بھارت کی پراکسیز اور پاکستان کا عزم
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
شمالی وزیرستان میں فتنتہ الخوارج کے دہشت گردوں نے پاک فورسز کے قافلے پر بزدلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں 13 جوان شہید ہوگئے جب کہ شدید فائرنگ کے تبادلے میں 14فتنتہ الخوارج کو جہنم واصل کردیا گیا۔ میر علی میں خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سیکیورٹی فورسز کے قافلے سے ٹکرانے کی کوشش کی، تاہم قافلے کے آگے موجود دستے نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حملے کو ناکام بنایا۔
آپریشن بنیان مرصوص میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے لگی ہیں۔ مودی حکومت بھارتی عوام کی اپنی شکست سے توجہ ہٹانے کے لیے پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔ بھارت، جو میدانِ جنگ میں پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے، اب بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر حملوں کے ذریعے اپنی شکست کا بدلہ لے رہا ہے۔
یہ بات کئی بار ثبوتوں کے ذریعے واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت ہی ہے۔ بھارت تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے کالعدم دہشت گروہوں کی مالی و لاجسٹک معاونت کر رہا ہے۔ افغانستان کے علاقے ان کارروائیوں کا مرکز ہے۔
فتنتہ الہندوستان کے ساتھ ’’ فتنتہالخوارج‘‘ کا اتحاد ایک اور خطرناک پہلو ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد عناصر صرف سرحد پار سے نہیں بلکہ مقامی سطح پر بھی متحرک اور منظم ہیں۔ بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے یہ نیٹ ورکس سوشل میڈیا پر ڈس انفولیب جیسے منصوبوں کے ذریعے فکری انتشار پھیلاتے ہیں اور مذہبی و نسلی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی کی نئی لہر اور اس کے پیچھے مبینہ بھارتی سرپرستی نے ایک بار پھر خطے کی سلامتی، داخلی استحکام اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک کی جانب سے بارہا بین الاقوامی سطح پر بھارت کی مداخلت اور تخریبی کردار کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے، جو اس بھارتی رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، خصوصاً گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاری بھارتی خفیہ دہشت گردی کی مہم عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان کا ہمیشہ سے دوٹوک مؤقف رہا ہے کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتا ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور حالیہ دہشت گردی کی لہر، جس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اس کے علاقائی سہولت کاروں کا ہاتھ ہے، کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ ’’فتنتہ الہندوستان‘‘ صرف ایک گروہ نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جس کا مقابلہ صرف گولی سے نہیں، سچ، حکمت، اور قومی یکجہتی سے کیا جا سکتا ہے۔ دشمن کے ہر وار کا جواب صرف بندوق سے نہیں بلکہ ترقی، تعلیم، اور امن کے بیانیے سے دینا ہو گا۔
2009میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی دو طرفہ بات چیت کے دوران پاکستان نے پہلی بار باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا، 2010میں وکی لیکس کے انکشافات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں، خاص طور پر بلوچستان میں بدامنی سے متعلق کارروائیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔2015میں پاکستان نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں پر مشتمل ایک جامع ڈوزیئر اقوامِ متحدہ کو پیش کیا، جس میں بھارتی انٹیلی جنس اداروں کے کردار کو بے نقاب کیا گیا۔
2016میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے ان شواہد کو عملی شکل دے دی، کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری، خاص طور پر بلوچستان میں کارروائیوں کا اعتراف کیا۔ پاکستان نے 2019 اور پھر 2023 میں اقوام متحدہ کو مزید ڈوزیئرز فراہم کیے ۔ یہی وہ فضا ہے جس میں پاکستان کے ترقیاتی منصوبے، خصوصاً سی پیک، کو سبوتاژ کرنے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہر حملہ ایک ہی مقصد کے تحت کیا گیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنا، عوام میں خوف پھیلانا اور عالمی سطح پر غیر یقینی فضا قائم کرنا۔ بی ایل اے محض ایک گروہ نہیں بلکہ دہلی کا تیار کردہ ہتھیار ہے جو پاکستانی سرزمین پر بھارت کی ناپاک جنگ لڑ رہا ہے۔
بی ایل اے کو تربیت، فنڈنگ، اسلحہ اور اہداف سب کچھ دہلی سے فراہم کیا جاتا ہے۔بھارتی میڈیا بھی اس پراکسی بیانیے کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارتی میڈیا ان دہشت گردوں کو پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے بیانیے کو ’’علیحدگی پسندی‘‘ کے رنگ میں چھپا کر پیش کرتا ہے ۔ یہ وہی بھارت ہے جو انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں لیکچر دیتا ہے، مگر خود بچوں پر حملے کرواتا ہے اور قاتلوں کو مائیک تھما دیتا ہے۔
بھارت کی خفیہ کارروائیوں اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں سرحدوں سے باہر ملوث ہونے کے الزامات اب عالمی سطح پر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ جو ملک کبھی صرف داخلی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے والا ایک علاقائی طاقت سمجھا جاتا تھا، اب اس پر ریاستی سرپرستی میں غیر ملکی سرزمین پر ایسی کارروائیاں کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بیانیہ اب صرف پاکستان جیسے روایتی مخالف ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ کینیڈا اور امریکا جیسے ممالک بھی بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
بھارت کے خلاف سب سے پرانے اور مسلسل الزامات پاکستان کی طرف سے آتے رہے ہیں، جس نے کئی بار بھارتی مداخلت اور دہشت گرد سرگرمیوں کے شواہد پیش کیے ہیں۔ ان الزامات کو عالمی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب 18 ستمبر 2023 کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں بیان دیا کہ بھارتی ایجنٹوں کا ہاتھ کینیڈین شہری اور خالصتان حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں ملوث ہے۔
نجار کو 18 جون 2023 کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا۔ کینیڈا نے ایک سینئر بھارتی سفارتکار کو ملک بدر کیا جس پر بھارت نے جوابی اقدام کے تحت کینیڈین سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مغربی جمہوریت نے بھارت پر براہ راست غیر ملکی سرزمین پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام عائد کیا،ایسا رویہ جو عموماً آمریت پسند ریاستوں سے منسوب ہوتا ہے۔ ان الزامات کو مزید تقویت اس وقت ملی جب 29 نومبر 2023 کو امریکی محکمہ انصاف نے ایک بھارتی شہری کے خلاف فرد جرم جاری کی، جس میں اسے خالصتانی امریکی شہری کے قتل کی سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔
فردِ جرم میں خفیہ رابطے، مالی لین دین اور نگرانی کے شواہد شامل تھے، جنھوں نے بھارتی ریاستی کردار کو واضح کیا۔ یہ پیش رفت نہ صرف بھارت کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے اتحادیوں کے اندر بھی تشویش کا باعث بنی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کر چکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا ہے۔ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، اگر کوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 83,000 سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے۔ پاکستان امن، ترقی اور خودمختاری کے راستے پر چل رہا ہے، اور ہر بار جب ملک آگے بڑھتا ہے، دشمن اپنے بزدلانہ ہتھکنڈے دہراتا ہے، لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ شہدا کا حساب لیا جائے۔
دشمن کے ہر ایجنٹ، ہر سہولت کار، اور ہر سازشی کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان نے میں بھارتی ان الزامات نہیں بلکہ پر بھارت بھارت کی کے ذریعے رہے ہیں کے خلاف رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے: سیکیورٹی ذرائع
—فائل فوٹوسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ معرکۂ حق کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی اخراجات بڑھا دیے ہیں، بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، اب آپریشن سندور جیسا کام کرنے کی کوشش کی تو سارے شکوے دور کر دیں گے، ہم جانتے ہیں کہ بھارت کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے، پہلے سے زیادہ بہتر علاج کیا جائے گا۔
سیکیورٹی ذرائع نےکہا ہے کہ بھارت کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں، مسلح افواج اپنے ملک کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پاکستان خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کریڈیبل نہیں، اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے، بھارت کونسا اسلحہ خرید رہا ہے اس کے بارے میں پاکستان کو اطلاع ہے، ہمیں کوئی فکر، کوئی تشویش نہیں، ہم ہر وقت جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’سرکریک سے ایک راستہ کراچی بھی جاتا ہے، کراچی پر حملہ کرسکتے ہیں‘۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ فوج کا کسی سیاسی جماعت سے رابطہ تھا، نہ ہے، فوج کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہتی، مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں اور وہیں ہونے چاہئیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 9 مئی کے کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، کسی بھی دہشت گرد کے ساتھ اسٹیٹ مذاکرات نہیں کرے گی، دہشت گروں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغان حکومت کو متعدد بار دہشت گردوں کی نشان دہی کر چکے ہیں، فلسطین اور کشمیر پر پاکستان کا مؤقف بڑا واضح اور اٹل ہے، اسرائیل سے متعلق پاکستان کا مؤقف تبدیل نہیں ہو سکتا، غزہ میں ظلم و بربریت اور نسل کشی فوری طور پر روکی جائے۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے، کورٹ مارشل کے دوران تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے، لمبا پراسیس ہوتا ہے، کیس میں ڈیفنڈنٹ کو تمام لیگل رائٹس دیے جاتے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کی صورتِ حال کے حل کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو جاتا ہے، آزاد کشمیر کا معاملہ یہاں تک نہیں پہنچنا چاہیے تھا، کشمیری بھائی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے بھارتی آرمی وفضائیہ چیفس کےپاکستان مخالف اشتعال انگیز بیاناتسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ معاہدہ معاشی بھی ہے اور اسٹریٹیجک بھی۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ پسنی پورٹ اور دیگر منصوبوں کے لیے پروپوزل آئے ہیں، پاکستان نے اپنا فائدہ دیکھنا ہے، موجودہ صدی معدنیات کی صدی ہے، عالمی کمپنیاں پاکستان میں دھات اور منرلز کی دریافت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بلوچستان میں اسمگلنگ پر قابو پایا گیا، لیگل طریقے سے ڈیزل امپورٹ ہو کر آ رہا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز نیشنل ایکشن پلان کے تحت فرائض سر انجام دے رہی ہیں، اس سال 15 ستمبر تک 1422 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے، سیکیورٹی فورسز 57 ہزار سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر چکی ہیں، ان آپریشنز میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے 118 دہشت گرد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔