لفٹ کا دروازہ کھلا تو وہ سامنے کھڑی تھی، صرف وہ۔
میدے جیسی رنگت، چھوٹی مگر جگمگاتی آنکھیں، متوازن خدوخال پر گالوں کے بھنور نمایاں تھے۔ جینز پر پھولدار قمیض پہنے، دو چوٹیاں کندھوں پر جھول رہی تھیں۔
میں بنا کچھ کہے لفٹ میں داخل ہوگئی، اب ہم فقط دو لوگ تھے۔ ’پاکستانی ہو؟‘ میں نے انگریزی میں پوچھا۔
’نوپ! فرام انڈیا‘، اس نے ٹھیٹ انگریزی اسٹائل میں جواب دیا۔
’کیا ہندی بول سکتی ہو؟‘
’یس، ایون اردو ٹو۔‘
اور واقعی اس کی اردو صاف و شستہ تھی، بس ’ز‘ کی جگہ ’ج‘ بولتی تھی جو میرے لیے دلچسپ تھا، کیونکہ پنجابی بولنے والوں میں یہ عادت عام نہیں ہوتی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ وہ رانچی (بہار) میں پلی بڑھی تھی، جہاں اردو، ہندی اور پنجابی زبانیں اسکول میں لازمی پڑھائی جاتی تھیں۔ پھر وہ تھی، میں، اور ہماری باتیں۔
سِکھنیاں اور بھی تھیں کام پر، لیکن بلدی کی سادگی، معصومیت اور بےفکری مجھے کلک کر گئی تھی، کچھ خاص بات تھی اس میں، وہ سکھ مذہب سے تھی، مگر مذہب کا فرق ہمارے بیچ کبھی آڑے نہ آیا۔
ہم 2002 میں لیڈز یونیورسٹی میں ملے، سالوں ساتھ کام کیا، ہنسے، جیے اور سیکھا۔
بلدی اور میری دوستی کے پیچھے کسی بھی یکسانیت کا کوئی گزر نہیں تھا سوائے ’کوکنگ‘ کے۔ باقی ہم دونوں کی شخصیت کافی مختلف تھی، نہ اسے ادب سے دلچسپی، نہ سیاست کی شدھ بدھ، نہ رقص یا فنونِ لطیفہ سے لگاؤ۔
اس کا زندگی میں بس ایک ہی شوق تھا جو ہنوز آج بھی سلامت ہے، سنیما میں جا کر ہندی فلم دیکھنا۔
کہانی کیسی ہے، ہدایت کار و اداکار کون ہیں، بلدی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ہر ہفتے یا اتوار، وہ اپنے میاں اور بچوں کے ہمراہ فلم دیکھنےجاتی، میاں اور بچے انگریزی فلم کا شو دیکھتے اور محترمہ جا گھستی ہندی فلم کے کسی شو میں، پھر اسے آخر تک مُکا کر ہی باہر نکلتی چاہے فلم کتنی ہی بیکار کیوں نہ ہوتی۔
اکثر مجھے بھی گھسیٹ لیا کرتی، کبھی خوشی کبھی غم، کل ہو نہ ہو، کبھی الوداع نہ کہنا، یہ فلمیں آج بھی میری یادوں میں تازہ ہیں کیونکہ ہم نے انہیں ساتھ دیکھا۔
ایک بار ایک گھٹیا سی ہارر فلم قریبی سنیما پر لگی۔
’چل دیکھنے چلتے ہیں‘
’نہ بابا، ٹریلر سے ہی لگ رہا ہے بکواس ہے‘
لیکن بلدی گئی بھی اور پوری فلم دیکھ کر ہی لوٹی۔
’کیسی تھی فلم؟‘
’بس ایویں تھی، کچھ پلّے ہی نہیں پڑا، پورے ہال میں صرف دو لوگ تھے، ایک بیچ میں ہی اٹھ کر چلا گیا، میں اکیلی ہی تھی پورے ہال میں آخر تک۔‘
میں واقعی حیران رہ گئی۔
’تو نکل آتی جلدی، دماغ میں مزید بھوسہ بھرنا ضروری تھا؟‘
’یارا، کریوِنگ ہو رہی تھی تھیٹر میں فلم دیکھنے کی‘ وہ بلدی ہی کیا جو کبھی میری کسی بات کا برا مناتی۔
ایسا تھا اس کا فلم سے عشق، جیسا میرا چائے سے!
ہمیں کام پر صرف پندرہ منٹ کا چائے بریک ملتا، مگر ہم اپنے حصے کا کام بریک سے قبل ہی نمٹا لیا کرتے تاکہ 15 منٹ کے بجائے چھٹی تک مکمل آرام کر سکیں۔ اسکارلٹ، ہماری سپروائزر چونکہ ہمارے کام سے خوش تھی، سو اس نے ہم پر نظریں رکھنا بھی کم کردیا تھا، لیکن ایک دن ہم پکڑے ہی گئے۔
دراصل ہم دونوں کے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ منزلوں پر واقع تھے سو ایک دن بلدی میرے پاس نچلی منزل پر آجایا کرتی اور دوسرے روز میں اوپری منزل پر پہنچ جاتی۔
اور آج میں بلدی کے ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھی۔
چائے، بسکٹ اور ہنسی مذاق جاری تھا کہ اچانک اسکارلٹ کی کانوں میں جادوگرنی کی سی جھاڑو پھیرتی آواز سنائی دی۔
بس سمجھ لیجیے، جان حلق میں آ گئی، سوچا آج تو نوکری سے ہاتھ دھونے ہی پڑیں گے۔
لیکن اللہ بھلا کرے ایگزٹ دروازوں کا جو عمارت میں جابجا موجود تھے۔
میں فوراً دیوار کے پیچھے چھپی اور بلدی میرے آگے ایسے کھڑی ہوگئی کہ جیسے میرا اس کمرے میں وجود ہی نہ ہو، جوں ہی اسکارلٹ اندر داخل ہوئی، میں بلی کی چپ اور چیتے کی پھرتی سے دوڑ لگاتی ہوئی ایگزٹ دروازے سے باہر نکلی اور سیدھا اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچ کر ہی دم لیا۔
بلدی نے پیچھے سب سنبھال لیا تھا تبھی اسکارلٹ پلٹ کر میرے پاس پوچھ گچھ کے لیے نہیں آئی۔
’یار، تُو تو اسکول میں واقعی ایتھلیٹ رہی ہوگی، جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو، تُو غائب! بھاگنے کی آواز تک نہ آئی۔‘
وہ ترنگ میں اکثر مجھے تم سے تُو کہتی۔
آج بھی ہم اس واقعے پر ہنستے ہیں تو ہنسی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔
بلدی کو میرے ہاتھ کے بنے کھانے بہت پسند تھے، میں پاکستان آتی تو اس کے لیے شان مصالحے اور ہندی فلموں کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز ضرور ساتھ لے جاتی۔
اور وہ میرے لیے مشرقی پنجاب کے خاص پکوان، لیمب بالز، قیمے کے کباب، مصالحے دار سبزیاں بڑے چاؤ سے بناتی۔
لیڈز میں ا کثر آلو کے سموسے، پانی پوری اور گول گپوں کے لیے دل مچلتا تو دیسی دکانوں پر جا کر مہنگے داموں یہ لوازمات لا محالہ خریدنے پڑتے تھے۔
ایک دن ایسے ہی بلدی سے سرسری اس بابت ذکر کردیا۔
’ڈونٹ وری لَو، اس ویک اینڈ پر آتی ہوں تیرے گھر، گانے بھی سنیں گے، اور تیری پسند کی ساری چیزیں بھی ساتھ مل کر بنائیں گے۔‘
اور اگلے ہفتے وہ سارا سامان لے کر میرے گھر آن پہنچی، ہم نے گول گپے بنائے، آلو والے سموسے، چٹنی، پانی پوری، لگا جیسے تہوار ہو۔
بلدی صرف بیس برس کی عمر میں بیاہ کر انگلینڈ آئی تھی، دو دو نوکریاں کرکے گھر چلانا، فیملی کو سپورٹ کرنا، یہی اس کی زندگی تھی۔
جیسا کہ مغربی معاشروں کا دستور ہے کہ یہاں سب کو محنت کرنی پڑتی ہے۔
لیکن کبھی اس کے لبوں سے شکوہ نہ سنا، کبھی چہرے پر مایوسی نہ دیکھی۔
ہماری دوستی ایسی تھی کہ لوگ رشک بھی کرتے، اور بعض اوقات حسد بھی، مگر ہم اپنے حال میں مست رہتے۔
بلدی عمر میں مجھ سے پانچ سال بڑی تھی، اس کی اولاد میری بچیوں سے بڑی، سو وہ میری بیٹیوں سے بڑے بہن بھائیوں جیسا سلوک کرتے، اچھے برے حالات میں بلدی اور اس کے پریوار کا ہونا ہمارے لیے ایک سہارا ہی تھا۔
اک دن بلدی کے ساتھ گردوارے گئی صفائی، خدمت، اپنائیت، سب کچھ دل موہ لینے والا۔
کیا بچے بالے تو کیا بوڑھے، کیا لڑکے تو کیا لڑکیاں اور کون مرد اور کیسی عورت۔۔۔۔لگا گردوارہ سب کا مشترکہ گھر ہے جہاں رسوئی میں کوئی پوری بیل رہا ہے تو کوئی تل رہا ہے، چند عورتیں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں تو کچھ پکا رہی ہیں، کوئی صفائی کررہا ہے تو کوئی دسترخوان پر بیٹھے لوگوں کی تھالیوں میں کھانا پروس رہا ہے۔
گردوارے سے کوئی بھوکا واپس نہ جاتا، چاہے کسی بھی مذہب، فرقے یا رنگ و نسل سے ہو، کئی انگریز بھی دسترخوان پر بیٹھے پرساد سے لطف اندوز ہو رہے تھے، گردوارے میں پکے پکوانوں کا ذائقہ آج بھی زبان پر موجود ہے۔ پھر بلدی کے ساتھ گردوارہ جانا میرا معمول بن گیا۔
عید پر میں اسے مسجد لے گئی، سیریئن کمیونٹی کی مسجد میں عید کی رونق، نماز کے بعد میلے کا سا سماں، وہ سب اس کے لیے نیا تھا، لیکن خوش کن۔
ہم نے ایک دوسرے سے بےشمار چیزیں سیکھیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ مذہب، قوم یا رنگ و نسل سے بڑھ کر انسانیت ہوتی ہے۔
جس دن میں لیڈز کی شے اسٹریٹ کے” ہال بورن ٹیرس” سے کوچ کر کے ہمیشہ کے لیے کراچی واپس آرہی تھی بلدی اور میری آنکھیں رو رو کر بھی خشک نہ ہو رہی تھیں۔ لیکن دور ہو کر بھی دوستی کا رشتہ جوں کا توں قائم ہے۔
چار برس بعد وہ مجھ سے ملنے بیٹے کے ساتھ اسلام آباد آ گئی، ہم نے لاہور اور اسلام آباد رج کے گھوما، رنجیت سنگھ کی سمادھی ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب سب دیکھ ڈالے۔
ننکانہ صاحب میں گرو گرنتھ صاحب کے آگے ماتھا ٹیک کر بولی: ’بس یارا، میرا حج ہو گیا۔‘
اس کے جانے کے پانچ سال بعد میری باری تھی، اس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے، زندگی میں پہلی بار ایک سکھ پریوار میں رہ کر شادی کی رسموں کو برتتے ہوئے قریب سے دیکھا، اس کے تمام رشتہ دار دوست احباب حیران و پریشان کہ دو دشمن ملکوں کی عورتیں دوستی میں نفرت کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔
لیڈز میں بلدی اور میں نے گئے دنوں کو پھر سے زندہ کیا اور ان تمام جگہوں پر دوباری حاضری دی جہاں جہاں سے ہمارا گزر ہوا کرتا تھا۔
اس سال ویساکھی آنے سے پہلے ہی سکھ یاتریوں کے کرتارپورہ آنے کی خبریں اخبارات سے مل رہی تھیں۔ مارچ کی 21 تاریخ کو بلدی نے مجھے فون کرکے خوشخبری سنائی۔ میں سکھ یاتریوں کے ساتھ پاکستان لاہور آرہی ہوں، چند دن کے لیے میں تیرے پاس بھی آ کر رہوں گی۔
اس کی آواز میں جوش تھا، میری خوشی کا بھی ٹھکانہ نہ رہا۔ لیکن شاید اس بار ہمارے نصیب میں فقط دو گھنٹے کی ملاقات لکھی تھی۔
وہ اور میں سمجھے تھے کہ کم از کم ایک دو دن تو ہم ساتھ بِتا لیں گے لیکن سکھ یاتریوں کے گروپ لیڈر اور پاکستانی حکام کی جانب سے یاتریوں کو ادھر سے ادھر ہلنے کی بھی اجازت نہ تھی، کئی دن اثر و رسوخ کے حامل افراد سے بات کی کہ کسی طرح ایک روز ہی سہی بلدی میرے گھر آ سکے لیکن کوئی حوصلہ افزا خبر نہ ملی۔
حالات کے پیش نظر سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت تھے جہاں دوستی جیسے نرم و ملائم جذبے کا کیا گزر؟ بڑی تگ ودو کے بعد مجھے پنجہ صاحب میں بلدی سے ملنے کے لیے صرف دو گھنٹے ملے۔
پنجہ صاحب میں ہزاروں افراد کے بیچ جھپی ڈالتے ہوئے مجھے لگا کہ فقط ہم دونوں سہیلیاں لفٹ میں اپنی 23 سالہ دوستی کا جشن منارہی ہیں۔
’یارا اگلے ہفتے اپنے دلجیت سنگھ کی فلم تھیٹر پر لگ رہی ہے، کاش تو ہوتی تو مل کر پنجابی اور پاکستانی ہیرو ہیروئن والی فلم دیکھتے۔‘
بلدی آج بھی ویسی ہی ہے، سیدھی سادھی سی سنیما میں فلم دیکھنے کی شوقین۔
مگر اب اس کے ویک اینڈ پر ایک کے بجائے دو شوق ہیں، ایک سنیما کا شو دیکھنا، اور دوسرا مجھے فون کرنا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews بیرون ملک پاکستان بھارت دوستی سرحد سکھ لڑکی سے دوستی سکھ یاتری وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرون ملک پاکستان بھارت دوستی سکھ لڑکی سے دوستی سکھ یاتری وی نیوز بلدی اور رہی تھی کے ساتھ رہا ہے ہی تھی کے لیے آج بھی
پڑھیں:
سرحدوں سے پرے میں اور بلدی
لفٹ کا دروازہ کھلا تو وہ سامنے کھڑی تھی، صرف وہ۔
میدے جیسی رنگت، چھوٹی مگر جگمگاتی آنکھیں، متوازن خدوخال پر گالوں کے بھنور نمایاں تھے۔ جینز پر پھولدار قمیض پہنے، دو چوٹیاں کندھوں پر جھول رہی تھیں۔
میں بنا کچھ کہے لفٹ میں داخل ہوگئی، اب ہم فقط دو لوگ تھے۔ ’پاکستانی ہو؟‘ میں نے انگریزی میں پوچھا۔
’نوپ! فرام انڈیا‘، اس نے ٹھیٹ انگریزی اسٹائل میں جواب دیا۔
’کیا ہندی بول سکتی ہو؟‘
’یس، ایون اردو ٹو۔‘
اور واقعی اس کی اردو صاف و شستہ تھی، بس ’ز‘ کی جگہ ’ج‘ بولتی تھی جو میرے لیے دلچسپ تھا، کیونکہ پنجابی بولنے والوں میں یہ عادت عام نہیں ہوتی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ وہ رانچی (بہار) میں پلی بڑھی تھی، جہاں اردو، ہندی اور پنجابی زبانیں اسکول میں لازمی پڑھائی جاتی تھیں۔ پھر وہ تھی، میں، اور ہماری باتیں۔
سِکھنیاں اور بھی تھیں کام پر، لیکن بلدی کی سادگی، معصومیت اور بےفکری مجھے کلک کر گئی تھی، کچھ خاص بات تھی اس میں، وہ سکھ مذہب سے تھی، مگر مذہب کا فرق ہمارے بیچ کبھی آڑے نہ آیا۔
ہم 2002 میں لیڈز یونیورسٹی میں ملے، سالوں ساتھ کام کیا، ہنسے، جیے اور سیکھا۔
بلدی اور میری دوستی کے پیچھے کسی بھی یکسانیت کا کوئی گزر نہیں تھا سوائے ’کوکنگ‘ کے۔ باقی ہم دونوں کی شخصیت کافی مختلف تھی، نہ اسے ادب سے دلچسپی، نہ سیاست کی شدھ بدھ، نہ رقص یا فنونِ لطیفہ سے لگاؤ۔
اس کا زندگی میں بس ایک ہی شوق تھا جو ہنوز آج بھی سلامت ہے، سنیما میں جا کر ہندی فلم دیکھنا۔
کہانی کیسی ہے، ہدایت کار و اداکار کون ہیں، بلدی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ہر ہفتے یا اتوار، وہ اپنے میاں اور بچوں کے ہمراہ فلم دیکھنےجاتی، میاں اور بچے انگریزی فلم کا شو دیکھتے اور محترمہ جا گھستی ہندی فلم کے کسی شو میں، پھر اسے آخر تک مُکا کر ہی باہر نکلتی چاہے فلم کتنی ہی بیکار کیوں نہ ہوتی۔
اکثر مجھے بھی گھسیٹ لیا کرتی، کبھی خوشی کبھی غم، کل ہو نہ ہو، کبھی الوداع نہ کہنا، یہ فلمیں آج بھی میری یادوں میں تازہ ہیں کیونکہ ہم نے انہیں ساتھ دیکھا۔
ایک بار ایک گھٹیا سی ہارر فلم قریبی سنیما پر لگی۔
’چل دیکھنے چلتے ہیں‘
’نہ بابا، ٹریلر سے ہی لگ رہا ہے بکواس ہے‘
لیکن بلدی گئی بھی اور پوری فلم دیکھ کر ہی لوٹی۔
’کیسی تھی فلم؟‘
’بس ایویں تھی، کچھ پلّے ہی نہیں پڑا، پورے ہال میں صرف دو لوگ تھے، ایک بیچ میں ہی اٹھ کر چلا گیا، میں اکیلی ہی تھی پورے ہال میں آخر تک۔‘
میں واقعی حیران رہ گئی۔
’تو نکل آتی جلدی، دماغ میں مزید بھوسہ بھرنا ضروری تھا؟‘
’یارا، کریوِنگ ہو رہی تھی تھیٹر میں فلم دیکھنے کی‘ وہ بلدی ہی کیا جو کبھی میری کسی بات کا برا مناتی۔
ایسا تھا اس کا فلم سے عشق، جیسا میرا چائے سے!
ہمیں کام پر صرف پندرہ منٹ کا چائے بریک ملتا، مگر ہم اپنے حصے کا کام بریک سے قبل ہی نمٹا لیا کرتے تاکہ 15 منٹ کے بجائے چھٹی تک مکمل آرام کر سکیں۔ اسکارلٹ، ہماری سپروائزر چونکہ ہمارے کام سے خوش تھی، سو اس نے ہم پر نظریں رکھنا بھی کم کردیا تھا، لیکن ایک دن ہم پکڑے ہی گئے۔
دراصل ہم دونوں کے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ منزلوں پر واقع تھے سو ایک دن بلدی میرے پاس نچلی منزل پر آجایا کرتی اور دوسرے روز میں اوپری منزل پر پہنچ جاتی۔
اور آج میں بلدی کے ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھی۔
چائے، بسکٹ اور ہنسی مذاق جاری تھا کہ اچانک اسکارلٹ کی کانوں میں جادوگرنی کی سی جھاڑو پھیرتی آواز سنائی دی۔
بس سمجھ لیجیے، جان حلق میں آ گئی، سوچا آج تو نوکری سے ہاتھ دھونے ہی پڑیں گے۔
لیکن اللہ بھلا کرے ایگزٹ دروازوں کا جو عمارت میں جابجا موجود تھے۔
میں فوراً دیوار کے پیچھے چھپی اور بلدی میرے آگے ایسے کھڑی ہوگئی کہ جیسے میرا اس کمرے میں وجود ہی نہ ہو، جوں ہی اسکارلٹ اندر داخل ہوئی، میں بلی کی چپ اور چیتے کی پھرتی سے دوڑ لگاتی ہوئی ایگزٹ دروازے سے باہر نکلی اور سیدھا اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچ کر ہی دم لیا۔
بلدی نے پیچھے سب سنبھال لیا تھا تبھی اسکارلٹ پلٹ کر میرے پاس پوچھ گچھ کے لیے نہیں آئی۔
’یار، تُو تو اسکول میں واقعی ایتھلیٹ رہی ہوگی، جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو، تُو غائب! بھاگنے کی آواز تک نہ آئی۔‘
وہ ترنگ میں اکثر مجھے تم سے تُو کہتی۔
آج بھی ہم اس واقعے پر ہنستے ہیں تو ہنسی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔
بلدی کو میرے ہاتھ کے بنے کھانے بہت پسند تھے، میں پاکستان آتی تو اس کے لیے شان مصالحے اور ہندی فلموں کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز ضرور ساتھ لے جاتی۔
اور وہ میرے لیے مشرقی پنجاب کے خاص پکوان، لیمب بالز، قیمے کے کباب، مصالحے دار سبزیاں بڑے چاؤ سے بناتی۔
لیڈز میں ا کثر آلو کے سموسے، پانی پوری اور گول گپوں کے لیے دل مچلتا تو دیسی دکانوں پر جا کر مہنگے داموں یہ لوازمات لا محالہ خریدنے پڑتے تھے۔
ایک دن ایسے ہی بلدی سے سرسری اس بابت ذکر کردیا۔
’ڈونٹ وری لَو، اس ویک اینڈ پر آتی ہوں تیرے گھر، گانے بھی سنیں گے، اور تیری پسند کی ساری چیزیں بھی ساتھ مل کر بنائیں گے۔‘
اور اگلے ہفتے وہ سارا سامان لے کر میرے گھر آن پہنچی، ہم نے گول گپے بنائے، آلو والے سموسے، چٹنی، پانی پوری، لگا جیسے تہوار ہو۔
بلدی صرف بیس برس کی عمر میں بیاہ کر انگلینڈ آئی تھی، دو دو نوکریاں کرکے گھر چلانا، فیملی کو سپورٹ کرنا، یہی اس کی زندگی تھی۔
جیسا کہ مغربی معاشروں کا دستور ہے کہ یہاں سب کو محنت کرنی پڑتی ہے۔
لیکن کبھی اس کے لبوں سے شکوہ نہ سنا، کبھی چہرے پر مایوسی نہ دیکھی۔
ہماری دوستی ایسی تھی کہ لوگ رشک بھی کرتے، اور بعض اوقات حسد بھی، مگر ہم اپنے حال میں مست رہتے۔
بلدی عمر میں مجھ سے پانچ سال بڑی تھی، اس کی اولاد میری بچیوں سے بڑی، سو وہ میری بیٹیوں سے بڑے بہن بھائیوں جیسا سلوک کرتے، اچھے برے حالات میں بلدی اور اس کے پریوار کا ہونا ہمارے لیے ایک سہارا ہی تھا۔
اک دن بلدی کے ساتھ گردوارے گئی صفائی، خدمت، اپنائیت، سب کچھ دل موہ لینے والا۔
کیا بچے بالے تو کیا بوڑھے، کیا لڑکے تو کیا لڑکیاں اور کون مرد اور کیسی عورت۔۔۔۔لگا گردوارہ سب کا مشترکہ گھر ہے جہاں رسوئی میں کوئی پوری بیل رہا ہے تو کوئی تل رہا ہے، چند عورتیں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں تو کچھ پکا رہی ہیں، کوئی صفائی کررہا ہے تو کوئی دسترخوان پر بیٹھے لوگوں کی تھالیوں میں کھانا پروس رہا ہے۔
گردوارے سے کوئی بھوکا واپس نہ جاتا، چاہے کسی بھی مذہب، فرقے یا رنگ و نسل سے ہو، کئی انگریز بھی دسترخوان پر بیٹھے پرساد سے لطف اندوز ہو رہے تھے، گردوارے میں پکے پکوانوں کا ذائقہ آج بھی زبان پر موجود ہے۔ پھر بلدی کے ساتھ گردوارہ جانا میرا معمول بن گیا۔
عید پر میں اسے مسجد لے گئی، سیریئن کمیونٹی کی مسجد میں عید کی رونق، نماز کے بعد میلے کا سا سماں، وہ سب اس کے لیے نیا تھا، لیکن خوش کن۔
ہم نے ایک دوسرے سے بےشمار چیزیں سیکھیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ مذہب، قوم یا رنگ و نسل سے بڑھ کر انسانیت ہوتی ہے۔
جس دن میں لیڈز کی شے اسٹریٹ کے” ہال بورن ٹیرس” سے کوچ کر کے ہمیشہ کے لیے کراچی واپس آرہی تھی بلدی اور میری آنکھیں رو رو کر بھی خشک نہ ہو رہی تھیں۔ لیکن دور ہو کر بھی دوستی کا رشتہ جوں کا توں قائم ہے۔
چار برس بعد وہ مجھ سے ملنے بیٹے کے ساتھ اسلام آباد آ گئی، ہم نے لاہور اور اسلام آباد رج کے گھوما، رنجیت سنگھ کی سمادھی ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب سب دیکھ ڈالے۔
ننکانہ صاحب میں گرو گرنتھ صاحب کے آگے ماتھا ٹیک کر بولی: ’بس یارا، میرا حج ہو گیا۔‘
اس کے جانے کے پانچ سال بعد میری باری تھی، اس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے، زندگی میں پہلی بار ایک سکھ پریوار میں رہ کر شادی کی رسموں کو برتتے ہوئے قریب سے دیکھا، اس کے تمام رشتہ دار دوست احباب حیران و پریشان کہ دو دشمن ملکوں کی عورتیں دوستی میں نفرت کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔
لیڈز میں بلدی اور میں نے گئے دنوں کو پھر سے زندہ کیا اور ان تمام جگہوں پر دوباری حاضری دی جہاں جہاں سے ہمارا گزر ہوا کرتا تھا۔
اس سال ویساکھی آنے سے پہلے ہی سکھ یاتریوں کے کرتارپورہ آنے کی خبریں اخبارات سے مل رہی تھیں۔ مارچ کی 21 تاریخ کو بلدی نے مجھے فون کرکے خوشخبری سنائی۔ میں سکھ یاتریوں کے ساتھ پاکستان لاہور آرہی ہوں، چند دن کے لیے میں تیرے پاس بھی آ کر رہوں گی۔
اس کی آواز میں جوش تھا، میری خوشی کا بھی ٹھکانہ نہ رہا۔ لیکن شاید اس بار ہمارے نصیب میں فقط دو گھنٹے کی ملاقات لکھی تھی۔
وہ اور میں سمجھے تھے کہ کم از کم ایک دو دن تو ہم ساتھ بِتا لیں گے لیکن سکھ یاتریوں کے گروپ لیڈر اور پاکستانی حکام کی جانب سے یاتریوں کو ادھر سے ادھر ہلنے کی بھی اجازت نہ تھی، کئی دن اثر و رسوخ کے حامل افراد سے بات کی کہ کسی طرح ایک روز ہی سہی بلدی میرے گھر آ سکے لیکن کوئی حوصلہ افزا خبر نہ ملی۔
حالات کے پیش نظر سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت تھے جہاں دوستی جیسے نرم و ملائم جذبے کا کیا گزر؟ بڑی تگ ودو کے بعد مجھے پنجہ صاحب میں بلدی سے ملنے کے لیے صرف دو گھنٹے ملے۔
پنجہ صاحب میں ہزاروں افراد کے بیچ جھپی ڈالتے ہوئے مجھے لگا کہ فقط ہم دونوں سہیلیاں لفٹ میں اپنی 23 سالہ دوستی کا جشن منارہی ہیں۔
’یارا اگلے ہفتے اپنے دلجیت سنگھ کی فلم تھیٹر پر لگ رہی ہے، کاش تو ہوتی تو مل کر پنجابی اور پاکستانی ہیرو ہیروئن والی فلم دیکھتے۔‘
بلدی آج بھی ویسی ہی ہے، سیدھی سادھی سی سنیما میں فلم دیکھنے کی شوقین۔
مگر اب اس کے ویک اینڈ پر ایک کے بجائے دو شوق ہیں، ایک سنیما کا شو دیکھنا، اور دوسرا مجھے فون کرنا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews بیرون ملک پاکستان بھارت دوستی سرحد سکھ لڑکی سے دوستی سکھ یاتری وی نیوز