراد زخمی
  • کانگریس ملک بھر میں "ووٹ چوری" مہم چلائے گی، ملکارجن کھرگے
  • بھارتی ایئر چیف کا بیان مودی کی شمشان گھاٹ میں جلی اور راکھ ہوئی  سیاست کو زندہ کرنے کی ناکام کوشش ہے، خواجہ آصف
  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کیلئے سیاست، تحریک کی سربراہی آسان نہیں ،راناثنا
  • عمران خان کے بیٹوں کے لیے سیاست اور تحریک کی سربراہی آسان کام نہیں : رانا ثنا اللہ
  • عمران کے بیٹوں کیلئے سیاست اور تحریک کی سربراہی آسان کام نہیں‘ رانا ثنااللہ
  • عمران خان  کے بیٹے سیاست اور ان حالات میں تحریک کی سربراہی کرنا چاہتے ہیں تو یہ آسان کام نہیں:رانا ثناء اللہ 
  • اسرائیل کو 22 ارب ڈالر کی امریکی امداد
  • امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے