خواتین کی خالی نشستوں پر ن لیگ کی نئی انٹری، جے یو آئی عدالت کی منتظر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)قومی اسمبلی میں خواتین کی تین مخصوص نشستوں کے معاملے پر دو مسلم لیگ (ن) اور ایک جے یو آئی کے حصے کی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جلد نئی نامزدگیاں دے گی، جے یو آئی کی نشست کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
قومی اسمبلی میں اس وقت خواتین کی تین مخصوص نشستیں خالی ہیں، جن میں سے دو مسلم لیگ (ن) اور ایک جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے حصے کی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ارکان ثوبیہ شاہد اور شہلا بانو کے خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد ان کی قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں خالی ہو چکی ہیں۔ پارٹی جلد ان دو نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن کو نئے نام بھجوائے گی۔
دوسری جانب جے یو آئی کی صدف احسان کی مخصوص نشست کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے، جس کے فیصلے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کی رہنما ارم حمید خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہو چکی ہیں اور آئندہ اجلاس میں حلف اٹھائیں گی۔ یہ نشست بشریٰ انجم بٹ کے سینیٹ کی رکن بننے کے بعد خالی ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں کے حالیہ نوٹیفکیشن کے بعد قومی اسمبلی میں ارکان کی مجموعی تعداد 333 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) 123 نشستوں کے ساتھ ایوان میں سب سے بڑی جماعت ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 74 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پاس قومی اسمبلی میں 10 نشستیں ہیں، جب کہ سنی اتحاد کونسل کی نشستوں کی تعداد 80 ہے۔
50 مزیدپڑھیں:فیصد سے زائد بھارتی ایرانی کسانوں کی اولاد ہیں،انکشاف سے ہلچل مچ گئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کے جے یو آئی مسلم لیگ کی ہیں کے بعد
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کا کیس، جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری
فائل فوٹومخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 41 آزاد امیدواروں نے آئین کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اختلافی فیصلے کے مطابق 41 امیدواروں کا معاملہ سپریم کورٹ میں کبھی زیر التوا نہیں تھا، عدالت کے پاس اختیار نہیں کہ کسی امیدوار کی حیثیت تبدیل کرے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرمی ایکٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے 2 ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ آرٹیکل 187 کا اختیار لامحدود نہیں، مکمل انصاف صرف زیرِ سماعت معاملے میں ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ41 ارکان کو آزاد قرار دینا اختیارات سے تجاوز ہے، 41 امیدواروں کے پی ٹی آئی سے تعلق کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا، منتخب رکن کسی پارٹی میں شامل ہو جائے تو پارٹی چھوڑ نہیں سکتا۔ جماعت چھوڑنے پر رکن کو آرٹیکل 63 اے کے تحت نشست سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
انہون نے اختلافی فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی اتھارٹی ووٹ کی حیثیت تبدیل نہیں کرسکتی، 41 امیدواروں کو آزاد قرار دینا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی فیصلے میں 15 دن میں جماعت تبدیل کرنے کا اختیار دینے کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلہ حقائق کے بھی خلاف تھا، زیرِ نظر فیصلہ اس حد تک برقرار نہیں رہ سکتا۔