مٹیاری: منشیات اورمین پوری کا کاروبار کھلے عام ہونے لگا
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مٹیاری(نمائندہ جسارت) مٹیاری اور گردونواح میں منشیات اور مین پوری کا کاروبار رک نہ سکا۔ نوجوان نسل نشے کی عادی بن گئی۔ سول سوسائٹی کا چیف سیکریٹری اور آئی۔جی سندھ سے نوٹس لینے کا مطالبہ۔مٹیاری ضلع کے ہیڈکواٹر شہر مٹیاری اور گردو نواح کے شہروں الہ ڈینو ساند۔ شاہپور۔ پلیجانی۔ اڈیرولعل۔ کھیبر اور کھنڈو سمیت چھوٹے بڑے گاؤں میں منشیات کا کاروبار کھلے عام جاری ہے۔ مٹیاری شہر کے پیرزادہ علاقے میں ہیروئن کا کاروبار کئی سال سے جاری ہے۔ ہیروئن کا نشہ کرنے کے باعث کئی نوجوان موت کا شکار بن گئے جبکہ کئی لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ مٹیاری شہر کے باقیل پوتہ محلے میں شراب اور مین پوری کا کاروبار بھی جاری ہے جس کے باعث نوجوان نسل تیزی سے نشے کی عادی ہو رہی ہے۔ منشیات فروشوں نے مٹیاری کے ایک دوسرے علاقے موسی محلہ میں چرس کا کاروبار بھی جاری کیا ہوا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کاروبار
پڑھیں:
سمارٹ بزنس پلان
دبئی میں دنیا کی تقریباً تمام نیشنل اورملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز ہیں۔دبئی اتنا خوبصورت اور پرکشش ہےکہ یہاں جو بھی سیاح پہلی بار آتا ہے وہ بے ساختہ ’’واو‘‘ کہہ اٹھتا ہے۔ دوبئی میں بہت زیادہ کاروباری مواقع ہیں، جہاں پچاس ہزاردرہم سے لےکر کئی ملینز تک رقم لگا کراچھا اورکامیاب کاروبار کیاجاسکتا ہے۔ اندرون اوربیرون دبئی کاروبار کرنے کے لئے پوری دنیاکےلوگ دبئی کا اس لئے انتخاب کرتے ہیں کہ یہاں منافع کی شرح دنیا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، یہ شہر ماسوائے قابل واپسی وی اے ٹی کے، ایک ٹیکس فری کاروباری گڑھ ہے۔حکومت انگنت اورآسان سہولیات فراہم کرتی ہے، حکومتی محکمہ جات اورعملہ ہر ممکن تعاون کرتاہے، نئےبزنس مین کو 100فیصد کاروبار اپنےنام پررکھنے کی اجازت ہےاورلوکل اس میں کبھی مداخلت نہیں کرتے، جتنی چاہو پراپرٹی اپنےنام پرخریدو اورتمام مقامی اورانٹرنیشنل بنکس وغیرہ کاروبارکرنے کے لئے لامحدود قرضہ جات بھی دیتے ہیں۔یہاں کاروبار کوہوم ورک کرنے کےبعد کم فنڈز سے شروع کرنا زیادہ کارگر اورکامیابی کی ضمانت ہے۔ ابتدائی طور پر کاروبار شروع کرنےکےلئےصرف اس کاروبار کا انتخاب کرناچاہیے جس میں آپ کودلچسپی ہو اور اس میں کچھ تجربہ بھی ہو۔ مثال کے طور پر یہاں میں آپ کو دو کاروبار میں سے ایک شروع کرنے کی مختصر فزیبلٹی اور اخراجات کا تخمینہ تیار کر کے دے رہا ہوں۔
اول اردو کتاب گھر کھولنا، دوم بزنس کنسلٹینسی اوربزنس پلانز وغیرہ تیار کر کے دینا اور سوم ایونٹ مینجمنٹ، یعنی تقریبات وغیرہ منعقد کروانے کی کمپنی بنانا شامل ہے۔ ان تینوں کمپنیوں کو لانچ کرنے کے لئے یہ اخراجات فکس ہیں مثلا یوزر آئی ڈی 120 درہم، اکانومی سے ابتدائی منظوری 120، نام لینا 620، دفتر کم وبیش 35000 سالانہ جو عام طور پر چارچیکس میں ہوتا ہےجس میں پہلا کیش چیک ہوتا ہے، دیوا الیکٹریسٹی ڈیپاڑٹ وغیرہ 5000، پانچ فیصد رئیل اسٹیٹ کا کمیشن، پانچ ہی فیصد قابل واپسی ڈیپازٹ، لائسنس کا گورنمنٹ فیسوں کا ووچر اوسطاً 18ہزار، امیگریشن اور لیبر کارڈ 1050, انسپیکشن اور کوٹا وغیرہ 900، متفرق 5ہزار اور پی آر او فیس کم و بیش 2ہزار درہم ہوتی ہے۔ کمپنی کس چیز کی بنانی ہے اس کے مطابق لائسنس میں فیسیں کم یا زیادہ آ سکتی ہیں۔ اس میں شاپ کی فٹنگ اور دفتر کی رینوویشن اور فرنیچر وغیرہ کا خرچہ جو 10 سے 30 ہزار تک آ سکتا ہے شامل کریں تو کل ملا کر کتابوں کی دکان کم و بیش 83 ہزار، بزنس کنسلٹینسی 54 اور ایونٹ مینجمنٹ کا لائسنس 42 ہزار درہم تک سو فیصد ملکیت اور لوکل (عربی) کو شامل کیے بغیر بن جاتا ہے۔ اس سے ابتدائی طور پر کام شروع ہو جاتا ہے۔نئی کمپنی بناتے وقت لوکل کو نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ حکومت یہ سہولت دیتی ہے تو اسی سے فائدہ اٹھانا زیادہ سودمند ہے۔ پورے متحدہ عرب امارات اورخاص طور پر دبئی میں اردو کتابوں کی کوئی دکان نہیں ہے۔ پاکستان سے انڈیا اردو کتابیں نہ ایکسپورٹ ہوتی ہیں اور نہ امپورٹ ہوتی ہیں جبکہ دبئی میں اردو کتاب گھر کھولا جائے تو کتابیں نہ صرف انڈیا بھیجی جا سکتی ہیں بلکہ یہاں سے کتابیں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک کو بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔ میں نے اکثر لائبریریوں کا وزٹ کیا ہےوہ تمام لائبریریاں اردو کتابیں خریدنا چاہتی ہیں مگر یہاں کوئی کتابوں کی دکان نہیں ہے جو ان کو کتابیں بیچ سکےجبکہ وہاں سے لاکھوں درہم کاسالانہ آرڈرمل سکتا ہے۔ اردو کتاب گھر کھولا جائے تو آن لائن بھی کتابیں بیچی جا سکتی ہیں۔بزنس کنسلٹینسی کے کام میں نئے بزنس مینوں کو نیاکاروباری لائسنس بناکر دینا، کاروبار کے مختلف فیلڈز کے مشورہ جات فراہم کرنا اور انہیں بزنس پلان وغیرہ تیار کر کے دینا شامل ہے دبئی میں جو پاکستانی بزنس کنسلٹینسی کا کام کر رہے ہیں وہ پی آر او کی شکل میں غیر پیشہ ورانہ طریقے سے کر رہے ہیں۔ پاکستانی پی آر اوز 90 فیصد سے زیادہ ایجنٹ ہیں جو کمپنیاں بنا کر ویزے بیچنے کے غیرقانونی دھندے میں ملوث ہیں جن کےخلاف حکومت نے کریک ڈائون شروع کر رکھا ہے۔ پاکستانی بنکوں سے قرضے لے کر بھی بھاگ جاتے ہیں۔پوری تحقیق کے بعد ایماندار اور پیشہ ور ماہر سے ہی کمپنی بنانے اور نیا کاروبار کھولنے کے لئے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کام میں بہت سے بددیانت لوگ بھی موجود ہیں۔ حتی کہ اس میں جرائم پیشہ لوگ بھی موجود ہیں۔ اس سے پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی ہے اور پاکستان کے روزگار کے ویزوں پر بھی گزشتہ دو سالوں سے پابندی ہےجس کے کھلنے کا ابھی بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستانی پڑھےلکھے وزٹ ویزوں پریہاں آ کر روزگارتلاش کرتے ہیں مگر پاکستانیوں کے وزٹ ویزوں پربھی سختی ہےاورپچاس فیصد سےزیادہ ویزے نامنظور (ریجیکٹ) ہو جاتے ہیں۔بزنس کنسلٹینسی کاباقاعدہ دفتر ہو،اپنا ویب سائٹ ہو,مارکیٹنگ کاماہرعملہ ہواور سوشل میڈیا پر مناسب ایڈورٹائزمنٹ کی جائے تو مغربی ممالک اور دیگر عرب ملکوں سے اچھےکسٹمرز پکڑے جاسکتے ہیں۔ دبئی میں کنسٹرکشن، ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹ، ٹورازم اور ٹریڈنگ جیسے دیگر انگنت کاروبارہیں جن سےخوب پیسہ کمایاجاسکتاہے۔ یہاں ایسے پاکستانی بزنس مین بھی ہیں جو روزانہ ایک لاکھ درہم سےبھی زیادہ کی دہاڑی لگاتے ہیں۔ میرے علم میں ایسے کامیاب بزنس مین بھی ہیں جو مزدور کے ویزے پر کسی کمپنی میں آئے اور آج ملینز میں ہیں۔
کاروبارکی کامیابی اورترقی کاانحصار ایمانداری، کمٹمنٹ، جذبے،محنت، لگن اور ہوم ورک پر ہے۔ دوبئی میں روزانہ درجنوں تعلیمی، کاروباری، ثقافتی، تفریحی اور ادبی پروگرامز وغیرہ ہوتے ہیں، سیمینارز، بحث و مباحثے، جرگے اور کانفرنسز ہوتی ہیں۔ آپ خالی ایک چائے کا کھوکھالگا کر بھی روزانہ 2ہزار درہم تک (جو پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بنتے ہیں) جیب میں ڈال سکتے ہیں۔ ایونٹ مینجمنٹ کا لائسنس سب سے کم پیسوں میں بنتا ہے۔ اس سے دس سے پندرہ ہزار درہم ماہانہ آسانی سے بچایاجاسکتاہے۔