امریکی سیاست پر ڈھیلی پڑتی صہیونی گرفت
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیو یارک میں چوبیس جون کو ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے مئیر کے عہدے کے لیے پرائمری انتخابات بظاہر ایک معمولی انتخابات تھے جس میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک کو نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اپنے نمائندے کا چنائوکرنا تھا مگر یہ انتخابات نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ یوں تو اس انتخاب میں گیارہ امیدوار تھے مگر اصل مقابلہ نیویارک کے ایک نہایت اہم سیاسی خاندان کے نمائندے گورنر ابن گورنر اینڈریو کیومو اور سیاسی میدان میں نووارد یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ہندوستانی نژاد مسلمان امیدوار تینتیس سالہ ظہران ممدانی کے درمیان تھا۔ ظہران ممدانی نے فقط آٹھ سال پہلے امریکی شہریت اختیار کی ہے۔ ظہران ممدانی پروفیسر محمود ممدانی اور مشہور ہندوستانی فلم ساز میرا نائیر کے صاحبزادے ہیں اور خود کو ایک ’’مسلم سوشلسٹ‘‘ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ ظہران ممدانی نے یہ مقابلہ باآسانی جیت کر امریکی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے۔ امید تو یہ کی جارہی تھی رینک چوائیس ووٹنگ میں شاید دوسرے راونڈ میں کوئی واضح صورت حال سامنے آئے مگر ظہران نے پہلے ہی راونڈ میں فیصلہ کن برتری حاصل کرکے سارے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ ظہران ممدانی یوں تو اپنی مہم کا مرکز نیویارک میں بڑھتے ہوئے مکان کے کرایوں کی روک تھام، مفت ٹرانسپورٹ اور بچوں کی مفت نگہداشت کو بنائے ہوئے تھے مگر جس چیز نے اس مہم کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا وہ ان کی ماضی میں اسرائیل کی درندگی کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ وہ اسرائیل کی بائیکاٹ مہم کا حصہ بھی رہے تھے۔
اپنی انتخابی مہم کے شروع میں ظہران ممدانی کو شاید ان کے محلے ایسٹوریا سے باہر بھی، جہاں سے وہ نیویارک کے گانگریس مین منتخب ہوئے تھے، کوئی نہ جانتا ہوگا۔ ابتدائی طور پر مئیر کی مہم میں ان کی مقبولیت صرف ایک فی صد تھی مگر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کے ذریعے انہوں نے رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم تیار کرکے نیویارک کے گھر گھر پر دستک دینا شروع کردیا۔ مبصرین کے مطابق ان جیسی توانائی سے بھرپور سیاسی مہم کی حالیہ ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی اس مقبولیت نے اسرائیل نواز صہیونی لابی کو چوکنا کردیا اور انہوں نے ظہران ممدانی کے خلاف یہودی مخالف (اینٹی سیمیائیٹ) ہونے کی مہم شروع کردی۔ نیویارک اسرائیل سے باہر یہودیوں کا سب سے بڑا شہر ہے جس میں تقریباً دس لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ نیویارک پر یہودی لابی کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ الیکشن سے ایک روز قبل اسرائیل کے بائیں بازو کے ایک اہم اخبار ہاریٹز نے اس دوڑ کو امریکا پر اسرائیل کے اثر رسوخ کے مستقبل کے لیے ایک بہت اہم مقابلہ قرار دیا تھا۔ اخبار کے مطابق اگرچہ کہ ظہران ممدانی کا کوئی یہود مخالف ( اینٹی سیمیٹک) ریکارڈ نہیں ہے مگر اسرائیلی لابی ظہران ممدانی کے خلاف اینٹی سیمائیٹ ہونے کا الزام لگا کر ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیے ہوئے ہے۔ اخبار کے مطابق اس مضبوط اسرائیلی لابی کے لیے ظہران ممدانی کا اینٹی سیمائیٹ ہونا اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے جتنا ان کا نیویارک کے مئیر کی دوڑ جیتنے کی صورت میں امریکی سیاست کی بنیادیں ہلادینا ہے۔ اخبار کے مطابق ظہران ممدانی کی کامیابی کی صورت میں واشنگٹن تک سیاست کی بنیادیں ہلنے کا خطرہ ہے اور ڈیموکریٹ پارٹی پر اسرائیلی لابی کی گرفت ڈھیلی پڑ سکتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پہلے ہی ڈیموکریٹس ووٹ بیس کے اندر اسرائیل کی حمایت میں نمایاں کمی اور فلسطین کی حمایت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق ظہران ممدانی نے اپنے خلاف ان الزامات کا اب تک بڑی سمجھداری اور بردباری سے مقابلہ کیا ہے۔
ممدانی نے شروع سے فلسطینیوں کی جدو جہد کا ساتھ دیا ہے اور غزہ میں جاری قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ ان کا رویہ اسرائیل کے حوالے سے اب تک غیر معذرت خواہانہ رہا ہے۔ ایک مباحثے کے دوران جب تمام امیدواروں سے پوچھا گیا کہ وہ مئیر بننے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کریں گے تو اسرائیلی لابی کی خوشامد کے لیے سابق گورنر کیومو سمیت اکثر نے اسرائیل کہا جبکہ ممدانی نے کہا کہ وہ شہر میں رہ کر شہر کی خدمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شہر کے لوگوں کی خدمت کرتے وقت یہودی، عیسائی، مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کریں گے۔ اس سوال کے بعدوہ واحد امیدوار تھے جن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اسرائیلی ریاست کی یہودی شناخت کے ساتھ وجود رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی ریاست پر سب کے لیے یکساں حقوق کی ضمانت کے ساتھ وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
قسمت کا کھیل دیکھیے کہ جو سوال ظہران ممدانی کو گھیرنے کے لیے کیا گیا تھا اسی کے جواب نے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ایک شہر کے مئیر کے الیکشن کا اسرائیل سے کیا تعلق ہے۔ یہی سوال مختلف نیوز چینلوں پر ان سے دہرایا جاتا رہا۔ جہاں وہ اپنے یہودی مخالف ہونے کی تردید کرتے وہیں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ بھی کرتے۔ ان کا یہ غیر معذرت خواہانہ انداز اکثر لوگوں کو بھا گیا یہاں تک کہ ان کو ووٹ دینے والوں میں ایک معقول تعداد یہودیوں کی بھی تھی۔ ظہران ممدانی کے خلاف صہیونی لابی کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیویارک کے اسٹیٹ سینیٹر سیم سٹن نے تل ابیب کے بم شیلٹر سے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ممدانی کو نہ روکا گیا تو امریکا میں بھی آپ کو اسرائیل کی طرح شیلٹر میں پناہ لینی پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے’’یہودیوں کے دوست‘‘ کیومو کو وووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز جو نیویارک کا موثر ترین اخبار ہے اور جس کی اینڈورسمنٹ نیویارک کے الیکشن میں اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے اس نے اپنے ایک اداریے میں پہلی دفعہ انوکھا رخ اختیار کرتے ہوئے کسی امیدوار کی توثیق نہیں کی تھی بلکہ ظہران ممدانی کو نیو یارک کے لیے خصوصی طور پر غیر موزوں قرار دیتے ہوئے ان کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی۔ اسی طرح سب سے مقبول ٹیبلوائیڈ نیویارک پوسٹ نے الیکشن والے دن سرورق پر ظہران ممدانی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی۔
یہودی لابی کی اس بھر پور مخالفت کے باوجود ظہران ممدانی کا اتنی بھاری اکثریت سے پہلے ہی راؤنڈ میں جیتنا حیرت انگیز ہے اور مبصرین کے مطابق اس جیت نے امریکی سیاست کو ہلا دیا ہے۔
اس سے پہلے سیاہ فام نیویارک سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین جمال بو مین کو صہیونی لابی نے ان کے اسرائیل مخالف بیانیے کی پاداش میں پندرہ ملین ڈالر خرچ کرکے ہروا دیا تھا۔ اس دفعہ اسرائیل نواز اینڈریو کیومو کو پچیس ملین ڈالر بھی شکست سے نہ بچا سکے۔ جمال بومین نے ظہران ممدانی کی فتح کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ایپیک (صہیونی لابی) کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب خوف اور لالچ کے حربے ان کے کام نہ آئیں گے اور اب سیاست کرنی ہے تو ایشوز پر کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب امریکی عوام معصوم بچوں کا بے دردی سے قتل عام ہوتا دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔
ظہران ممدانی نے پرائمری انتخابات میں فتح حاصل تو کرلی ہے جس سے ان کے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جیت کے بہت واضح امکانات ہیں مگر دوسری طرف زخم خوردہ صہیونی لابی میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور وہ عام انتخابات میں ظہران ممدانی کو شکست دینے کا کوئی بھی طریقہ ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔ ٹرمپ سمیت دائیں بازو کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا سیاستدان اور انفلوئنسر ہو جس نے ظہران ممدانی کے جیتنے پر گہری تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ مشہور میڈیا پرسن چارلی کرک نے اس کو مغرب کے دو معاشی گڑھ لندن اور نیویارک کا سقوط قرار دیا اور ممدانی کی جیت کو مسلمانوں کی مغرب پر یلغار قرار دیا۔ ٹرمپ کے قریب سمجھی جانے والی ماگا موومنٹ کی روح روان مارجری ٹیلر گرین نے ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں نیویارک کے مجسمہ آزادی کو برقع پہنے دکھایا گیا ہے۔ جنرل الیکشن میں جہاں ری پبلیکن پارٹی کے کرٹس سلوا ہوں گے وہیں موجودہ مئیر ایرک ایڈمز آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لیں گے۔ خود شکست خوردہ اینڈریو کیومو بھی اپنی الگ بنائی ہوئی پارٹی کے تحت الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔
مگر غالب امکان یہی ہے صہیونی لابی سیاہ فام مئیر ایرک ایڈمز کو ہی ممدانی کے مقابلے میں جتوانے کی کوشش کرے گی کیوں کہ کیومو کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور سلوا کے غبارے میں کبھی ہوا تھی ہی نہیں۔ ایرک ایڈمز اگرچہ کرپشن کے الزامات میں زیر عتاب رہے ہیں مگر ٹرمپ کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ان پر یہ مقدمات واپس لے لیے گئے تھے۔ ممدانی کے مقابلے میں نیویارک کے سیاہ فام ووٹرز جو نیویارک کا ایک بڑا ووٹنگ بلاک ہیں ایرک ایڈمز کو ووٹ دینا پسند کریں گے۔ ایرک ایڈمز اپنی پہلی الیکشن کی مہم میں ہی صہیونی لابی کے در پر سجدہ کرچکے تو دوسری دفعہ بھی یہ کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ لگتا یہی ہے کہ ممدانی کے مقابلے میں ان کو ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے لایا جائے گا اور نیویارک پر اپنی پھسلتی ہوئی گرفت پھر سے مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ظہران ممدانی کو ظہران ممدانی کے اخبار کے مطابق اسرائیلی لابی امریکی سیاست صہیونی لابی اسرائیل کی ایرک ایڈمز نیویارک کے ہونے والے نے کہا کہ انہوں نے قرار دیا لابی کی کریں گے کے خلاف کی تھی کو ووٹ کے لیے ہے اور خلاف ا دیا ہے
پڑھیں:
ممدانی کا راستہ روکنے کے لیے ایرک ایڈمز میدان میں آگئے، دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان
نیویارک سٹی کے موجودہ میئر ایرک ایڈمز نے جمعرات کے روز اپنی ری الیکشن مہم کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔
انہوں نے نیویارک سٹی ہال کی سیڑھیوں پر اپنے تقریباً 100 حامیوں کے ہمراہ خطاب کیا اور ایک بار پھر 4 سال کے لیے میئر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر کے لیے امیدوار ظہران ممدانی اور امریکی صدر ٹرمپ آمنے سامنے
ایڈمز جو 2021 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے، اب آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ انتخاب نیلے کالر (محنت کش) اور چاندی کے چمچ (امیر طبقے) میں سے ایک کو منتخب کرنے کا ہے۔
یہ بات انہوں نے اپنے پس منظر اور ڈیموکریٹک امیدوار زوہران ممدانی کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے کہی، جنہوں نے حالیہ ابتدائی مرحلے میں سابق گورنر ۔اینڈریو کومو۔ کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے نیو یارک کے امیدوار برائے میئرشپ ظہران ممدانی کو ’کمیونسٹ پاگل‘ قرار دیدیا
ایڈمز نے کہا کہ نیویارک ایک ایسا شہر ہے جہاں لوگوں کو مفت چیزیں نہیں بلکہ روزگار اور عزت دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا یہ شہر سوشلسٹ نہیں ہے۔ لوگوں کو سب کچھ مفت دینا عزت کی بات نہیں، اصل عزت اس میں ہے کہ انسان کو نوکری دی جائے تاکہ وہ اپنی فیملی کا خیال رکھ سکے۔
ایڈمز نے امریکا میں امیگریشن پالیسیز پر بھی بات کی اور بائیڈن حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے نیویارک کے پناہ گزین مراکز پر بہت دباؤ پڑا۔
یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر کے لیے نامزد امیدوار ظہران ممدانی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگادیا
انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی اور سیاست سے بالاتر ہو کر نیویارک کے لوگوں کو ترجیح دی، اسی لیے مجھ پر سیاسی الزامات لگائے گئے۔
یاد رہے کہ ایڈمز پر بائیڈن حکومت کی جانب سے رشوت، وائر فراڈ اور سازش کے الزامات لگائے گئے تھے، جو بعد میں ٹرمپ حکومت نے ختم کر دیے۔
دوسری طرف زوہران ممدانی ایک نوجوان سیاستدان ہیں، جو یوگنڈا میں پیدا ہوئے اور 2018 میں امریکی شہری بنے۔ وہ سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ’نیویارک کو ایسا شہر بنانا چاہیے جو ٹرمپ جیسے فاشزم کا مقابلہ کرے، اور غیر قانونی امیگرنٹس کو ڈیپورٹ نہ کیا جائے‘۔
یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر کے لیے پہلے مسلمان امیدوار ظہران ممدانی کون ہیں؟
ممدانی نے عوامی سہولیات جیسے مفت ٹرانسپورٹ، بچوں کی دیکھ بھال، اور تعلیمی اداروں کی فیس معافی، کی حمایت کی ہے۔
وہ مشہور فلم ساز میرا نائر کے بیٹے ہیں، جنہوں نے فلم ’ Mississippi Masala ‘ بنائی تھی۔ ان کے والد محمود ممدانی یوگنڈا میں ایک مشہور ماہرِ تاریخ اور استاد ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Mississippi Masala زوہران ممدانی فلم ساز میرا نائر میئر ایرک ایڈمز نیویارک میئر یوگنڈا