Express News:
2025-08-18@06:51:11 GMT

کیا آپ بھی بے روزگار ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ اچانک ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کے منیجر کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا کہ آپ کانفرنس روم میں آجائیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ میں نے ایک نظر آج کے طے شدہ میٹنگز کیلنڈر پر ڈالی اوراس میں مذکورہ منیجر کے ساتھ کوئی طے میٹنگ نہ پا کر کندھے اچکاتا ہوا کانفرنس روم کی طرف چل پڑا، وہاں پہنچتے ہی میں منیجر کے چہرے پر واضح تناؤ اور دِل میں چور جیسی کیفیت کو بھانپ گیا۔

بہرکیف علیک سلیک کے بعد وہ یوں گویا ہوا کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن کمپنی کی ٹاپ مینجمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمیں آپ کی اس پوزیشن کی ضرورت نہیں رہی اور اس حوالے سے جو بھی چھوٹا موٹا کام ہوگا وہ ہم ’آؤٹ سورس‘ کردیں گے۔ اس لیے فلاں تاریخ آپ کا لاسٹ ورکنگ ڈے ہوگا، بہت شکریہ۔ یہ کہہ کر وہ کانفرنس روم سے باہرنکل گیا اور میں بہت کچھ کہنا چاہتے ہوئے بھی چپ رہا۔

دراصل آج کل کافی کمپنیز نے ایک انتہائی خودغرضانہ لائحہ عمل اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ مارکیٹ سے ایک نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا پروفیشنل ریسورس ہائر کرتے ہیں اور اسے منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں، بہترین سہولیات اور مراعات سے نوازتے ہیں اور وہ شخص ان وجوہات کی بنا پر اپنا تن من دھن لگا کر اس کمپنی کےلیے کام کرتا ہے۔ ڈپارٹمنٹ کی تمام ’ایس او پیز‘ تیار کرتا ہے، اپنے تمام کانٹینکٹس، اپنی اسٹریٹجی، غرض یہ کہ ایک مکمل اور بہترین اندازمیں کام کرنے والے ڈپارٹمنٹ کا ڈھانچہ کھڑا کرکے اسے نہ صرف اپنے پیروں پرکھڑا ہونا بلکہ دوڑنا سکھا دیتا ہے۔ اور یہ تمام معاملات ڈاکومنٹ کردیتا ہے۔

اس کے بعد وہ اس امید میں ہوتا ہے کہ اب اسے مزید ترقی ملے گی لیکن اچانک اسے ایک دن کمپنی جواب دے کر گھر بھیج دیتی ہے اور وہ ہکا بکا رہ جاتا ہے بلکہ اسے اپنی صلاحیتوں پر شک ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اس کے اعتماد کی عمارت زمیں بوس ہوجاتی ہے۔

اس ساری ایکسرسائز کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ وہ کمپنی نہایت کم وقت میں ایک چلتا ہوا اور مفید نتائج دیتا ہوا ڈپارٹمنٹ حاصل کرلیتی ہے اور پھر وہ اس پروفیشنل ریسورس کی ٹوٹل تنخواہ میں چار نئے جونیئر ریسورس ہائر کرلیتے ہیں اور وہ پہلے سے تیار شدہ ’ایس او پیز‘ کے مطابق اس ڈپارٹمنٹ کو باآسانی چلانے لگ جاتے ہیں۔ اور چونکہ اب ایک کے بجائے وہ کام چار ریسورسز کر رہے ہوتے ہیں تو کمپنی کے معاملات کو اور بھی چار چاند لگ جاتے ہیں اور بجٹ وہی ایک پروفیشنل ریسورس والا ہی استعمال میں آتا ہے، یعنی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔

اس کے علاوہ بعض کیسز میں کمپنیز ایسا بھی کرتی ہیں کہ اس پروفیشنل ریسورس کو ایک اسسٹنٹ ہائر کرکے دیتی ہیں تاکہ وہ کام بانٹ سکے لیکن اصل مقصد اس اسسٹنٹ کی ٹریننگ ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ مقصد حاصل ہوتا ہے اس پروفیشنل ریسورس کو فارغ کردیا جاتا ہے یا اسے مختلف حربوں سے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ تنگ آکر استعفیٰ دے دیتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ خود ٖغرضانہ عمل نہ صرف ایک پروفیشنل شخص کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے بلکہ اس کے ’سی وی‘ پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے اور ایسے پروفیشنل کو چونکہ اُس کمپنی میں اچھی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے جو کہ مارکیٹ کے عمومی ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے جب وہ کسی اور جگہ اپلائی کرتا ہے تو اتنی ہی یا اس سے زیادہ تنخواہ چاہ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے نوکری ملنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمپنیز اسے ’اوور کوالیفائیڈ‘ کہہ کر ریجیکٹ کر دیتی ہیں لیکن اصل وجہ اس کی تنخواہ کی ڈیمانڈ ہوتی ہے جو عمومی مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات اس پروفیشنل کو تین چار ماہ گزرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے اور پھر وہ مارکیٹ ریٹ سے کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنا کیریئر تباہ کرلیتا ہے۔

آپ بھی خدانخواستہ اس صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں اس لیے جب بھی کسی کمپنی سے آفر آئے تو تین باتیں ضرور مدِنظر رکھیں۔ پہلی یہ کہ کیا وہ کمپنی ایک ’اسٹارٹ اَپ‘ ہے؟ کیونکہ ایسا طرزِ عمل عموما نئے سیٹ اَپس کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ یہ یقینی بنائیں کہ اس اسٹارٹ اَپ سے آپ جو کنٹریکٹ سائن کریں وہ کم از کم دو سال پر مشتمل ہو اور فریقین میں سے کوئی بھی اسے دو سال سے پہلے منسوخ نہ کرسکتا ہو۔ 

دوسری چیز یہ کہ اس کمپنی کے جس ڈپارٹمنٹ میں آپ جا رہے ہیں کیا وہ پہلے سے چل رہا ہے اور اس میں دیگر لوگ بھی کام کر رہے ہیں یا اس ڈپارٹمنٹ میں آپ کی ہائرنگ ہی پہلی ہے اور آپ نے ہی اس ڈپارٹمنٹ کو ڈیولپ کرنا ہے؟ اگر ایسی صورتحال ہے تو بھی مذکورہ بالا دو سال والی شق پر عمل کریں۔ 

اور تیسری اور آخری بات یہ کہ اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ آپ کا ’پروبیشن پیریڈ‘ نہیں ہوگا بلکہ آپ پہلے دن سے ریگولر ہوں گے اور آپ کو مارکیٹ ریٹ یا آپ کی توقعات سے بڑھ کر تنخواہ آفر کی جائے تو بھی مذکورہ بالا دو سال والی شق پر عمل درآمد کروائیں، ورنہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے جو اس وقت کئی پروفیشنل لوگوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پروفیشنل ریسورس اس پروفیشنل دیتا ہے ہیں اور جاتا ہے ہوتی ہے کے ساتھ کرتا ہے ہوتا ہے ہے اور دو سال اور اس کام کر

پڑھیں:

چینی درآمد کرنے کیلئے کم بولی کی پیشکش مسترد، مہنگی پیش کش قبول کرلی گئی

اسلام آباد:

ملک میں دو لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کے لیے کم بولی کی پیش کش مسترد کرتے ہوئے مہنگی پیش کش کو قبول کرلیا گیا ہے۔

ٹریڈنگ کارپوریشن نے مسترد کی جانے والی دونوں کمپنیوں کے متعلقہ دستاویزات مکمل نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا تھا تاہم مجموعی طور پر 5 کمپنیوں میں سے 2کمپنیوں کی کم قیمتوں کی پیش کش کو مسترد کیا گیا، دو کمپنیوں کی جانب سے چینی درآمد کرنے کی مہنگی پیش کش کو قبول کیا گیا جبکہ ٹینڈر کے دوران ایک متحدہ عرب امارات کی کمپنی نے بولی لگانے سے معذرت کرتے ہوئے کاغذات واپس لےلیے تھے۔

چینی درآمد کرنے کے ٹینڈر میں مجموعی طور پر5 کمپنیوں نے بولی جمع کروائی جس میں سے صرف دو بولیوں کو قابل قبول قراردیا گیا۔

ٹی سی پی ٹینڈر دستاویز کے مطابق لندن کی کمپنی میسرز ای ڈی اینڈ ایف مین شوگر لمیٹڈ نے چینی درآمد کرنے کے لیے سب سے کم پیش کش جمع کرائی۔

لندن کی اس کمپنی نے ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی کراچی بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے539 ڈالر فی میٹرک ٹن بولی لگائی تھی۔

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے لندن کمپنی کی بولی پر اعتراض لگا کر مسترد کر دیا۔

ٹینڈر نوٹیفکیشن کے مطابق جرمنی کی کمپنی نے چھوٹے اور درمیانے دانے والی سفید چینی درآمد کے لیے دوسری سب سے کم بولی لگائی، جرمن کمپنی بیئر سینڈیکیٹ ایف زی سی او نے 555 ڈالر فی میٹرک ٹن چینی درآمد کی بولی لگائی لیکن ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے جرمنی کی کمپنی کی بولی کو بھی اعتراض لگاکر واپس کردیا۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ لندن اور جرمن کمپنیوں کی بولی کو دستاویزات اور شرائط کی وجہ سے مسترد کیا گیا، سوئٹزرلینڈ کمپنی لوئس ڈریفس نےچھوٹے دانے والی چینی درآمدکرنے کی 580.75 ڈالرفی میٹرک ٹن بولی لگائی تھی۔

اسی طرح دبئی کی کمپنی الخلیج شوگر نے 586ڈالر فی میڑک ٹن درمیانے دانےوالی چینی درآمد کرنے کی پیش کش کی۔

ٹینڈر نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا کہ ٹی سی پی نے دبئی اور سوئٹزرلینڈ کی کمپنیوں کی بولیوں کو منظور کرتے ہوئے فاتح قرار دے دیا۔

نوٹیفکیشن میں مزید بتایا گیا کہ دبئی کی کمپنی سکڈن مڈل ایسٹ نے بولی جمع کرانے سے معذرت کرتے ہوئے کاغذات واپس لےلیے تھے۔

ٹینڈر کے مطابق 25 ہزار میڑک ٹن چینی کی دو شپمنٹس یا ایک 50ہزار میڑک ٹن کی شپمنٹ 5 سے 20 ستمبر تک ہوگی،د دو لاکھ میڑک ٹن چینی کی درآمد 5 ستمبر سے 15اکتوبر تک بتدریج کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • جاپان نے نئی واشنگ مشین متعارف کرادی، کپڑوں کی نہیں انسانوں کی دھلائی کریگی
  • کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے مبینہ مقابلوں میں مزید 2 ملزمان ہلاک
  • چینی کمپنی کا پنجاب میں الیکٹرک گاڑیوں کا پلانٹ لگانے کااعلان
  • چینی درآمد کرنے کیلئے کم بولی کی پیشکش مسترد، مہنگی پیش کش قبول کرلی گئی
  • وزیراعظم کی جناح میڈیکل کمپلیکس کی ڈیجیٹائزیشن، اے آئی اطلاق کی ہدایت
  • ہنگور کلاس آبدوزوں کی لانچنگ، چین سے شراکت داری کی نئی جہت: وائس ایڈمرل 
  • چین میں پاک بحریہ کی تیسری ہنگورکلاس آبدوز کی لانچنگ تقریب
  • نومولود اے آئی پرپلیکسٹی کی 3 ارب صارفین رکھنے والا گوگل کروم خریدنے کی حیران کن پیشکش، معاملہ کیا ہے؟
  • چین میں پاک بحریہ کی تیسری ہنگورکلاس آبدوز کی لانچنگ تقریب کا انعقاد
  • سعودی کمپنی ’بحری‘ فلسطینی اسرائیل کو سامان کی ترسیل سے متعلق خبروں کو گمراہ کن قرار دے دیا