سوات واقعے پر سیاست نہیں، سچائی سے جائزہ لیا جائے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے سوات میں پیش آنے والے دلخراش سانحے پر سیاست کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے کا غیرجانبداری اور سچائی کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے افسوسناک واقعات سے بچا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وزیر اعظم نے نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر (NEOC) کا دورہ کیا، جہاں انہیں مون سون بارشوں اور ممکنہ سیلابی خطرات سے نمٹنے کی تیاریوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے ملک میں شدید نقصان پہنچایا، لاکھوں مکانات تباہ ہوئے اور زرعی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، خطرات سے آگاہی اور پیشگی اطلاع میں ادارے کا کردار نہایت اہم ہے۔
شہباز شریف نے سوات واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، پوری قوم سوگوار ہے، ہمیں اس مسئلے پر سیاست سے بالاتر ہو کر سچائی کے ساتھ تجزیہ کرنا چاہیے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے المناک واقعات کو مستقبل میں کیسے روکا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے تمام متعلقہ اداروں پر زور دیا کہ وہ باہم رابطے اور مربوط حکمت عملی کے تحت ایسے سانحات سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
وزیراعظم نے مزیدکہا کہ ہمارا دشمن پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ہم ایسے تمام عزائم کو ناکام بنائیں گے، سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، ہمیں سفارتی اور دفاعی محاذ پر چوکنا رہنا ہوگا تاکہ دشمن کے ہر منصوبے کا بروقت سدباب ممکن بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ 27 جون کو خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں دریا میں اچانک طغیانی آنے سے متعدد سیاح ڈوب گئے تھے، دریا کے کنارے تفریح کے لیے آنے والے افراد کو اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، ابتدائی رپورٹس کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب دریا میں نالوں کا پانی ایک ساتھ شامل ہو گیا، جس سے پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی۔
قوم اس سانحے پر غمزدہ ہے اور مطالبہ کر رہی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے بروقت وارننگ سسٹم، ریگولیٹری اقدامات اور عوامی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پریس کلب پر پولیس کا دھاوا قابلِ مذمت ہے، صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں،مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ “پریس کلب میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ صحافیوں پر پولیس تشدد کسی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن اور باشعور لوگ ہیں، جو اپنا دائرہ کار جانتے ہیں۔ “نیشنل پریس کلب ایک مقدس جگہ ہے، اور وہاں موجود صحافی میدان میں نہیں بلکہ اپنی حدود میں موجود تھے۔ ان کے خلاف کسی قسم کی شکایت کا کوئی جواز نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔”
صحافیوں پر تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا
مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آباد پولیس کا صحافیوں کو مارنا پیٹنا، ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا، اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ “صحافیوں کا احتجاج ان کا آئینی و جمہوری حق ہے، ہم ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات: پریس کلب کی حرمت پامال
یاد رہے کہ 2 اکتوبر کو آزاد کشمیر میں تشدد کے خلاف چند مظاہرین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو کچھ مظاہرین عمارت کے اندر چلے گئے، جس کے تعاقب میں پولیس اہلکار زبردستی پریس کلب کے اندر داخل ہو گئے۔
اس دوران پولیس نے نہ صرف مظاہرین کو گرفتار کیا بلکہ وہاں موجود صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کلب کے عملے پر بھی تشدد کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک فوٹوگرافر کا کیمرا توڑ دیا گیا، جبکہ کیفے ٹیریا میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
صحافتی اداروں کا شدید ردعمل
اس واقعے پر ملک کی بڑی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش نہیں رہیں۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (AEMEND) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پولیس کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔