Express News:
2025-07-03@01:28:34 GMT

کیا آپ بھی بے روزگار ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ اچانک ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کے منیجر کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا کہ آپ کانفرنس روم میں آجائیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ میں نے ایک نظر آج کے طے شدہ میٹنگز کیلنڈر پر ڈالی اوراس میں مذکورہ منیجر کے ساتھ کوئی طے میٹنگ نہ پا کر کندھے اچکاتا ہوا کانفرنس روم کی طرف چل پڑا، وہاں پہنچتے ہی میں منیجر کے چہرے پر واضح تناؤ اور دِل میں چور جیسی کیفیت کو بھانپ گیا۔

بہرکیف علیک سلیک کے بعد وہ یوں گویا ہوا کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن کمپنی کی ٹاپ مینجمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمیں آپ کی اس پوزیشن کی ضرورت نہیں رہی اور اس حوالے سے جو بھی چھوٹا موٹا کام ہوگا وہ ہم ’آؤٹ سورس‘ کردیں گے۔ اس لیے فلاں تاریخ آپ کا لاسٹ ورکنگ ڈے ہوگا، بہت شکریہ۔ یہ کہہ کر وہ کانفرنس روم سے باہرنکل گیا اور میں بہت کچھ کہنا چاہتے ہوئے بھی چپ رہا۔

دراصل آج کل کافی کمپنیز نے ایک انتہائی خودغرضانہ لائحہ عمل اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ مارکیٹ سے ایک نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا پروفیشنل ریسورس ہائر کرتے ہیں اور اسے منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں، بہترین سہولیات اور مراعات سے نوازتے ہیں اور وہ شخص ان وجوہات کی بنا پر اپنا تن من دھن لگا کر اس کمپنی کےلیے کام کرتا ہے۔ ڈپارٹمنٹ کی تمام ’ایس او پیز‘ تیار کرتا ہے، اپنے تمام کانٹینکٹس، اپنی اسٹریٹجی، غرض یہ کہ ایک مکمل اور بہترین اندازمیں کام کرنے والے ڈپارٹمنٹ کا ڈھانچہ کھڑا کرکے اسے نہ صرف اپنے پیروں پرکھڑا ہونا بلکہ دوڑنا سکھا دیتا ہے۔ اور یہ تمام معاملات ڈاکومنٹ کردیتا ہے۔

اس کے بعد وہ اس امید میں ہوتا ہے کہ اب اسے مزید ترقی ملے گی لیکن اچانک اسے ایک دن کمپنی جواب دے کر گھر بھیج دیتی ہے اور وہ ہکا بکا رہ جاتا ہے بلکہ اسے اپنی صلاحیتوں پر شک ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اس کے اعتماد کی عمارت زمیں بوس ہوجاتی ہے۔

اس ساری ایکسرسائز کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ وہ کمپنی نہایت کم وقت میں ایک چلتا ہوا اور مفید نتائج دیتا ہوا ڈپارٹمنٹ حاصل کرلیتی ہے اور پھر وہ اس پروفیشنل ریسورس کی ٹوٹل تنخواہ میں چار نئے جونیئر ریسورس ہائر کرلیتے ہیں اور وہ پہلے سے تیار شدہ ’ایس او پیز‘ کے مطابق اس ڈپارٹمنٹ کو باآسانی چلانے لگ جاتے ہیں۔ اور چونکہ اب ایک کے بجائے وہ کام چار ریسورسز کر رہے ہوتے ہیں تو کمپنی کے معاملات کو اور بھی چار چاند لگ جاتے ہیں اور بجٹ وہی ایک پروفیشنل ریسورس والا ہی استعمال میں آتا ہے، یعنی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔

اس کے علاوہ بعض کیسز میں کمپنیز ایسا بھی کرتی ہیں کہ اس پروفیشنل ریسورس کو ایک اسسٹنٹ ہائر کرکے دیتی ہیں تاکہ وہ کام بانٹ سکے لیکن اصل مقصد اس اسسٹنٹ کی ٹریننگ ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ مقصد حاصل ہوتا ہے اس پروفیشنل ریسورس کو فارغ کردیا جاتا ہے یا اسے مختلف حربوں سے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ تنگ آکر استعفیٰ دے دیتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ خود ٖغرضانہ عمل نہ صرف ایک پروفیشنل شخص کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے بلکہ اس کے ’سی وی‘ پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے اور ایسے پروفیشنل کو چونکہ اُس کمپنی میں اچھی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے جو کہ مارکیٹ کے عمومی ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے جب وہ کسی اور جگہ اپلائی کرتا ہے تو اتنی ہی یا اس سے زیادہ تنخواہ چاہ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے نوکری ملنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمپنیز اسے ’اوور کوالیفائیڈ‘ کہہ کر ریجیکٹ کر دیتی ہیں لیکن اصل وجہ اس کی تنخواہ کی ڈیمانڈ ہوتی ہے جو عمومی مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات اس پروفیشنل کو تین چار ماہ گزرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے اور پھر وہ مارکیٹ ریٹ سے کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنا کیریئر تباہ کرلیتا ہے۔

آپ بھی خدانخواستہ اس صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں اس لیے جب بھی کسی کمپنی سے آفر آئے تو تین باتیں ضرور مدِنظر رکھیں۔ پہلی یہ کہ کیا وہ کمپنی ایک ’اسٹارٹ اَپ‘ ہے؟ کیونکہ ایسا طرزِ عمل عموما نئے سیٹ اَپس کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ یہ یقینی بنائیں کہ اس اسٹارٹ اَپ سے آپ جو کنٹریکٹ سائن کریں وہ کم از کم دو سال پر مشتمل ہو اور فریقین میں سے کوئی بھی اسے دو سال سے پہلے منسوخ نہ کرسکتا ہو۔ 

دوسری چیز یہ کہ اس کمپنی کے جس ڈپارٹمنٹ میں آپ جا رہے ہیں کیا وہ پہلے سے چل رہا ہے اور اس میں دیگر لوگ بھی کام کر رہے ہیں یا اس ڈپارٹمنٹ میں آپ کی ہائرنگ ہی پہلی ہے اور آپ نے ہی اس ڈپارٹمنٹ کو ڈیولپ کرنا ہے؟ اگر ایسی صورتحال ہے تو بھی مذکورہ بالا دو سال والی شق پر عمل کریں۔ 

اور تیسری اور آخری بات یہ کہ اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ آپ کا ’پروبیشن پیریڈ‘ نہیں ہوگا بلکہ آپ پہلے دن سے ریگولر ہوں گے اور آپ کو مارکیٹ ریٹ یا آپ کی توقعات سے بڑھ کر تنخواہ آفر کی جائے تو بھی مذکورہ بالا دو سال والی شق پر عمل درآمد کروائیں، ورنہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے جو اس وقت کئی پروفیشنل لوگوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پروفیشنل ریسورس اس پروفیشنل دیتا ہے ہیں اور جاتا ہے ہوتی ہے کے ساتھ کرتا ہے ہوتا ہے ہے اور دو سال اور اس کام کر

پڑھیں:

’لڑکیوں کو چھوٹے کپڑوں کی اجازت، لڑکوں کو چپل بھی منع‘، ملازم کمپنی کی دوغلی پالیسی پر پھٹ پڑا

آفس کے لباس کے بارے میں ایک نئی بحث نے ہلچل مچا دی ہے، جب ایک ریڈٹ یوزر نے اپنے دفتر میں چپل پہننے پر پابندی کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ ان کا سوال تھا کہ جب دفتر میں کرپ ٹاپز اور عام لباس کی اجازت ہے، تو پھر چپل کیوں نہیں؟ کیا یہ واقعی ایک ڈبل اسٹینڈرڈز ہے، یا کوئی جائز وجہ؟ اس بحث نے نہ صرف دفتر کے ڈریس کوڈز پر سوالات اٹھائے ہیں، بلکہ اس نے وہ خطوط بھی چھیڑے ہیں جہاں ذاتی آزادی اور پروفیشنل ازم کی حدود ملتی ہیں۔

ایک شخص نے کمپنی میں چپل پہننے پر پابندی لگانے کو غیر منصفانہ قرار دیا، اس نے اس معاملے کو ’ڈبل اسٹینڈرڈز‘ کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اگر آفس میں کرپ ٹاپز پہننا ٹھیک ہے تو پھر چپل پر پابندی کیوں؟

اس نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ وہ ایک ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹ پر کام کرتے ہیں، جہاں کوئی باضابطہ ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ تاہم، ایک دن انہیں باس نے چپل پہن کر آفس آنے سے منع کیا۔ اس پوسٹ میں یوزر نے وضاحت کی کہ ان کا کام ایسی نوعیت کا نہیں ہے جس میں میٹنگز یا رسمی لباس کی ضرورت ہو، اور اس لئے چپل پہننے میں کوئی حرج نہیں۔

’میرا کام ایسا نہیں ہے جس میں میٹنگز ہوں یا کسی خاص لباس کی ضرورت ہو۔ اگر دوسروں کو آرام دہ لباس پہننے کی اجازت ہے تو پھر میں چپل کیوں نہیں پہن سکتا؟‘ یوزر نے سوال کیا۔

اس پوسٹ نے فوری طور پر دیگر ریڈٹ یوزرز کی توجہ حاصل کی، جنہوں نے اس معاملے پر مختلف رائے دی۔ کچھ یوزرز نے باس کے فیصلے کا دفاع کیا، اور اس کی وجہ سمجھانے کی کوشش کی۔

’چپل ایمرجنسی کی صورتحال میں خطرناک ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی آئی ایس او معیارات کے تحت، آپ کی کمپنی آپ کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ یہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیز میں ہوتا ہے،‘ ایک کمنٹر نے وضاحت کی۔

دوسرے یوزرز نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ’ننگے پاؤں جاؤ تاکہ تمہارا سپروائزر کم از کم چپل پہننے کے لیے کہے۔‘

تاہم، کچھ یوزرز نے آفس میں کسی بھی قسم کے لباس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا، ’جو بھی لباس آفس میں پہنا جائے، کم از کم وہ صاف ہونا چاہیے۔ چپل پہن کر آنا آفس کی وقار کے مطابق نہیں لگتا۔‘

اس شخص نے اس بات کا جواب دیا اور کہا، ’پوسٹ پڑھیں۔ یہاں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ چپل میں کیا غلط ہے؟ یہ آفس کی وقار کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟ اگر میں اپنا کام اچھی طرح کر رہا ہوں تو پھر لباس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘

ایک اور کمنٹر نے کہا، ’میں نے اپنے اسٹارٹ اپ میں باتھروم چپل پہنے، کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔‘

یہ بحث ورک پلیس ڈریس کوڈز، ذاتی اظہار اور کیا لباس کے مخصوص اصول ہمیشہ ضروری ہیں یا نہیں، پر سوالات اٹھاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حفاظتی مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے آفس میں ڈریس کوڈز کے نفاذ میں تضاد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • سیپکو میں ڈیٹا چوری کا اسکینڈل ،کرپشن چھپانے کیلئے چوری کا الزام
  • سام سانگ کی جدید ٹیکنالوجی منظر عام پر
  • سام سنگ کی اپنے اسمارٹ فونز کیلئے اہم اپ ڈیٹ جاری
  • معروف کار ساز کمپنی نے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں
  • کانفرنس کال میں خرابی پرٹرمپ سرکاری کمپنی پر بھڑک اُٹھے
  • کراچی، ایس ایچ او پاک کالونی سمیت 3 پولیس افسران معطل
  • 20 ارب روپے کے آن لائن مالیاتی فراڈ کے دومرکزی ملزمان گرفتار
  • ’لڑکیوں کو چھوٹے کپڑوں کی اجازت، لڑکوں کو چپل بھی منع‘، ملازم کمپنی کی دوغلی پالیسی پر پھٹ پڑا
  • انڈسٹری آل گلوبل یونین کے تحت نیشنل یوتھ میٹنگ کا انعقاد