اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے نے عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے نام اپنے خط میں اسرائیل و امریکہ کی جارحیت کی مذمت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی اقدامات پر ان دونوں کو جوابدہ بنانے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر و مستقل نمائندے علی بحرینی نے عالمی ادارۂ صحت (World Health Organization - WHO) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تدروس آدھانوم (Dr.

Tedros Adhanom) کے نام ایک باضابطہ مراسلہ ارسال کیا، جس میں انہوں نے 13 تا 24 جون کے درمیان ایرانی سرزمین پر غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ کی جانب سے کئے گئے فوجی حملات کو بلاجواز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی شدید مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔ علی بحرینی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان دونوں فریقوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

انہوں نے اپنے مراسلے میں تصریح کی کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کے مختلف علاقوں میں 7 ہسپتال اور طبی مراکز کو نقصان پہنچا ہے، جس کے باعث 627 افراد کہ جن میں طبی عملہ اور امدادی کارکنان بھی شامل ہیں، شہید اور 4 ہزار 935 شہری زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ یہ اقدامات نہ صرف انسانیت سوز بلکہ عالمی انسانی ضوابط، طبی اصولوں اور جنیوا کنونشنز (Geneva Conventions) کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ 
اپنے خط کے ایک دوسرے حصے میں علی بحرینی نے نشاندہی کی کہ امریکہ و غاصب صیہونی رژیم نے ایرانی جوہری تنصیبات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جس سے نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی شہری آبادی کو شدید جانی خطرہ لاحق ہوا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ حملات عالمی ادارۂ صحت کے آئین اور اس کے تحت منظور شدہ متعدد قراردادوں کے بھی سراسر منافی ہیں۔

ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق، ایرانی وزیر صحت ڈاکٹر محمد رضا ظفرقندی نے بھی ایک علیحدہ مراسلے میں، ملکی طبی مراکز پر غاصب اسرائیلی رژیم کے انسانیت سوز حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے، عالمی ادارۂ صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض صیہونی رژیم کے ان حملات کی مذمت کرے ان جارحانہ حملوں کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر طبی عملے، مراکز و مریضوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عالمی ادارہ انہوں نے

پڑھیں:

افغانستان میں دہشتگردی پر تشویش، پاکستان، چین، روس اور ایران کا افغان حکومت سے فوری اقدام کا مطالبہ

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر افغانستان کے حوالے سے پاکستان، چین، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ نے اہم چار فریقی ملاقات کی۔ یہ اجلاس روس کی میزبانی میں ہوا، جس میں افغانستان کی سیکیورٹی، انسانی صورتحال اور علاقائی استحکام پر تفصیل سے غور کیا گیا۔
 چاروں ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ افغانستان کو ایک آزاد، متحد، پرامن اور دہشت گردی سے پاک ملک کے طور پر دیکھنا سب کی مشترکہ خواہش ہے۔ اعلامیہ میں افغانستان کی سرزمین سے ابھرنے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی پر زور دیا گیا۔

بیان میں داعش، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک ، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) جیسے گروہوں کو خطے اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ چاروں وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان گروہوں کی سرگرمیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بھرتی، مالی معاونت اور تربیت کے تمام نیٹ ورکس کو بند کریں اور اس عمل میں قابلِ تصدیق اقدامات اٹھائیں۔
 اقتصادی تعاون اور انسانی امداد پر زور
 وزرائے خارجہ نے افغانستان کی کمزور معیشت کی بحالی کے لیے علاقائی تعاون کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے مسلسل اور بلاامتیاز اقتصادی و انسانی امداد فراہم کی جائے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر افغان عوام کے لیے ہنگامی مدد کو جاری رکھا جائے۔
 طالبان پر سفری پابندیوں اور سیاسی مفادات پر تحفظات
 چاروں ممالک نے طالبان حکام پر عائد 1988 کے پابندیوں کے نظام میں موجودہ زمینی حقائق کی بنیاد پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ خاص طور پر سفری پابندیوں سے متعلق رعایتوں میں دوہرے معیار اور سیاسی مفادات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی۔
واضح رہے کہ اگست 2022 کے بعد سے طالبان قیادت کو تقریباً 48 بار مختلف مواقع پر سفری استثنیٰ دیا جا چکا ہے، جس پر روس نے امریکہ کے طرزِ عمل کو سیاسی قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔ روس کا مؤقف ہے کہ واشنگٹن طالبان پابندی کمیٹی کو اپنے محدود مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
 منشیات کے خلاف علاقائی اقدامات
 اجلاس میں پوست کی کاشت میں کمی کے لیے طالبان کی کوششوں کو سراہا گیا، لیکن مصنوعی منشیات جیسے میتھ ایمفیٹامین کے بڑھتے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ وزرائے خارجہ نے منشیات اور منظم جرائم کے خلاف مشترکہ کارروائی، متبادل روزگار کی فراہمی اور زرعی امداد کی ضرورت پر زور دیا۔
 نیٹو ممالک پر ذمہ داری اور بیرونی مداخلت کی مخالفت
 بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی بڑی ذمہ داری نیٹو ممالک پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے طویل عرصے تک ملک میں مداخلت کی لیکن پائیدار امن قائم نہ کر سکے۔ شرکاء نے نہ صرف یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے اور منجمد افغان اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ وہ افغانستان یا اس کے گرد کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر صیہونی فورسز کے حملوں میں شدت آگئی، مزید 90 سے زائد فلسطینی شہید
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت میں برکس وزرائے خارجہ کا مشترکہ بیان
  • سلامتی کونسل ایران کیخلاف پابندیوں میں 6 ماہ کی تاخیر کرے،چین اور روس کا مطالبہ
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں شدت سے کئی ہسپتال بند، ڈبلیو ایچ او
  • غزہ: اسرائیلی حملوں کے باعث اسپتال بند ہونے کا سلسلہ جاری، فعال مراکز کتنے رہ گئے؟
  • اسرائیل کا فلوٹیلا پر حملہ جنگی جرم ہے، فرانسیسی رکن پارلیمنٹ کی مذمت
  • افغانستان میں دہشتگردی پر تشویش، پاکستان، چین، روس اور ایران کا افغان حکومت سے فوری اقدام کا مطالبہ
  • اسرائیل کی غزہ پر بمباری، 24 گھنٹے میں 170 حملے،83 فلسطینی شہید
  • اسپین کا غزہ امدادی صمود فلوٹیلا پر ڈرون حملوں کے باوجود سفر جاری رکھنے کا عزم
  • شام پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں، شامی صدر احمدالشرع کا مطالبہ