ٹیکس چور سالانہ اربوں روپے لوٹ کر مزے کرنے لگے، ایف بی آر خاموش تماشائی
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف صحافی و تجز یہ نگار انصارعباسی نے بتایا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اپنی آمدنی بڑھانے اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی سخت ضرورت ہے ایسے میں ٹیکس چور بے خوفی سے اربوں روپے لوٹ رہے ہیں جب کہ ایف بی آر ایسے ٹیکس چوروں کو پکڑنے میں اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کر پا رہا۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق یہ چشم کشا اور سنگین انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مالی سال 2024-25ء کی تازہ ترین رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس میں ٹیکس چوری اور قانون نافذ نہ کرنے کے نقائص کا احاطہ کیا گیا ہے جس سے ہر سال قومی خزانے کو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں ہزاروں ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ٹیکس دہندگان بڑے پیمانے پر آمدنی چھپانے، جعلی کلیم، ریٹرن جمع نہ کرانے، ٹیکس کریڈٹ کے غلط استعمال اور آمدنی چھپانے میں ملوث ہیں۔
ایسے ٹیکس چوروں کو ایف بی آر کے فیلڈ دفاتر میں ناقص نگرانی، سست روی سے کارروائی اور کمزور داخلی کنٹرولز کی وجہ سے حوصلہ ملتا ہے۔
اگرچہ گزشتہ برسوں کی رپورٹس میں بھی انہی بے ضابطگیوں کی مسلسل نشاندہی کی گئی لیکن اس کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
اس صورتحال کو آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں ’’انتہائی تشویش ناک‘‘ قرار دیا ہے، امیر افراد کی جانب سے سُپر ٹیکس کی بڑے پیمانے پر چوری سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 1026؍ ٹیکس دہندگان نے سُپر ٹیکس ادا نہیں کیا جس سے قومی خزانے کو 167.
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ کارروائی کا دعویٰ کیا گیا لیکن واضح ریکوری نہیں ہوئی اور زیادہ تر کیسز تاحال زیر التوا ہیں، رپورٹ میں مزید 45.3؍ ارب روپے کے غیر ادا شدہ ودہولڈنگ ٹیکس کی نشاندہی کی گئی ہے، 1344؍ کیسز میں ایجنٹس نے سپلائرز اور کنٹریکٹرز کو ادائیگیوں پر ٹیکس منہا نہیں کیا یا پھر ٹیکس کی کٹوتی ہی نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود، ایف بی آر نے ان ایجنٹس کیخلاف ذاتی ذمہ داری کے قانونی اختیارات استعمال نہیں کیے، کارروائیاں تاخیر کا شکار رہیں یا پھر مکمل ہی نہیں کی گئیں، صرف 24؍ لاکھ روپے کی وصولی ممکن ہو پائی۔
آڈیٹر جنرل نے خبردار کیا کہ جب تک ’’سینکرونائزڈ وتھ ہولڈنگ ایڈمنسٹریشن اینڈ پیمنٹ سسٹم‘‘ (SWAPS) پر فوری عمل نہیں کیا جاتا اور اس وقت تک نظام میں اربوں روپے کی لیکیج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے ٹیکس دہندگان نے اپنی فروخت کم ظاہر کر کے یا خریداری بڑھا کر آمدنی چھپائی جب کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ریٹرن میں فرق پایا گیا، ایسے 1181؍ کیسز میں 54.2؍ ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، اسی طرح، 992؍ سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد نے فروخت چھپائی، بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کم ظاہر کی، یا اختتامی سٹاک کا حساب نہیں دیا، جس سے 36؍ ارب روپے کا سیلز ٹیکس چوری ہوا، دونوں صورتوں میں کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جعلی یا فلائنگ انوائسز کے ذریعے سیلز ٹیکس ریفنڈ یا ان پٹ ایڈجسٹمنٹ حاصل کی گئی، 375؍ کیسز میں ٹیکس دہندگان نے بلیک لسٹ یا معطل شدہ کمپنیوں کی انوائسز پر کریڈٹ کلیم کیا جو سیلز ٹیکس ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ان جعلی کلیمز سے 123.5؍ ارب روپے کا نقصان ہوا، زیادہ تر کیسز تاحال انکوائری یا ایڈجیوڈیکیشن (فیصلہ سنائے جانے) کے مراحل میں ہیں، کچھ پر تو اب تک محکمانہ ردعمل بھی نہیں آیا۔
رپورٹ کے مطابق، 14؍ ہزار 697؍ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان نے این ٹی این ہونے کے باوجود ریٹرن فائل نہیں کیا، یہ ایسی خلاف ورزی ہے جس پر دفعہ 182؍ کے تحت از خود جرمانہ عائد ہونا چاہئے تھا لیکن 26.6؍ ارب روپے کے جرمانے عائد کیے گئے نہ وصول کیے گئے، اس کیٹیگری میں ایف بی آر نے صرف 0.05؍ ملین روپے وصولی کیے، اس سے ایف بی آر کی جانب سے قانون کے نفاذ میں ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ایسے کیسز بھی ہیں جن میں ٹیکس واجب الادا تھا لیکن وصول نہیں کیا گیا، 1571؍ کیسز میں 62.3؍ ارب روپے وصول نہیں کیے گئے، اگرچہ کچھ کیسز میں قانونی کارروائی شروع کی گئی لیکن کوئی نمایاں وصولی نہیں کی گئی۔
’’دیگر ذرائع‘‘ کی کیٹگری میں شمار ہونے والے ذرائع پر ٹیکس عائد نہ کیے جانے کی وجہ سے بھی 23.3؍ ارب روپے نقصان ہوا، ان ذرائع میں مختلف اقسام کی آمدنی شامل ہیں، 1764؍ کیسز میں ایف بی آر نے جائزہ لیا نہ ٹیکس وصول کیا۔
ایف بی آر کے 392؍ صفحات پر مشتمل آڈٹ میں مفصل انداز سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح ٹیکس چور پیسہ لوٹ رہے ہیں اور ایف بی آر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تقریباً تمام بڑے مسائل 2019 سے 2024تک کی آڈٹ رپورٹس میں متعدد مرتبہ اٹھائے گئے لیکن وہی بے ضابطگیاں دہرائی جا رہی ہیں اور کارروائی نہ کرنے پر فیلڈ افسران سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکس وصولیوں کے یہ نقصانات ایسے ہیں جو اگر ریکور کیا جاتا تو یہ رقم سکولوں، ہسپتالوں، عوامی تحفظ یا انفراسٹرکچر پر خرچ ہو سکتی تھی، بڑے پیمانے پر ناکامیوں کو روکنے کیلئے رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ واجب الادا ٹیکس فوراً وصول کیا جائے، قانونی کارروائی اور فیصلے بروقت کیے جائیں، آزادانہ نگرانی کی جائے، داخلی و ڈیسک آڈٹ کا نظام مضبوط کیا جائے اور رسک بیسڈ اپروچ اختیار کی جائے، صوبائی اور وفاقی ڈیٹا بیس (جیسے زمین، ایکسائز، ریونیو) کو ضم کیا جائے، آئی ٹی کنٹرولز کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بلیک لسٹ شدہ اداروں سے منسلک جعلی ریفنڈ کلیمز کو روک سکیں۔ آڈٹ رپورٹ نے صاف الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ ایک ہی بے ضابطگی بار بار دہرائی جائے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔
پیٹ کمنز کی بیگی گرین کیپ ویسٹ انڈیز میں گم ہوگئی
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ٹیکس دہندگان نے ا ڈیٹر جنرل نہیں کی گئی ارب روپے کا ایف بی ا ر کے باوجود رپورٹ میں میں ٹیکس نہیں کیا کے مطابق کیے گئے پر ٹیکس کیا گیا گیا ہے
پڑھیں:
ملتان، اربوں روپے کے آن لائن فراڈ کے 2 مرکزی ملزمان گرفتار
فائل فوٹوملتان سے اربوں روپے کے آن لائن فراڈ کے دو مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق ملزمان ایک سال سے مفرور تھے، ملزمان نے جنوبی پنجاب کے شہریوں سے اربوں روپے کا آن لائن مالیاتی فراڈ کیا۔
این سی سی آئی اے ملتان میں اسکینڈل سے متعلق درجنوں انکوائریاں درج ہیں۔
ملزمان جعلی تجارتی منصوبوں کے ذریعے اربوں روپے بٹور چکے تھے، شہریوں کو سرمایہ کاری پر 30 فیصد منافع کا جھانسا دیا جاتا تھا۔