data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹورنٹو: فضائی آلودگی صرف پھیپھڑوں اور سانس کے نظام کو متاثر نہیں کرتی بلکہ یہ ہمارے دل کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، کینیڈا کی معروف ٹورنٹو یونیورسٹی کی ایک تازہ طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی میں سانس لینے والے افراد کے دل کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ دل کے افعال متاثر ہونے لگتے ہیں، دل کو خون پمپ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی کے مائیکرو ذرات (Particulate Matter) جب طویل عرصے تک جسم میں داخل ہوتے رہیں تو یہ دل کے پٹھوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس کے نتیجے میں دل کو خون پمپ کرنے میں دشواری پیش آتی ہے، یہ صورتحال بظاہر خاموش ہوتی ہے مگر وقت کے ساتھ مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

 ماہرین نے اس تحقیق میں 493 مریضوں اور 201 صحت مند افراد کا تقابلی تجزیہ کیا،  کارڈک ایم آر آئی (Cardiac MRI) ٹیکنالوجی کے ذریعے فضائی آلودگی سے دل پر پڑنے والے اثرات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔

نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ افراد جو زیادہ آلودہ علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے دلوں میں ساختی تبدیلیاں اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹیں دیکھی گئیں۔ دل کے پٹھوں کی کارکردگی کمزور ہونے لگی اور خطرناک حد تک دل کے افعال متاثر ہوئے۔

کن افراد کو سب سے زیادہ خطرہ؟

ماہرین نے واضح کیا کہ یہ خطرہ خاص طور پر درج ذیل افراد کے لیے زیادہ ہوتا ہے، جس میں خواتین، تمباکو نوشی کرنے والے افراد، ہائی بلڈ پریشر (بلند فشار خون) کے مریض شامل ہیں،اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی فرد پہلے سے کسی دل یا شریان سے متعلق بیماری کا شکار ہے تو فضائی آلودگی اس کے لیے مزید خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی اور امراضِ قلب، خاص طور پر ہارٹ اٹیک اور فالج (Stroke) کے درمیان براہ راست تعلق ہے، یہ وہ بیماریاں ہیں جو دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں شمار ہوتی ہیں۔

پہلے بھی مختلف سائنسی مطالعات میں یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ فضائی آلودگی دل کی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے مگر اس کی اصل وجہ مکمل طور پر واضح نہیں تھی، اب ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق نے یہ بات مزید تقویت دی ہے کہ آلودگی کے ننھے ذرات دل کے خلیات کو براہ راست نقصان پہنچاتے ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شہروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی سے بچنے کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، آلودہ علاقوں میں باہر نکلنے سے گریز کیا جائے، خاص طور پر صبح اور شام کے وقت اگر نکلیں تو ماسک کا استعمال کیا جائے، گھر میں ایئر پیوریفائرز کا استعمال کیا جائے، تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کیا جائے، بلڈ پریشر اور دل کے دیگر مسائل کا باقاعدہ معائنہ کرایا جائے۔

یہ تحقیق شہری منصوبہ بندی، ماحولیاتی تحفظ اور پبلک ہیلتھ پالیسیز کے لیے بھی ایک انتباہ ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فضائی آلودگی کو قومی سطح کے صحت کے بحران کے طور پر لیں، کیونکہ یہ خاموشی سے لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

طبی ماہرین نے مزید کہا کہ اگر فوری طور پر آلودگی پر قابو نہ پایا گیا، تو آئندہ دہائیوں میں دل کی بیماریاں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں شہروں کی بے ہنگم ترقی اور ٹریفک آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فضائی آلودگی کیا جائے سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

اے آئی چیٹ بوٹس کے غلط جوابات کی اصل وجہ سامنے آگئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پرنسٹن: دنیا بھر میں روزانہ کروڑوں افراد جنریٹیو آڑٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) چیٹ بوٹس استعمال کرتے ہیں، مگر ان کے فراہم کردہ جوابات میں اکثر غلط بیانی یا گمراہ کن معلومات شامل ہوتی ہیں۔ اس رجحان کی وجہ پرنسٹن یونیورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے، جس نے واضح کیا ہے کہ یہ خامی دراصل ان ماڈلز کی تربیت کے طریقہ کار کا نتیجہ ہے۔

تحقیق کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس کو اس انداز میں ٹرین کیا جاتا ہے کہ وہ صارف کو ہمیشہ مطمئن رکھنے کی کوشش کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر وہی جواب فراہم کرتے ہیں جو بظاہر صارف کو خوش کر دے، خواہ اس میں حقائق کو نظر انداز کیوں نہ کیا گیا ہو۔ محققین نے اسے ایک ڈاکٹر کی مثال سے تشبیہ دی جو اصل بیماری کی تشخیص کے بجائے صرف مریض کی فوری تکلیف دور کرنے پر توجہ دے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لارج لینگوئج ماڈلز کو تربیت دیتے وقت انسانی فیڈ بیک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تربیتی مراحل میں انہیں سکھایا جاتا ہے کہ ایسا ردعمل دیا جائے جس پر صارفین زیادہ مثبت ریٹنگ دیں، اس لیے ان کا رجحان معلومات کی درستگی کے بجائے خوش کن جوابات دینے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ اے آئی ٹولز تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے نظام میں بہتری متوقع ہے، لیکن ان میں ایسی بنیادی خامیاں ہمیشہ برقرار رہ سکتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ماڈلز کو وسیع پیمانے پر متن پر مبنی ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر جواب کو مکمل طور پر درست اور قابل فہم بنانا ممکن نہیں۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو نے اسلامی ممالک کے 20 نکات ٹرمپ سے کیسے تبدیل کروائے؟ نصرت جاوید کے انکشافات
  • کیا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دل کی رفتار بڑھ جانا خطرناک ہے؟
  • این ایچ اے کے مالیاتی خسارے میں 5 سال کے دوران تشویشناک حد تک اضافہ
  • اے آئی چیٹ بوٹس کے غلط جوابات کی اصل وجہ سامنے آگئی
  • آزاد کشمیر کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، دانشمندانہ حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے: چوہدری محمد سرور
  • آزاد کشمیر کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، چوہدری سرور
  • مصر میں نکاح رجسٹر کرائے بغیر شادیوں کے رجحان میں تشویشناک اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
  • لاہور میں اسموگ اور فضائی آلودگی کے تدارک کیلیے 90 روزہ ہنگامی ایکشن پلان تجویز
  • لاہور میں اسموگ اور فضائی آلودگی میں کمی کیلئے 90 روزہ ایکشن پلان تجویز
  • شادی انسان کی زندگی پر حیرت انگیز مثبت اثرات ڈالتی ہے: تحقیق