صنم ماروی کا حج و عمرہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بننے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
پاکستان میوزک انڈسٹری کی لوک گلوکارہ صنم ماروی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں حج و عمرہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گلوکارہ صنم ماروی حال ہی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے شوبز کی دنیا سے وابستہ ہونے پر کی جانے والی تنقید اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر کھل کر بات کی۔
صنم ماروی نے بتایا کہ جب کبھی وہ مذہبی زیارتوں اور حج و عمرہ کرنے جاتی ہیں تو انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر منفی باتیں کرتے ہیں۔
گلوکارہ کا کہنا تھا کہ لوگ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پورا سال گانے گائے اب حج و عمرے کر رہی ہیں۔ جبکہ کوئی کہتا ہے کہ ابھی عمرہ کر رہی ہیں اور واپس جاکر گانیں گائیں گی۔ صنم ماروی نے کہا کہ تنقید کرنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا پیشہ اور یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کی ٹرولنگ پر خاموش رہنا بہتر سمجھتی ہیں کیونکہ وہ نہیں سمجھتے کہ ہم کتنی لگن کیساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صنم ماروی
پڑھیں:
19ویں صدی میں رحیم یار خان میں بننے والا ریلوے اسٹیشن اب کس حال میں ہے؟
انگریزوں کے دور میں برصغیر کے مختلف علاقوں کو آپس میں ملانے کے لیے ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کیا گیا، اس منصوبہ کے مطابق خان پور سے چاچڑاں شریف تک ریلوے لائن بنائی گئی جس کا افتتاح سر ویلم رابرٹ نے 28 جولائی 1911 میں کیا۔
یہ ریلوے لائن قریباً 40 کلومیٹر طویل تھی، اس پر خان پور، کوٹلہ پٹھان، ججہ عباسیاں، ظاہر پیر اور چاچڑاں شریف کے اسٹیشن بنائے گئے تھے اور ان ریلوے اسٹیشنز کے آس پاس بڑی تعداد میں سایہ دار درخت بھی لگائے گئے جو اب بھی موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: ماہرین آثار قدیمہ نے یورپ کی سب سے بڑی اجتماعی قبر دریافت کر لی
کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ انگریزوں کی جانب سے یہ ریلوے لائن بلوچستان کو ملانے کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ انگریزوں کے دور میں مکمل نہ ہو سکا۔
نواب آف بہاولپور کے دور میں ججہ عباسیاں اور چاچڑاں شریف کے ریلوے اسٹیشن کا شمار شاہی ریلوے اسٹیشنز میں ہوتا تھا۔ ججہ عباسیاں میں نواب آف بہاولپور کا محل تھا، محل سے کچھ فاصلے پر ایک جھیل تھی جسے ڈھنڈ گاگڑی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر برصغیر کے راجے مہاراجے اور وائسرائے ہند نواب آف بہاولپور کے ساتھ شکار کے لیے آتے تھے۔
اس کے بعد شاہی مہمان اور نواب آف بہاولپور ججہ عباسیاں ریلوے اسٹیشن سے چاچڑاں شریف سے دریائے سندھ کی سیر کو جاتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد خان پور سے چاچڑاں شریف چلنے والی ٹرین ایک منافع بخش تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرینوں کی تعداد میں کمی کردی گئی اور 1997 میں خان پور سے چاچڑاں شریف جانے والی ٹرینیں نقصان دیکھا کر بند کر دی گئیں۔
2008 میں اس ریلوے لائن کو بھی فروخت کردیا گیا جس سے شاہی اسٹیشن بھی بند ہو گئے اور اب ان شاہی اسٹیشن کو کسی نے گودام بنا دیا ہے تو کسی نے ہوٹل۔
سرائیکی دانشور اور تاریخ دان مجاہد جتوئی کا کہنا ہے کہ یہ ریلوے اسٹیشن تاریخی اور ثقافتی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومت نے ریلوے لائن کی بحالی کے بجائے ان ریلوے اسٹیشنز کو کرایہ پر دے دیا ہے، جس سے ان تاریخی ریلوے اسٹیشنز کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ خان پور سے چاچڑاں شریف تک ریلوے لائن کو بحال کیا جائے۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں واقع قدیم آثار، خطے کے شاندار ماضی کے آئینہ دار
تاریخ دان جام عقیل اظہر کا کہنا ہے ججہ عباسیاں اور چاچڑاں شریف برصغیر کے راجوں اور مہاراجوں کی سیر و تفریح کا مرکز تھا۔ یہ شاہی مہمان نواب آف بہاولپور کی خصوصی دعوت پر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وائسرائے ہند ججہ عباسیاں اور چاچڑاں شریف نواب آف بہاولپور کی دعوت پر آئے تھے۔ مزید جانیے نذر عباس کی اس ویڈیو رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انگریز دور تاریخ ججہ عباسیاں چاچڑاں شریف ریلوے اسٹیشن مؤرخین وی نیوز