پنجاب سے لوگ مرنے نہیں، سیر کیلیے گئے تھے؛عظمیٰ بخاری کی پختونخوا حکومت پر شدید تنقید
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
لاہور:
ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری سانحہ سوات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پختونخوا حکومت پر شدید تنقید کی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پنجاب سے مرنے نہیں، سیر کے لیے گئے تھے۔
پنجاب اسمبلی کے میڈیا ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے دریائے سوات میں پیش آنے والے دل خراش واقعے پر کے پی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ بار بار پیش آ رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی دیکھنے اور پوچھنے والا نہیں۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے افراد پانی میں بہہ گئے، جن کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تھا۔ وہ 2 گھنٹے تک ٹیلے پر کھڑے مدد کے منتظر رہے، لیکن متعدد کالز کے باوجود ریسکیو ٹیمیں موقع پر نہ پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ چھبیس مئی 2024 کو کے پی کے حکومت نے ایئر ایمبولینس سروس کے اجرا کا اعلان کیا تھا لیکن ضرورت کے وقت یہ سہولت کہیں نظر نہ آئی۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ناران، کاغان جیسے سیاحتی مقامات پر ہوٹل تجاوزات کی بنیاد پر بنائے گئے اور سب جانتے ہیں کہ کن پرچیوں پر یہ اجازت نامے جاری ہوئے۔ نہ سڑکوں پر فنڈز خرچ ہو رہے ہیں، نہ سیاحتی مقامات کی بہتری پر اور نہ ہی دریائے سوات کے اردگرد کسی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں، جن کی کارکردگی سانحات کے وقت صفر رہتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس بارشوں سے 17 افراد جاں بحق ہوئے تھے، تب بھی پنجاب حکومت نے فوری طور پر 6امدادی ٹرک روانہ کیے تھے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جب پنجاب میں معمولی واقعہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کسی کو کتا کاٹ ہے، تو وزیر اعلیٰ پنجاب فوری نوٹس لیتی ہیں، لیکن جب سوات میں افسوسناک واقعہ پیش آیا، اس وقت کے پی کے وزیر اعلیٰ کہیں اور مصروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں بھی ایسے ہی حالات میں لوگ مدد کے لیے بلاتے رہے لیکن ایک طیارہ علیمہ خان کو بچانے کے لیے اڑایا گیا، عام شہریوں کی لاشیں ڈمپرز میں بھجوائی گئیں۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اگر کے پی حکومت کے پاس وسائل نہیں تو وہ حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ریسکیو صرف چڑھائی کے وقت استعمال ہوتی ہے، عام عوام کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ ایسا واقعہ پنجاب میں ہوتا تو فوراً ہنگامی اقدامات ہوتے، جیسے مری کے سانحے پر کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ سوات سیر کے لیے گئے تھے، ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت پر تھی۔ تمبو نہیں لگا سکتے تو کم از کم زبان بند کریں، ندامت تو کریں۔ دریائے سوات میں کچھ نہیں کرسکتے ، تو کوئی دفتر ہی بنا دو، کشتیاں ہی دے دو بھائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ محرم الحرام کے لیے بھی پنجاب حکومت مکمل تیاری کر رہی ہے اور ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب متاثرہ خاندان کے گھر بھی جائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ کے پی کے عوام اب بیدار ہو رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں کہ بار بار ایسے سانحات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان انہوں نے کہا کہ دریائے سوات سوات میں رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
40 ارب کا کوہستان سکینڈل خیبر پی کے حکومت کے دامن پر سیاہ دھبہ: عظمیٰ بخاری
لاہور ( نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے خیبر پی کے میں سامنے آنے والے 40 ارب روپے کے کوہستان کرپشن سکینڈل کو صوبائی حکومت کے لیے ایک کلنک کا ٹیکہ قرار دیا ہے۔ یہ سکینڈل اس جعلی تبدیلی کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جس نے خود کو صادق و امین قرار دیا لیکن ثابت ہوا کہ وہ سرٹیفائیڈ کرپٹ ہے۔ خیبرپی کے کی عوام کا پیسہ اشتہاریوں اور مفروروں پر ضائع کیا جا رہا ہے اور کرپشن کی کمائی کو آپس میں بانٹا جا رہا ہے۔ "دودھ کی رکھوالی پر بلا بٹھانے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ کوہستان میگا کرپشن سکینڈل کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سزا یافتہ قیدی جو 190 ملین پاؤنڈز کے کیس میں مجرم ہے، وہ بھی اس کرپشن پر پریشان دکھائی دیتا ہے – یہ اللہ کی شان ہے۔ خیبر پی کے میں گزشتہ 12 برس سے چور بازاری، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عوام کو صحت، تعلیم اور بنیادی انفراسٹرکچر جیسی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی تمام تر ہمدردیاں ایک قیدی کے ساتھ وابستہ ہیں، جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہے۔ عظمیٰ بخاری نے سوات میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ خیبر پی کے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور ریسکیو سسٹم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سیاح دو گھنٹے تک پانی میں مدد کے لیے پکارتے رہے، مگر کے پی حکومت کی کوئی ریسکیو ٹیم نہ پہنچ سکی۔ "حیرت کی بات ہے کہ نہ خیبرپختونخوا حکومت حرکت میں آئی اور نہ ہی وزیر گنڈاپور کا ہیلی کاپٹر امداد کے لیے روانہ ہوا۔