Express News:
2025-10-04@23:43:07 GMT

روزانہ وٹامنز کھانے سے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے اور بعد کی دنیا میں ایک نمایاں فرق محسوس کیا گیا ہے، جس کا اظہار اگرچہ تقریباً ہر شعبہ میں ہوا لیکن صحت کے معاملہ میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے، دنیا بھر کے ممالک میں بسنے والوں افراد نے صحت کو وہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے، جو شائد وہ پہلے نہیں دے پا رہے تھے۔

لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کورونا وبا کے بعد دنیا بھر میں صحت سے متعلق شعور میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ایک عام سوال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ آیا روزانہ وٹامنز لینا واقعی فائدہ مند ہے یا یہ محض ایک بے فائدہ عادت ہے؟ اگرچہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں لیکن مختلف رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی نصف آبادی روزانہ مختلف اشکال میں وٹامن لیتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق، تقریباً ایک تہائی بالغ امریکی روزانہ ملٹی وٹامنز لیتے ہیں۔

کچھ رپورٹس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ 86 فیصد افراد وٹامن یا سپلیمنٹ استعمال کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسی رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف 21 فیصد افراد میں وٹامن کی کمی کی باقاعدہ تشخیص ہوئی ہے۔ یہی الجھن پاکستان جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی عام ہے۔ اکثر افراد بغیر کسی خون کی جانچ یا ڈاکٹر کی رائے کے وٹامنز لینا شروع کر دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ جسم کے لیے ہر صورت مفید ہوں گے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہو سکتی ہے، کیوں کہ بغیر تشخیص یا ڈاکٹر کے مشورے، خود سے وٹامن لینا بعض اوقات نفع کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

وٹامنز لینا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟

انسانی غذا کے اندر بنیادی طور پر 6 چیزیں شامل ہوتی ہیں، جن میں کاربوہائیڈریٹ (Carbohydrates)، پروٹین (Proteins)، چربی (Lipids)، نمکیات، پانی اور وٹامن شامل ہیں۔ یہ تمام اجزاء انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہیں تاہم یہاں ہمارا موضوعِ سخن وٹامن ہے۔ وٹامن کا لفظ انگریزی کے ایک لفظ وائٹل سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ناگزیر۔ حیاتین یا وٹامن ’’حیات‘‘ کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، اس لیے اردو میں انہیں حیاتین کہا جاتا ہے۔ وٹامن دراصل قدرتی اجزاء ہیں، جو کھانے کی چیزوں میں پائے جاتے ہیں۔

جن کا کام انسانی جسم کی نشوونما کرنا، پٹھوں کو مضبوط کرنا، خون کو صاف رکھنا، کھانے کو ہضم کرنا اور نقصان دہ اجزاء کو تباہ کرنا ہے۔ جبکہ ان وٹامن کی کمی سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لہذا انسانی جسم کو درست طریقے سے کام کرنے کے لیے مختلف وٹامنز اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ وٹامنز نہ صرف توانائی کی پیداوار، جلد کی صحت، ہڈیوں کی مضبوطی، اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں بلکہ دماغی افعال اور ہارمونی توازن کے لیے بھی ضروری ہیں۔ مثلاً؛

وٹامن D ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔

وٹامن B12 اعصابی نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔

وٹامن C مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے اور زخم جلدی بھرنے میں مدد دیتا ہے۔

آئرن اور فولیٹ خون کے سرخ خلیات بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

تاہم، اگر یہ تمام اجزاء متوازن غذا سے حاصل ہو رہے ہوں، تو اضافی وٹامنز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ماہرینِ صحت کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر سیموئل میتھیس، جو کہ خاندانی طب کے ماہر اور یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ کسی شخص کو اگر واقعی کسی وٹامن کی کمی ہو تو ملٹی وٹامن لینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسی کوئی کمی نہیں، تو پھر اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ ماہر غذائیت جولیا زومپانو، کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے اگر کسی شخص کی خوراک متوازن ہو اور وہ پہلے سے سپلیمنٹ لے رہا ہو تو ملٹی وٹامن لینا اکثر غیر ضروری ہوتا ہے۔ تاہم کچھ خاص حالات میں یہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ملٹی وٹامنز کیا ہوتے ہیں؟

وٹامنز ایسے غذائی سپلیمنٹ ہوتے ہیں جن میں کئی ضروری وٹامنز اور معدنیات ایک ساتھ شامل ہوتے ہیں، جیسے:

وٹامن A، B-complex، C، D، E اور K

معدنیات جیسے آئرن، کیلشیم، میگنیشیم، زنک، سیلینیم

یہ گولیاں، کیپسول، سفوف یا مائع شکل میں دستیاب ہوتے ہیں اور اکثر لوگ انہیں روزمرہ توانائی یا صحت کے لیے جامع سپلیمنٹ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ماہر غذائیت جولیا زومپانو تجویز کرتی ہیں کہ ملٹی وٹامن خریدتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؛

عمر اور جنس کے مطابق منتخب کریں (خواتین، مرد، بزرگ، حاملہ خواتین وغیرہ)

اضافی شکر، رنگ یا غیر ضروری فلرز سے پاک ہو

ہدایات کے مطابق مناسب مقدار میں استعمال کی جائے

کن لوگوں کو وٹامنز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟

حاملہ خواتین: فولک ایسڈ، آئرن اور کیلشیم کی اضافی ضرورت ہوتی ہے۔

بوڑھے افراد: وٹامن B12، D اور کیلشیم کی کمی عام ہوتی ہے۔

ویگن یا سبزی خور افراد: وٹامن B12، آئرن اور زنک کی کمی کا خطرہ ہوتا ہے۔

طبی مریض: مخصوص بیماریوں میں مخصوص وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں۔

کمزور یا ناکافی غذا لینے والے افراد: جیسے جن کی خوراک میں پھل، سبزیاں یا دودھ کی مصنوعات شامل نہیں ہوتیں۔

وٹامنز جسم میں کیسے جذب ہوتے ہیں؟

جسم وٹامنز کو غذا یا سپلیمنٹ سے حاصل کرتا ہے، لیکن ہر وٹامن ایک ہی انداز میں جذب نہیں ہوتا۔ مثلاً؛

(A, D, E, K) Fat-soluble vitamins کو چکنائی کے ساتھ کھانے سے بہتر جذب کیا جاتا ہے۔

Water-soluble vitamins (B-complex, C) جسم سے خارج ہو جاتے ہیں اگر ضرورت سے زیادہ ہوں۔

جذب بہتر بنانے کے لیے؛

وٹامنز ہمیشہ کھانے کے ساتھ لیں

چکنائی والی خوراک جیسے انڈہ، دودھ، مچھلی کے ساتھ لینا مفید ہوتا ہے

اگر معدے کی کوئی بیماری ہو، جیسے السر، سیلیک یا IBS، تو وٹامنز کا جذب متاثر ہو سکتا ہے

وٹامن لینے کے بعد اثرات ظاہر ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

ڈاکٹر میتھیس کے مطابق کچھ وٹامنز، جیسے وٹامن سی، کے اثرات چند دن میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جیسے تھکن میں کمی، جلد کی چمک، یا مدافعتی نظام کی بہتری۔ جبکہ دیگر وٹامنز، جیسے B12 یا D کے اثرات ظاہر ہونے میں چار سے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ زومپانو کے مطابق مکمل نتائج کے لیے دو سے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو سکتا ہے۔

روزانہ ملٹی وٹامن لیناسے فوائد اور احتیاط

روزانہ وٹامن لینے سے ممکنہ فوائد ہو سکتے ہیں جیسے کہ

تھکن میں کمی

سردی زکام سے بچاؤ

دماغی اور جسمانی کارکردگی میں بہتری

ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی

بالوں اور جلد کی حالت میں بہتری

ممکنہ نقصان یا مضر اثرات

پیٹ کی خرابی

اسہال یا قبض

متلی، گیس، یا بدہضمی

پیشاب کا رنگ پیلا یا نارنجی ہو جانا

الرجی (خارش، دانے، سانس میں تنگی)

زیادہ مقدار کا نقصان

وٹامن اے یا ڈی کی زیادتی جگر کو نقصان دے سکتی ہے

آئرن کی زیادتی خون کے سرخ خلیات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے

وٹامن سی کی زیادتی سے گردے کی پتھری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

غذائی ذرائع بہتر یا سپلیمنٹ؟

ماہرین صحت ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں کہ وٹامنز خوراک سے حاصل کیے جائیں، کیوں کہ؛

قدرتی غذا میں موجود اجزاء ایک دوسرے کی مدد سے بہتر جذب ہوتے ہیں

اضافی شکر، مصنوعی رنگ، یا فلرز شامل نہیں ہوتے

غذا میں فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس بھی موجود ہوتے ہیں

مثال کے طور پر

وٹامن C = لیموں، مالٹا، ٹماٹر

وٹامن A = گاجر، پالک، آم

وٹامن D = سورج کی روشنی، انڈے کی زردی، مچھلی

کیلشیم = دودھ، دہی، پنیر، تل

کیا آپ کو ملٹی وٹامن لینا چاہیے؟

ہر شخص کی غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ اگر آپ متوازن غذا کھا رہے ہیں، متحرک طرزِ زندگی رکھتے ہیں اور کسی بیماری کا شکار نہیں، تو شاید آپ کو الگ سے وٹامنز کی ضرورت نہ ہو۔ تاہم اگر تھکن، بال گرنا، کمزوری، کمزور مدافعت، یا خوراک میں کمی محسوس ہو تو وٹامنز لینا مفید ہو سکتا ہے، مگر صرف کسی ماہر کی نگرانی میں۔

یاد رکھیں! وٹامنز دوا نہیں، غذا کا نعم البدل نہیں، اور نہ ہی فوری توانائی دینے والے جادوئی سپلیمنٹ ہیں۔ یہ صرف تب ہی فائدہ دیتے ہیں جب آپ کے جسم کو واقعی ان کی ضرورت ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہو سکتا ہے وٹامنز کی کی ضرورت کے مطابق جاتے ہیں ہوتے ہیں ضرورت ہو سکتی ہے جاتا ہے کے لیے ہیں کہ کی کمی میں یہ

پڑھیں:

کردار اور امید!

1947میں تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد‘ تقریباً ڈیڑھ کروڑ نفوس دونوں اطراف سے اپنے نئے ممالک میں کوچ کر گئے۔ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔

اگر ٹائن بی کو غور سے پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ چشم فلک نے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں اور ان کے خاندانوں کو حد درجہ بے بسی سے لٹتے پٹتے ہوئے ‘ ایک ملک سے سرحد پار‘ اپنے نئے وطن میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ قتل و غارت تو خیر ہر جانب سے ہوئی۔ اس خون ریزی سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ ا گر صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ کروڑوں انسانوں نے اپنے گھر بار ‘ کاروبار اور آبائی شہروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟ کیا وجوہات تھیں کہ ان گنت نفوس‘ بغیر کسی سابقہ تجربہ کے یک دم‘ مہاجر بن گئے؟ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کی تمام جزئیات کو ایک مختصر کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔

مگر طالب علم کو دو وجوہات ایسی معلوم پڑتی ہیں جنھوں نے لوگوں کو ذہنی طور پر قائل کیا‘ اور انھوںنے فانی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا۔ پہلا عنصر تو یہ‘ اس وقت کی قیادت اور ان کے دعوؤں پر عام آدمی کو مکمل یقین تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت محمد علی جناح کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ یہی حال ‘ ہندوؤں کا گاندھی اور نہرو پر مکمل اعتماد کا تھا۔ اگر ہم صرف‘ مسلمانوں کی بات کریں۔ تو اس میں بھی ہمیں دو طرح کے رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم آبادی چورانوے ملین (94 Millin) کے لگ بھگ تھی۔ واضح اکثریت نے قائداعظم کی باتوں پر لبیک کہا اور نئے ملک یعنی پاکستان آ گئے۔ مگر‘ ہندوستان کو نہ چھوڑنے والے مسلمان بھی کروڑوں میں تھے۔

جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پاکستان نہیں آئی۔ بہر حال‘ اعداد و شمار کی بحث سے نکل کر‘ اگر ہم واقعاتی طرز پر معاملہ دیکھیں تو قائد کی شخصیت پر بھرپور اعتماد ‘ وہ بنیاد بنی‘ جس نے لوگوں کو نامعلوم شہروں کی طرف آنے پر آمادہ کر لیا۔ مگر سوچئے‘ کہ جناح صاحب اور 1947کے مسلمانوں میں تو کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی۔ قائد‘ مغربی طرز پر زندگی گزارنے والے دولت مند انسان تھے۔ مالا بار ہلز میں ان کا گھر‘ ایک محل کی طرح تھا۔ کھاناپینا بھی‘ عام لوگوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ گھر میں کانٹی نینٹل اور دیگر کھانے بنانے والے علیحدہ علیحدہ باورچی تھے۔ کپڑوں کو ملاحظہ کریں تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ برصغیرکے نناوے فیصد لوگ‘ اتنے قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جناح صاحب کے پاس‘ بیش قیمت گاڑیاں تھیں۔ قیمتی ترین سگار پیتے تھے۔

چھٹیاں گزارنے کے لیے لندن ‘ پیرس‘ اور مغربی ممالک میں رہتے تھے۔ تو پھر کیا۔ یہ سوال پوچھنا مناسب نہیں ہے کہ… ایک ایسا شخص جس کی مماثلت ‘ کسی طور پر عام مسلمانوں کے طرز زندگی سے نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پر آنکھ بند کر کے کیسے یقین کر لیا؟ جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جناح صاحب کا کردار اتنا پختہ اور مضبوط تھا کہ ان پر مسلمان تو کیا‘ غیر مسلم بھی مکمل یقین کرتے تھے۔ کردار کی عظمت وہ بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کو جواز فراہم کیا ‘ کہ آنکھیں بند کر کے‘ نئے وطن کی طرف روانہ ہوجائیں۔ خون کے دریا گزرنے سے بھی نہ گھبرائیں۔ جائیداد بھی پیروں کی زنجیر نہ بننے پائی۔ قائد کا کردار ہی وہ کنجی ہے‘ جس سے پاکستان جیسے عظیم ملک کو قائم کرنے کا تالہ کھل پایا۔

مگر اس کے علاوہ‘ ایک حد درجہ اہم عنصر اور بھی تھا۔ جسے پہچاننے اور ذہن نشین کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ یہ ‘ کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن تھی۔ یقین تھا کہ نیا وطن‘ پاکستان ان کے لیے بے پناہ مواقع لے کر آئے گا۔ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ اقتصادی ترقی‘ ان کے قدموں میں ہو گی۔ خود پاکستان کے خالق نے ان نئی جہتو ں کا متعدد بار اعادہ کیا تھا۔ بارہا اعلان کیا تھا کہ نئے ملک میں مسلمانوں کو ذاتی ترقی کے وہ تمام مواقع دستیاب ہوں گے جو آج تک ہندو اکثریت نے انھیں فراہم نہیں کیے۔

یہ بات بالکل درست تھی کہ پاکستان ایک ایسا خواب تھا‘ جو مسلمانوں کے ہر مثبت قدم کی تعبیر تھا۔ 1940سے لے کر 1947سے مسلمانوں میں امید کی یہ کرن ‘ اتنی طاقتور ہو چکی تھی کہ انھیں اپنا سب کچھ لٹانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ دلیل کو سمیٹے ہوئے‘ یہ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے بلند کردار‘ نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کے ایسے چراغ جلا دیے تھے کہ وہ سود و زیاں سے بالاتر ہو چکے تھے۔ مگر قائد کی بیماری اور وفات نے‘ ملک کو ایسے معاملات سے دو چار کر دیا جس نے تمام رموز سلطنت‘ حددرجہ ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں دے ڈالے۔

یہ وہ حکمران تھے‘ جو بذات خود‘ پاکستانیوں کے لیے ام المسائل تھے۔ شعوری طور پر لوگوں کو مفلوج کر کے ایک سراب تخلیق کیا گیا۔ جہاں پر آج تک ‘ کسی بھی پاکستانی کی رسائی نہیں ہو پائی۔ غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ وہ ناعاقبت اندیش حکمران تھے‘ جنھوں نے ملک کی بہتری اور لوگوں کی خدمت کے بجائے‘ سازش کے ذریعے ملک پر مسلسل حکمرانی کا ارادہ کیا۔ دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں گئے۔ مگر جاتے جاتے‘ ملک کی بنیادوں کو ہلا گئے۔ آمروں نے عمومی حکمرانی‘ سازش اور قومی تشخص کی کمزوری کی بنیاد پرکی ۔ کھوکھلے نعرے‘ بے مقصد تقریبات ‘ تشدد پسندی جذباتیت ‘ فرقہ پرستی اور نفرت کے ایسے بیج بوئے جو آج توانا ہو کر برگد کے درخت نہیں‘ بلکہ مہیب جنگل کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں۔ ملک کی زمین کو انھوںنے فروعی کانٹوں سے پر کر دیا‘ جو اب بارودی سرنگیں بن چکی ہیں۔ یعنی قائداعظم کی رحلت کے بعد ‘باکردار حکمران تو خیر آئے ہی نہیں‘ یا آنے نہ دیے گئے۔

ملک کے عام لوگوں کی امید کی تمام روشنی کو بھی اندھیرے میں بدل دیا ۔ سیاست دانوں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ مال و دولت کا ناجائز ذخیرہ ان کی زندگی کامقصد بن گیا۔ ہاں‘ ایک اور بات‘ جس سیاست دان یا شخص نے ملک کی بہتری کی کوئی بھی کوشش کی اسے منفی حکمت عملی سے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ جس وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا۔ نوے ہزار جنگی قیدی واپس لانے کا لازوال کارنامہ انجام دیا۔ بدلے میں عدالت کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔ جس سیاست دان نے ملک میں شہریوں کے لیے موٹرویز کا خوبصورت جال بچھایا۔ نئے ایرپورٹ تعمیر کروائے ‘ ہمسایہ ملک کے ساتھ پائیدار امن کی بات کی‘ اسے برباد کر دیا گیا اور آج بھی راندہ درگاہ ہے۔ جس خاتون وزیراعظم نے عوامی سطح کی خدمت کرنے کی جوت جگائی۔ اسے سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے‘ یہ سب منفی ترین کام کیے ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر پایا۔

گزشتہ تین برس ملک پر خصوصی طور پر بھاری پڑے۔ 30لاکھ پاکستانی ‘ اپنے اثاثے اونے پونے فروخت کر کے پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے۔ بلوم برگ جیسے معتبر چینل کے مطابق‘ یہ لاکھوں لوگ کوئی مزدوری کرنے نہیںگئے۔ یہ ان پڑھ افراد بھی نہیں تھے۔ ان میں پروفیشنل‘ کامیاب کاروباری اشخاص‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین اور اسی سطح کے لوگ تھے۔ مگر سوچیئے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ اور آج بھی کیوںبدستور جاری ہے؟ دراصل ‘ پاکستانیوں کی اکثریت ‘ اپنے حکمرانوں میں بلند کردار کے اوصاف نہیں دیکھتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سڑک چھاپ‘ سائیکل سے حد درجہ دونمبر ذرایع سے ارب پتی بن گئے۔ اور اب حق ِحکمرانی کو صرف اپنے تک محدود کر چکے ہیں۔ ہر وقت نت نئے اسکینڈل ‘ اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

مگر کسی قسم کا کوئی احتساب نہیں ہو پاتا۔ اچھے کردار کی بات کیا کرنی‘ اب تو جو حقیقتاً منفی صفات کا مالک ہے ‘ وہ خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس ناجائز حکمرانی نے لوگوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کر دی ہے۔ ان سے بہتری کی معمولی سے معمولی امید بھی چھین لی ہے۔ انھیں یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس ملک میںان کا اور ان کی اولاد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ایک غیر جانبدار سروے کروا لیجیے۔ آپ کے سامنے ‘ حکمرانوں کے کردار اور امید کے متعلق تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سچ سب جانتے ہیں مگر سچ سننا نہیں چاہتے۔ ملک کی ناکامی کی وجوہات سب سمجھتے ہیں۔ مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے قصداً کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ سرکاری سطح پر ناکامی کو چھپانے کے لیے‘ جھوٹ کی مکمل سرپرستی کی جا رہی ہے۔ صحرا میں پل بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جانتے ہوئے کہ صحرا میں پانی کا گزر کبھی ہو گا ہی نہیں۔ ناامیدی کو اب‘ امید میں بدلنا معروضی طور پر ممکن نہیں رہا۔ اور ہاں۔ حکمران طبقہ میں بلند کردار کی بات کرنا‘ صرف اور صرف وقت کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ جناب! یہاں حالات ‘ کم از کم عوام کے تو نہیں بدلنے والے! باقی آپ خود سمجھدار ہیں!

متعلقہ مضامین

  • سب سے مل آؤ مگر…
  • توشہ خانہ ٹو، سماعت بغیر کارروائی ملتوی ، کیس روزانہ سنیں گے: عدالت
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • خیبر پختونخوا کابینہ میں مزید تبدیلیاں کردی گئیں
  • کوئٹہ کا منفرد جمعہ بازار، کم داموں پر امپورٹڈ کپڑے عوام کے لیے نعمت
  • خیبر پختونخوا کابینہ میں مزید تبدیلیاں
  • خیبرپختونخوا کابینہ میں مزید تبدیلیاں
  • اگر آپ روزانہ کدو کھائیں تو بلڈ شوگر پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے؟
  • برطانیہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی “بائے ون گیٹ ون فری” ڈیلز پر پابندی عائد، وجہ کیا ہے؟