ٹرمپ نے نیویارک کے پہلے مسلمان میئر زہران ممدانی کی فنڈنگ روکنے کی دھمکی دے دی
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
ٹرمپ نے نیویارک کے پہلے مسلمان میئر زہران ممدانی کی فنڈنگ روکنے کی دھمکی دے دی WhatsAppFacebookTwitter 0 30 June, 2025 سب نیوز
واشنگٹن :امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر نیویارک سٹی کے میئر کے ممکنہ امیدوار زہران ممدانی نے ان کے بقول ’درست اقدامات‘ نہ کیے، تو وہ وفاقی حکومت کی جانب سے شہر کو ملنے والی فنڈنگ روک دیں گے۔
ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ “اگر وہ (زہران ممدانی) میئر منتخب ہوتے ہیں، تو میں بطور صدر اُن سے جواب طلبی کروں گا۔ اگر انہوں نے صحیح فیصلے نہ کیے، تو نیویارک کو ایک پائی بھی نہیں ملے گی۔”
ٹرمپ نے نہ صرف ممدانی کو ہدفِ تنقید بنایا بلکہ انہیں کمیونسٹ قرار دیتے ہوئے کہا، “یہ نیویارک کے لیے تباہ کن ہوگا، میرے خیال میں ایسا کبھی نہ ہوتا، مگر اب ہمارے سامنے ایک کمیونسٹ آ رہا ہے۔”
زہران ممدانی نیویارک میں فلسطینی عوام کے کھلے حامی اور اسرائیلی پالیسیوں کے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے “اسٹوڈنٹس فار جسٹس ان فلسطین” تنظیم کے کالج چیپٹر کی بنیاد رکھی اور 2023 میں جنگ بندی کے حق میں وائٹ ہاؤس کے سامنے بھوک ہڑتال بھی کی۔
زہران نے حالیہ پرائمری انتخابات میں سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دی، اور اب وہ نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئر بننے کے قریب ہیں۔ ان کی جیت کو امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے لیے تاریخی موڑ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ ماضی میں بھی مختلف ریاستوں، یونیورسٹیوں اور حکام کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں کہ اگر وہ ان کی پالیسیز سے انحراف کریں تو اُن کی فنڈنگ بند کر دی جائے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومت کا عافیہ صدیقی کیس میں امریکی عدالت میں معاونت اور فریق بننے سے انکار زہران ممدانی جیسے رہنما امریکی معاشرے میں اتحاد کی علامت ہیں:محمد عارف ٹرمپ کا دباؤ کام کرگیا، نیتن یاہو کیخلاف کرپشن ٹرائل مؤخر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے دوست پاکستان کےساتھ کھڑے ہیں،، ترک صدر ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی ایران چند ماہ میں یورینیئم افزودہ کرنے کا آغاز کرسکتا ہے، سربراہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی اسرائیلی فوج کی غزہ میں بڑے فوجی آپریشن کی تیاری، شمالی علاقوں میں انخلا کے احکامات جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ٹرمپ کی بڑی فتح، سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے والے ججوں کے اختیارات محدودکردیئے
سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے والے ججوں کے اختیارات پر قدغن لگادی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑی فتح دلاتے ہوئے سنگل بینچ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے کے اختیار کو محدود کر دیا۔
پیدائشی شہریت کے خاتمے کی ٹرمپ کی کوشش سے متعلق 6-3 کے فیصلے میں، عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناعی ’ ممکنہ طور پر اس آئینی اختیار سے تجاوز کرتے ہیں جو کانگریس نے وفاقی عدالتوں کو دیا ہے۔
اعلیٰ عدالت نے امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خودکار شہریت ختم کرنے کے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی آئینی حیثیت پر فوری فیصلہ نہیں دیا۔
لیکن عدالتی فیصلوں کے دائرہ کار پر یہ وسیع فیصلہ ٹرمپ کے اکثر انتہائی متنازع احکامات کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کو دور کرے گا اور وائٹ ہاؤس کے اختیارات کی توثیق کرے گا۔
جسٹس ایمی کونی بیرٹ، جنہوں نے یہ رائے تحریر کی ہے ، نے کہا کہ ’ وفاقی عدالتیں ایگزیکٹو برانچ کی عمومی نگرانی نہیں کرتیں، وہ کانگریس کی طرف سے دیے گئے اختیار کے مطابق مقدمات اور تنازعات کو حل کرتی ہیں۔’
جسٹس ایمی کونی بیرٹ بیرٹ نے ایک رائے میں کہا،’ جب کوئی عدالت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ایگزیکٹو برانچ نے غیر قانونی طور پر کام کیا ہے، تو اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ عدالت بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے۔’ اس رائے کی عدالت کے دیگر پانچ قدامت پسند ججوں نے بھی توثیق کی، جبکہ تین لبرل ججوں نے اختلاف کیا۔
اس فیصلے کے عدلیہ کی ٹرمپ یا مستقبل کے امریکی صدور کو لگام ڈالنے کی صلاحیت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ مقدمہ بظاہر ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر کے بارے میں تھا جس پر انہوں نے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی دن دستخط کیے تھے۔
لیکن اس کی اصل توجہ اس بات پر تھی کہ کیا ایک واحد وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی صدارتی حکم نامے پر عالمگیر حکم امتناعی کے ذریعے ملک گیر پابندی لگائے جبکہ یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث ہو۔
ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے حکم کو میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن ریاست کی عدالتوں نے غیر آئینی قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے صدر نے سپریم کورٹ میں ہنگامی اپیل کی تاکہ اعلیٰ عدالت ملک گیر حکم امتناعی کے استعمال کو ختم کرے۔
یہ مسئلہ ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادیوں کے لیے ایک اہم نعرہ بن گیا ہے، جو عدلیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ووٹروں کی مرضی کے خلاف ان کے ایجنڈے کو روک رہی ہے۔
ٹرمپ کا پیدائشی شہریت کا ایگزیکٹو آرڈر ان کے متعدد ایجنڈوں میں سے صرف ایک ہے جسے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ملک بھر کے ججوں، جمہوری اور ریپبلکن دونوں کے مقرر کردہ ، نے روک دیا ہے۔
مئی میں سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی زبانی بحث کے دوران، قدامت پسند اور لبرل دونوں ججوں نے حالیہ برسوں میں ڈسٹرکٹ عدالتوں کی طرف سے ملک گیر حکم امتناعی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس سیموئیل ایلیٹو، جو ایک کٹر قدامت پسند ہیں، نے کہا کہ ملک گیر حکم امتناعی ایک ’ عملی مسئلہ’ پیدا کرتے ہیں کیونکہ سیکڑوں ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو ’ یقین’ ہے کہ وہ بہترین جانتے ہیں۔
سولیسٹر جنرل جان سائر نے ملک گیر حکم امتناعی کا موازنہ ’ ایٹمی ہتھیار’ سے کیا، انہوں نے کہا کہ وہ ’ آئین کی طاقتوں کی علیحدگی کے محتاط توازن کو درہم برہم کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم امتناعی کے اطلاق کو صرف ان فریقوں تک محدود کرے جنہوں نے مقدمہ دائر کیا اور اس ضلع تک جہاں جج تعینات ہے۔
گذشتہ صدور نے بھی قومی حکم امتناعی کے اپنے ایجنڈے کو روکنے کی شکایت کی ہے، لیکن ٹرمپ کے دور میں ایسے احکامات میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔
ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر یا عارضی ویزوں پر مقیم والدین کے بچے خود بخود شہری نہیں بنیں گے۔
تین ذیلی عدالتوں نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو 14ویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ’تمام افراد جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں یا قدرتی طور پر شہری بنے ہیں اور اس کے دائرہ اختیار میں ہیں، ریاستہائے متحدہ کے شہری ہیں۔