بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال ، انتظامی ڈھانچہ مفلوج
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) سرکاری ملازمین کے اس احتجاج سے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور دیگر سرکاری خدمات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ مبصرین کہتے ہیں ناقص طرز حکمرانی کے خلاف ملازمین کا احتجاج صوبے میں گہر ے عدم اطمینان کی علامت ہے جو ریاستی مشینری کے اندر پنپ رہا ہے۔
احتجاج کی وجوہات اور ملازمین کے مطالباتبلوچستان میں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم ،گرینڈ الائنس کے سینئر عہدیدار ، سلام زہری کہتے ہیں کہ ملازمین کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا تو یہ تحریک عوامی مزاحمت میں بھی بدل سکتی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں لیکن بلوچستان میں حکومت اپنے ہی ملازمین کو طاقت کے بل بوتے پر بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے ۔(جاری ہے)
ملازمین نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا ہے جسے حکومت تسلیم نہیں کرسکتی۔ اس وقت صوبے میں 3 لاکھ سے ذائد ملازمین اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں ۔
سلام زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے زمینی حقائق حکومتی دعووں سے یکسر مختلف ہیں ان کے بقول ، ''بلوچستان میں حکومتی مشینری صرف فائلوں تک محدود ہے۔ حکومت اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کی بجائے معاشی ناکامیوں کا سارا ملبہ سرکاری ملازمین پر ڈال رہی ہے ۔ صوبے کو حکومتی اقدمات کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کے سامنا ہے ۔‘‘
غیر مساوی سلوک پر ملازمین کے تحفظات اور بے چینیاحتجاج میں شامل گرینڈ الائنس کے ایک اور مقامی عہدیدار ، رحمت اللہ کہتے ہیں کہ یہ احتجاج صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا مراعات کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے حکومت کے اس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مذید کہا، ''یہ احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے جس سے حکومت ہمیں کبھی محروم نہیں کرسکتی۔ گرفتار ملازمین کو مطالبات سے دستبردار کرنے کے لیے ملازمتوں سے برطرف کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔‘‘رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں بیوروکریسی سمیت دیگر ریاستی خدمات کا مکمل تعطل ایک بڑے انتظامی خلا کو جنم دے رہا ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
ملازمین کے اس احتجاج میں بڑے پیمانے پر ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اس تحریک کو صوبے میں گوڈ گورننس کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے ۔
38 سالہ ریحانہ کما ل جو کہ کوئٹہ کے ایک مقامی اسکول میں بطورسائنس ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی ہیں کہتی ہیں کہ یہ احتجاج سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی ایک اجتماعی آواز بھی ہے جسے حکومت دبانے کی کوشش کررہی ہے۔
ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے لاکھوں سرکاری ملازمین کو حکومت نے صوبے میں پسماندگی کا نعرہ لگا کر بنیادی حقوق سے محروم کررکھا ہے ۔ اگر یہ صوبہ اس قدر تباہ حال ہے تو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے صاحبان اختیار کیوں ہر قسم کے وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ؟ عوام کے ٹیکس کے پیسے حکمران اپنی شا ہ خرچیوں پر لگا کر ہمیشہ یہاں وسائل کی کمی کی رٹ لگا رہے ہوتے ہیں ۔‘‘ریحانہ کمال کا کہنا تھا کہ صوبائی محکموں کے ملازمین کو وفاقی طرز پر حکومت 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس فراہم نہ کرکے ان کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے۔
انتظامی بحران پر سیاسی مبصرین کیا کہتے ہیں ؟بلوچستان میں سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار مرزا شمشاد احمد کہتے ہیں کہ ملازمین کا احتجاج دراصل صوبے میں گورننس کا بحران ہے جوکہ پہلے ہی دہشت گردی سے دوچار صوبے کو مزید شورش کا شکار بنا سکتی ہے ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں جاری یہ احتجاج محض ایک عام تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہرا انتظامی اور سیاسی بحران ہے۔ اگر حکومت اور ملازمین کے درمیان فوری اور بامعنی مذاکرات نہ ہوئے تو اس کا اثر نہ صرف گورننس بلکہ صوبے کی سکیورٹی صورتحال پر بھی پڑ سکتا ہے۔ صوبے میں سرکاری انتظامی نظام کی یہ معطلی شدت پسند عناصر کے لیے بھی خلا پیدا کر سکتی ہے۔
حکومت کو صوبے کے معروضی حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔‘‘ احتجاجی تحریک پر حکومت کیا کہتی ہے ؟بلوچستان میں حکومت نے صوبائی محکموں میں ہڑتال کے باعث پیدا ہونے والے انتطامی بحران سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اس کارروائی کے دوران اب تک 160 ملازمین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اہم عہدوں پر تعینات کئی اہلکار بھی شامل ہیں ۔کوئٹہ میں تعینات محکمہ خزانہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملازمین کے مطالبات منظور کر کے حکومت صوبائی خزانے پر 14 ارب روپے سے زائد اضافی بوجھ نہیں ڈال سکتی۔
انہوں نے مزید کہا، ''دیکھیں بلوچستان کے محدود مالی وسائل ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ ہم وہ مطالبات منظور کرلیں جو کہ ملازمین کی جانب سے سامنے آئے ہیں ۔
ان حالات میں جب صوبے پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں ملازمین کو بلیک میلنگ کی بجائے اپنی سروسز کی بہتری پر توجہ دینا ہوگی۔‘‘واضح رہے کہ چند یوم قبل سرکاری ملازمین نے صوبائی اسمبلی کے باہر بھی دھرنا دینے کی کوشش کی تھی جس پر ان کے خلاف پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور اس دوران کئی ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔
ادارت : کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سرکاری ملازمین بلوچستان میں ملازمین کے ملازمین کو ملازمین کی کہ ملازمین یہ احتجاج سے حکومت کہتے ہیں کے لیے رہی ہے ہیں کہ
پڑھیں:
سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
سندھ کی تقسیم کا معاملہ پاکستان کی سیاست میں ایک حساس موضوع رہا ہے جو اب ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کوئی کیک نہیں جو بانٹ دیا جائے، پیپلز پارٹی کا مصطفیٰ کمال کے بیان پر ردعمل
وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرآپ ایم کیو ایم کی بات نہیں سنتے ہیں تو سندھ میں صوبہ بنے گا کیونکہ آپ حالات ایسے بنارہے ہیں اور لوگوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل اور ثقافت میں بڑا فرق ہے۔ ان کے مطابق، شہری علاقوں کے مسائل پر صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہیں دی جاتی اور ایک نئے صوبے سے بہتر انتظامی کنٹرول، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہری علاقوں کے لوگوں کو زیادہ نمائندگی مل سکے گی۔
سندھ کی تقسیم کی سخت مخالفت صوبے کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ صوبوں کی تقسیم کسی کے حق میں نہیں ہے ویسے تو عام آدمی یا ورکرز کے لیے یہ اچھا لگے گا جیسے قوم پرست نتظیموں نے سندھ کی علیحدگی کے نعرے لگائے تھے۔
مزید پڑھیے: ’دودھ دینے والی گائے، کہیں مر ہی نہ جائے‘: مصطفیٰ کمال کی شہری علاقوں کی محرومیوں‘ پر گفتگو
انہوں نے کہا کہ اس سے سندھ علیحدہ تو نہیں ہوا ایسے ہی مہاجر صوبے کا نعرہ لگا کر شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ لوگوں کو سبز باغ دیکھا دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں اور اگر ہوا ایسا تو حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔
رفعت سعید کا کہنا ہے کہ اس ملک میں سیاست کی صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی بنیاد پر بھی صوبہ بنانے کو صوبے کی تقسیم سمجھا جاتا ہے اور صوبے کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کی جا رہی سب مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بات چیت کی سیاست نہیں رہی جب مکالمہ ہوا کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزا جواد بیگ ہوا کرتے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ انتظامی طور پر پاکستان کے 32 صوبے بنا دو تو کہ مسائل حل ہو سکیں، بات کی جاتی ہے پنجاب کی تو وہاں زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہے وہاں بھی بات سب کرتے ہیں لیکن اس وقت عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کی لوکل باڈیز کے حوالے سے مجوزہ ترمیم پر مزید مشاورت کی جائےگی، وزیراعظم
ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے رفعت سعید کا کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ مطمئن تھے کہ ان کی بات رکھی جائے گی لیکن ان کی باتوں کو جگہ نہ مل سکی، ہو سکتا ہے انہیں 28 ویں ترمیم میں کوئی آسرا دیا جائے۔
رفعت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو بات کہے گی اس کو ماننی ہوگی اور ویسے بھی اب یہ تقسیم ہوچکی ہے اور پہلے جیسی ایم کیو ایم نہیں رہی اور نہ ہی اسے ماضی والی ایم کیو ایم بننے دیا جائے گا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حمید سومرو نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبے کے معاملات 70 کی دہائی میں شروع ہوئے ممتاز علی بھٹو کے دور میں وہ بھی لسانی بنیاد پر اس وقت یہ آواز سامنے آئی کہ شہری علاقوں کو الگ حیثیت دی جائے اس کے بعد پھر ایم کیو ایم سے نقشے بھی برآمد ہوئے اور مطالبات بھی سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے کو مہاجر کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جیسے پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کھیلتی ہے ویسے ایم کیو ایم مہاجر کارڈ کھیلتی ہے کیوں کہ یہ لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ایم کیو ایم پنجاب کا اجلاس، بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سیاسی ہمدردیاں حاصل کر رہی ہے اس وقت مسائل حل نہ ہونے کے باعث لوگوں میں احساس محرومی ہے اور یہ اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بننا اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ آئین کے مطابق متعلقہ صوبے کی اسمبلی ایک تہائی اکثریت سے بل پاس کرے گی، اس کے بنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی کارڈ ہے جو ہر صوبے میں مختلف اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن سوائے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔
تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ناقص اور گورننس بدترین ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی ترقی کو رکی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر اور عوام کبھی فیلڈ مارشل کو تو کبھی چیف جسٹس آف پاکستان کو پکارتے ہیں اور کراچی کے انتظامی معاملات سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: نئے صوبے 3 ٹیلی فون کی مار ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فون کریں اور ترمیم کرالیں، حافظ نعیم
عتیق میر کے مطابق کراچی الگ صوبہ نہ بھی بنائیں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ سندھ سے الگ ہونا چاہیے تا کہ کراچی کے عوام و تاجر کراچی اور ملک کے لیے مل کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کا پورا ڈھانچہ درہم برہم ہے جبکہ میئر کراچی جو پیپلز پارٹی کے ہیں اور ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔
عتیق میر نے کہا کہ اگر لفظ صوبہ پیپلز پارٹی کو گراں گزرتا ہے تو صوبہ بھلے نہ بنے لیکن اس کے معاملات الگ ہوں جو صرف اور صرف کراچی کے لیے ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم ایم کیو ایم اور مسئلہ کراچی پیپلز پارٹی علیحدگی پسند جماعتیں مسئلہ کراچی