Jasarat News:
2025-10-04@20:13:53 GMT

کارکنوں کی اجرتوں کی چوری! لمحہ فکریہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دوسری قسط

ایک حدیث مبارکہ میں اصول مقرر کیا گیا ہے کہ بہترین آجر وہ ہیں جو اپنے کارکنوں کی اجرتیں بلاجواز نہیں روکتے اور یا ان کی اجرتوں کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرتے۔ قرآن و سنہ کی تعلیمات کے مطابق کارکنوں کی اجرتوں کے تعین اور مقدار کے لیے چھ زریں اصول مقرر کیے گئے ہیں۔ جن میں کارکنوں کو کام کی اجرت طے کیے بغیر بھرتی کرنے اور ان سے کام لینے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، کارکنوں کے لیے معقول اجرت کی ادائیگی کو اس لحاظ سے یقینی بنانا جو ان کی بنیادی ضروریات زندگی خوراک، رہائش،لباس،علاج و معالجہ اور بچوں کی تعلیم پوری کرنے کے لیے کافی ہو،اجرتیں موجودہ حالات جیسے افراط زر، شدید مہنگائی، اشیائے صرف کی بلند قیمتوں اور اس کے کنبہ کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کی جانی چاہیے، طے شدہ اجرت کی بروقت اور مکمل ادائیگی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ کسی امیر شخص کا دولت پاس ہوتے ہوئے بھی کارکن کی اجرت کی ادائیگی میں جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کرنا اور ٹال مٹول سے کام لینا سخت ظلم کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اجرت کی یکمشت ادائیگی اور مساوی کام کے لیے مساوی اجرت کی ادائیگی کا حکم شامل ہے۔ لیکن اجرتوں کے متعلق ان زریں اسلامی اصولوں کے باوجود آج بھی ملک کے کروڑوں محنت کشوں کا سب سے دیرینہ مسئلہ سخت محنت و مشقت کے باوجود منصفانہ اجرتوںسے محرومی ہے جو اکثر آجران کی جانب سے کارکنوں کی اجرت کی چوری کے مترادف ہے۔
ماہرین کے مطابق کارکنوں کی اجرت کی چوری سے مراد وہ عمل ہے کہ جب کوئی آجر (مالک یا کمپنی) اپنے کارکنوں کو وہ مکمل اجرت یا مراعات ادا نہیں کرتا،جن کے وہ قانونی طور پر حق دار ہوتے ہیں۔ یہ ایک استحصالی عمل ہے جس میں کارکنوں کی محنت کی مکمل ادائیگی سے انکار کیا جاتا ہے۔
اجرت کی چوری کی اقسام اور مثالوں میں کارکنوں کو مقررہ کم از کم اجرت ادا نہ کرنا،کارکنوں کو قانون میں مقرر کردہ کم از کم اجرت سے کم ادائیگی کرنا،اضافی کام کے معاوضہ (Over Time) کی ادائیگی نہ کرنا،ملازمین کو ہفتے میں مقررہ کام گھنٹوں سے زیادہ کام لینے پر اضافی ادائیگی (یعنی ڈیڑھ گنا اجرت) نہ کرنا،کام کے تمام گھنٹوں کی ادائیگی نہ کرنا،کارکنوں کو فارغ وقت کے دوران کام کرنے پر مجبور کرنا،کارکنوں کی اجرتوں سیغیر قانونی طور پر رقم کی کٹوتیاں کرنا،کارکنوں کی غلط طور سے درجہ بندی کرنا،جیسے مستقل کارکنوں کو غلط طریقے سے آزاد ٹھیکیدار کے ملازم ظاہر کرنا تاکہ قانونی مراعات یا ٹیکس سے بچا جا سکے۔ کارکنوں کو قانونی طور پر طے شدہ آرام اور کھانے کے وقفے نہ دینا یا وقفہ میں بغیر اجرت کے کام لینا۔
اگرچہ اجرت کی چوری ہر سطح کے کارکنان کو متاثر کر سکتی ہے، مگر اس عمل سے سب سے زیادہ متاثر ناخواندہ ، مجبور اورتارکین وطن،کم اجرت پر کام کرنے والے، زراعت وتعمیرات، اور گھریلو کام انجام دینے والے کارکن ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آجران کی جانب سے کارکنوں کی اجرتوں کی چوری کا مسئلہ اتنا اہم کیوں ہے؟ چونکہ آجران کے اس غیر قانونی طرزعمل کے نتیجہ میں کارکنوں کو مکمل اجرت نہ ملنے سے انہیں اپنے بنیادی گھریلو اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اجرت کی چوری سے متاثرہ کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے لیے مناسب غذا ئی اشیاء صرف خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔گھر کا کرایہ یا قسطیں ادا نہ ہونے سے انہیں گھر سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔انہیں اپنے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لینا پڑ سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس مالی دباؤ سے کارکنوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث کے مطابق آجر کی جانب سے کسی کارکن کی اُجرت کو روکنا اور اس کی اجرت چوری کرنا اس کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس آدمی کا رزق روک لے جس کا وہ مالک ہے۔ لہٰذا ان شرعی احکامات کی روشنی میں آجران کو اپنے کارکنوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے اور انہیں غربت اور غلامی کی اجرتیں(Poverty and Slavery Wages) ادا کرنے کے بجائے معاشرہ میں ایک باعزت گزر بسر والی منصفانہ اجرتوںکی ادائیگی کرنی چاہیے۔
اگرچہ ادائیگی اجرت قانون میں کارکنوں کی اجرتوں کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کے ایک موثر نظام کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن اس قانون پر اس کی روح کے عین مطابق عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ اس قانون کی رو سے آجران کی جانب سے کارکنوں کی واجب الادا اجرتوں کی شرح کو کام کی جگہوں کے نمایاں مقامات یا کارخانوں کی عمارتوں میں نصب نوٹس بورڈز پر نمایاں جگہ آویزاں کیا جائے گا، ہر صنعتی،کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں کارکنوں کو اجرت کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ ایک ’’ادائیگی دن‘‘ (Pay Day) مقرر کیا جانا ضروری ہے اور اس مقررہ دن بلا کسی تاخیر کے کارکنوں میں اجرتوں کی تقسیم کی جانی چاہئیں، تمام اجرتیں، اجرتوں کی واجب مدت کے آخری دن کے بعد سے ساتویں دن کے اختتام سے قبل ادا کی جائیں گی۔ آجران پر یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ کارکنوں کو ان کی اجرت کی بلا کسی امتیاز ادائیگی کریں، کارکنوں کی اجرت خدمات کے لحاظ سے فی گھنٹہ، یومیہ، ہفتہ واری، پندرواڑھے یا ماہانہ بنیاد پر ادا کی جا سکتی ہیں لیکن کسی کارکن کی اجرت کی ادائیگی کی مدت ایک ماہ سے کسی طور تجاوز نہیں ہوگی، ہر آجر کارکنوں کو مقررہ وقت پر مکمل اجرت کی ادائیگی کا پابند ہوگا البتہ اسے قواعد کے تحت مطابق طے شدہ کٹوتیوں کی اجازت ہوگی، ہر آجر کارکنوں کو اجرت کی ادائیگی اور کٹوتیوں کی تفصیلات پر مشتمل ایک گوشوارہ فراہم کرنے کا پابند ہو گا جس کی زبان اور ترتیب کارکن کے لیے قابل فہم ہو اور کارکنوں کو اجرت نقد کی صورت میں ادا کرنے کے بجائے کارکنوں کے انفرادی بینک اکاؤنٹ کے ذریعہ ادا کی جائیں گی ۔
ملک میں 2010 میں ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق سے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم قدیم وزارت، وزارت محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی کا خاتمہ کرکے 2013 میں اس کی جگہ ایک نئی وزارت، وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل تشکیل دی گئی تھی۔جس کے موجودہ وزیر چوہدری سالک حسین ہیں۔اس وزارت کے تحت ملک بھر کے محنت کشوں اور ان کے گھرانوں کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد قومی فلاحی ادارے ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI)، ورکرز ویلفیئر فنڈ، قومی صنعتی تعلقات کمیشن اور ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن جبکہ بیرون ملک برسر روزگار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے بیورو آف امیگریشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ، اوور سیز پاکستانی فاؤنڈیشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن خدمات انجام دے رہے ہیں۔جبکہ ملک کیچاروں صوبوں میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے صوبائی سطح پر وزرائے محنت و انسانی وسائل کی سربراہی میں محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل اور ان کے ماتحت محکمے بھی قائم ہیں۔ جن میں سیکرٹری محنت و انسانی وسائل، ڈائریکٹر جنرل محنت، ڈائریکٹر محنت، ڈپٹی ڈائریکٹر محنت، لاء افسران اور انسپکٹرز تعینات ہیں۔ جبکہ چاروں صوبوں میں کم از کم اجرت کے تعین کے لیے سہ فریقی کم از کم اجرت بورڈ بھی قائم ہیں۔
جبکہ حکومت پاکستان نے رکن ملک کی حیثیت سے عالمی ادارہ محنت کے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ، باوقار روزگار کے فروغ اور ان کے حالات کار بہتر بنانے کے متعلق 36 عہد ناموں (Conventions) اور ایک ضابطہ اخلاق کی توثیق بھی کی ہوئی ہے۔ جس کے تحت وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان اور چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل کو ملک کے آٹھ کروڑ سے زائد محنت کشوں پر مشتمل عظیم افرادی قوت کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا نگہبان اور محافظ مقرر کیا گیا ہے۔
لیکن ’’مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار ،انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات‘‘ کے مصداق ان واضح دینی احکامات، متعدد وزارتوں، درجنوں محکموں اور افسران اور عملہ کی فوج ظفر موج اور 50سے زائد مزدور قوانین کے باوجود ملک کے بیشتر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر شعبوں میں ملک کی اقتصادی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھنے والے کروڑوں جفاکش کارکنوں کی جائز اجرتوں کی ادائیگی میں تاخیری حربوں اور ٹال مٹول کے ذریعہ ان کی جائز اجرت کی چوری(Wage Theft) کا ایک عام رحجان پایا جاتا ہے۔ جبکہ ادائیگی اجرت قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ملوث آجران کو دس ہزار روپے تک جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ادائیگی اجرت قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے ہزاروں بااثر آجران آج تک ہر قسم کے جرمانوں اور سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں ۔
لہٰذا ملک کے کروڑوں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی ادارہ محنت کے عہد ناموں کی توثیق کرنے والی ریاست پاکستان اور محنت کشوں کی فلاح و بہبودکے نام پر قائم ہونے والی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اور چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل کے ارباب و اختیارکی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کارکنوں کی اجرتوں کی چوری(Wage Theft) کے غیر قانونی طرز عمل کا فوری طور پر خاتمہ کریں اور اس غیر قانونی عمل میں ملوث طاقت ور آجران اور مالکان کو سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے ان پر قانون کے مطابق بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور سزائیں بھی دی جائیں تاکہ ملک میں کروڑوں محنت کشوں کی جائز اجرتوں کی چوری کے سنگین جرائم کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کارکنوں کی اجرتوں کی سمندر پار پاکستانی اجرت کی ادائیگی کارکنوں کی اجرت اجرتوں کی چوری میں کارکنوں کو سے کارکنوں کی کرنا کارکنوں حقوق کے تحفظ اجرت کی چوری کی اجرت کی دیا گیا ہے کی جانب سے کی فلاح اور ان کے کے مطابق جاتا ہے کرنے کے ملک کے کے لیے اور اس

پڑھیں:

برطانیہ سے چوری ہونے والی رینج روور کراچی میں برآمد، یہ سب کیسے ہوا؟

برطانیہ سے چوری کی گئی مہنگی گاڑی رینج روور کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ گاڑی کی برآمدگی کے لیے انٹرپول نے سندھ پولیس کو خط لکھ دیا ہے۔

ایس ایس پی اے وی ایل سی امجد شیخ کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ گاڑی 22 نومبر 2022 کو انگلینڈ سے چوری ہوئی تھی۔ خط کے مطابق گاڑی کا ٹریکر کراچی میں لوکیشن دکھا رہا ہے۔ انٹرپول کا خط گزشتہ روز موصول ہوا ہے، اور مزید تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔ قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے اور جلد ہی گاڑی بھی برآمد کرلی جائے گی۔

گاڑی کی برآمدگی کے لیے برطانوی حکام نے انٹرپول کے ذریعے سندھ پولیس سے رابطہ کیا ہے۔ گاڑی کی برآمدگی میں مدد کے لیے برطانوی پولیس کی درخواست پر انٹرپول مانچسٹر نے سندھ پولیس کو خط لکھا، جو کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر کراچی ساؤتھ اور ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کو بھیجا گیا۔

مزید پڑھیں: اربوں روپے کی منشیات اسمگلنگ میں ملوث بھارتی تاجر کیخلاف انٹرپول حرکت میں آگئی

خط میں لکھا گیا ہے کہ سیاہ رنگ کی رینج روور 22 نومبر 2022 کو ہیروگیٹ سے چوری ہوئی تھی۔ گاڑی میں ٹریکر نصب تھا اور وہ لیڈز تک ٹریس ہوئی، جہاں سے چوری ہوئی۔

خط میں درخواست کی گئی ہے کہ گاڑی کی برآمدگی کے لیے یو کے پولیس کی مدد کی جائے۔ گاڑی کی مکمل تفصیلات انٹرپول ایس ایم وی ڈیٹا بیس پر بھی موجود ہیں۔ 11 فروری 2025 کو گاڑی کی لوکیشن صدر ٹاؤن، اعظم بستی، کورنگی سروس روڈ میں آئی تھی۔

پولیس کے مطابق گاڑی کی تلاش جاری ہے۔ تلاش سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ابھی صرف لوکیشن بتائی گئی ہے، وہاں تلاش جاری ہے لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اگر گاڑی اور اسے لانے والے مل جاتے ہیں تو تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انٹرپول برطانیہ رینج روور کراچی

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ: تین سال سے قید ملزمان کو صرف جرمانے کی ادائیگی کے بعد رہا کرنے کا حکم
  • نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکریٹری قاسم جمال کورنگی انڈسٹریل ایریا میں انڈس فارما یونین کے محنت کشوں کو غزہ ملین مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں
  • کراچی ایئر پورٹ پر کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کے گھپلے، کروڑوں کا سامان ضبط
  • لندن سے چوری شدہ گاڑی کی کراچی میں موجودگی، انٹرپول سے ٹریکرز ایکٹیویٹی لاگ طلب
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • ربیع الاول میں عمرے کی ادائیگی کا اوسط دورانیہ 115 منٹ رہا، رپورٹ
  • برطانیہ سے چوری ہونے والی رینج روور کراچی میں برآمد، یہ سب کیسے ہوا؟
  • لمحوں میں لاکھوں کا سونا چوری، کیمرہ دیکھتا ہی رہ گیا
  • کراچی میں چوری کی واردات، معروف کامیڈین کی گاڑی گھر کے باہر سے چوری
  • لاہور،محنت کش فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھ کر کسی مسیحا کے منتظر ہیں