وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ مستحکم اقتصادی کارکردگی، دانشمندانہ مالیاتی انتظام اور بیرونی شعبے کی بہتر کارکردگی کی بدولت پاکستان کی معیشت نے مالی سال دوہزارچوبیس۔پچیس میں ترقی کی رفتار برقراررکھی۔اپنی ماہانہ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ میں وزارت خزانہ نے کہاکہ حقیقی جی ڈی پی میں 2.68 فیصد اضافہ ہوا جبکہ افراط زر میں مسلسل کمی آئی۔ کرنٹ اکائونٹ میں 1.

81 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا گیا، مالیاتی خسارہ کم ہوا اور پرائمری سرپلس ختم ہونے والے مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں جی ڈی پی کے 3.2فیصد تک پہنچ گیا۔اس کے ساتھ ساتھ کریڈٹ ریٹنگ اورپالیسی ساکھ میں بہتری اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔وزارت خزانہ نے ٹیکس ہم آہنگی، توانائی کی قیمتوں کا تعین اور نجکاری پرمبنی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کیلئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا ۔ اس کے علاوہ جامع اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عمل میں پیشرفت کاعزم بھی ظاہر کیا تاکہ جامع اورپائیدارترقی کی بنیاد رکھی جاسکے۔

اشتہار

ذریعہ: Al Qamar Online

پڑھیں:

پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے

حکومت نے کچھ اختیاری تبدیلیوں کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو اپنی پنشن کے لیے تنخواہ کا 10 فیصد حصہ جمع کرانا ہوگا، تاکہ وہ عوامی خزانے کی جانب سے 12 فیصد وصول کرنے کے لیے اہل بن سکیں، یہ عمل نئے متعارف کرائے گئے ’کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم‘ کے تحت ہوگا، یوں کل مشترکہ حصہ 22 فیصد ہوگا، جو نئے شامل ہونے والے ملازمین کے لیے پرانے پنشن نظام کی جگہ لے گا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ (ایم او ایف) نے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (ایف جی ڈی سی) پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔

یہ اسکیم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز اینڈ نوٹیفائیڈ اینٹیٹیز ریگولیشنز 2008 کے مطابق ریگولیٹ کی جائے گی، یہ قواعد اگست 2024 کے اُس حکم نامے کی جگہ لیں گے جس میں حکومت کا حصہ 20 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

20 اگست 2024 کو وزارتِ خزانہ نے پہلی بار سول حکومت اور مسلح افواج کے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔

اُس وقت ملازمین کو اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد جمع کرانا تھا، جب کہ حکومت 20 فیصد حصہ ڈالنے کی پابند تھی، نئی اسکیم کا اطلاق اُن سول ملازمین پر ہوگا جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہوں گے، جن میں سول ڈیفنس کے ملازمین بھی شامل ہیں، جب کہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر یہ یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا (جس کا نفاذ ابھی زیرِ التوا ہے)۔
حکومت نے 25-2024 کے بجٹ میں اس پنشن فنڈ کے لیے 10 ارب روپے اور 26-2025 کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس نئے نظام کو سہارا دیا جا سکے۔

یہ اسکیم بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر ورلڈ بینک کی سفارش پر متعارف کرائی گئی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے، جسے حکومت نے ایک سنگین مالی خطرہ قرار دیا ہے، یہ نظام موجودہ ملازمین پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں پنشن کے اخراجات کی رفتار کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کا پنشن خرچ 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے، جو 24-2023 کے 821 ارب روپے سے تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔

مسلح افواج کے پنشن واجبات 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کا اندازہ ہے، جو 24-2023 کے 563 ارب روپے میں 32 فیصد اضافہ ہے، سول ملازمین کے پنشن اخراجات موجودہ مالی سال کے لیے 243 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے سے 6.6 فیصد زیادہ ہیں، اس سے اصلاحات کے باعث کچھ بچت ظاہر ہوتی ہے۔

نئے قواعد کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس فنڈ کو چلائیں گے، حکومت، بطور آجر ملازم کی پنشن کے قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے جمع کرائے گی، جو ریکارڈ رکھنے اور فنڈز کی منتقلی کی نگرانی بھی کرے گا۔

اکاؤنٹنٹ جنرل پنشن اکاؤنٹس کی تفصیلات کی تصدیق کرے گا، اور تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ملازم اور آجر دونوں کے حصے ’ایمپلائر پنشن فنڈ‘ میں منتقل کرے گا، ملازمین اپنی تنخواہ سے 10 فیصد حصہ خود جمع کرائیں گے۔

ملازمین ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی پنشن رقم نہیں نکال سکیں گے، ریٹائرمنٹ پر وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکال سکتے ہیں، جب کہ باقی رقم کو والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے تحت کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھا جائے گا، جو بھی پہلے آئے۔

ملازمین کی سیلری سلپ میں تفصیلی معلومات شامل ہوں گی، جن میں ملازم کا حصہ، آجر کا حصہ، اور کل جمع شدہ رقم کی تفصیل درج ہوگی۔
وزارتِ خزانہ حکومت کے حصے کے لیے سالانہ بجٹ الاٹ کرے گی اور ایسے پنشن فنڈ منیجرز سے معاہدے کرے گی جو الیکٹرانک ٹرانسفر سسٹم کو سپورٹ کرتے ہوں، ان معاہدوں میں وفات یا معذوری کی صورت میں انشورنس کوریج بھی لازمی ہوگی، جو فنڈ منیجرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔

نظام کے نفاذ اور نگرانی کے لیے وزارتِ خزانہ ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی (این بی ایف سی) قائم کرے گی، جو باضابطہ قیام تک عبوری طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے گی۔

ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفے یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں ملازم کی پنشن کی رقم کا تعین حکومت کے جاری کردہ قواعد کے مطابق کیا جائے گا۔

یہ نئی پنشن فنڈ اسکیم روایتی مقررہ فائدے (ڈیفائنڈ بینیفٹ) نظام سے ایک بڑے مقررہ شراکتی (ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن) ماڈل کی طرف ایک اہم تبدیلی ہے، جس کا مقصد مالیاتی پائیداری کو بہتر بنانا اور مستقبل کے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تحفظ فراہم کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے
  • اسلام آباد:وزیراعظم شہبازشریف ملکی معیشت کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • پاکستان کو خطے میں سرمایہ کاری کا پرکشش مرکز بنایا جائے گا، شہباز شریف
  • پاکستان کو خطے کا پرکشش سرمایہ کاری مرکز بنایا جائے گا، وزیراعظم
  • پاکستان کو خطے کا پرکشش سرمایہ کاری مرکز بنایا جائے گا، وزیراعظم شہباز شریف
  • ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک،جمیل احمد
  • روز ویلٹ ہوٹل کیلئے مالی معاونت کی سمری مؤخر کردی گئی
  • اگلے مالی سال کا بجٹ ایف بی آر نہیں بنائے گا،وزارت خزانہ
  • اگلے مالی سال کا بجٹ ایف بی آر نہیں بنائے گا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب