آرمی، ایئرفورس، نیوی اور عدالتی ترمیمی بل سینیٹ سے کثرت رائے سے منظور
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سینیٹ میں عسکری اور عدالتی قوانین سے متعلق 4 اہم ترمیمی بل واضح اکثریت کے ساتھ منظور کرلیے گئے۔
چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر تعلیم طارق فضل چوہدری نے بل پیش کیے، جن میں پاکستان آرمی ایکٹ، پاکستان ایئر فورس ایکٹ، پاکستان نیوی ایکٹ اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل شامل تھے۔
بلز کی منظوری کے وقت ایوان میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے ارکان نے نہ صرف ترمیمات کی کھل کر مخالفت کی بلکہ مطالبہ کیا کہ ان بلوں کو مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
پی ٹی آئی کے رکن ہمایوں مہمند اور جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ اتنے حساس نوعیت کے قوانین میں تبدیلی بغیر تفصیلی غور کے نہیں ہونی چاہیے، تاہم چیئرمین سینیٹ نے ان مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے بلوں کو رائے شماری کے لیے پیش کردیا۔ رائے شماری کے نتیجے میں ایوان نے بھاری اکثریت کے ساتھ چاروں بل منظور کرلیے۔
اسحاق ڈار نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد سیکورٹی اداروں سے متعلق قوانین کو ہم آہنگ کرنا ضروری تھا، اسی وجہ سے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے ایکٹس میں ترامیم لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے تقاضوں اور انتظامی ڈھانچے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیمات ناگزیر ہوچکی تھیں۔
ایوان کی کارروائی کے دوران حکومتی بینچوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ترامیم ملک کے دفاعی ڈھانچے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا حصہ ہیں، جبکہ اپوزیشن ارکان نے مؤقف اختیار کیا کہ بلوں کو جلد بازی میں منظور کرایا جارہا ہے جس سے قانون سازی کے معیار پر اثر پڑے گا، تاہم حکومتی موقف کے سامنے اپوزیشن کی مزاحمت کمزور ثابت ہوئی اور ایوان نے بآسانی بل منظور کرلیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سینیٹ میں آرمی ایکٹ سمیت اہم عسکری و عدالتی ترامیم آج پیش ہوں گی، ایجنڈا جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں آج اہم اجلاس ہوگا، جس میں ملکی دفاعی، عدالتی اور ادارہ جاتی قوانین سے متعلق متعدد ترامیمی تجاویز پیش کی جائیں گی۔
سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے ایجنڈے کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کریں گے، جو حالیہ دنوں میں قومی سیاسی منظرنامے پر سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والے معاملات میں سے ایک ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان ایئر فورس ایکٹ اور پاکستان نیوی آرڈیننس میں بھی ترامیم سینیٹ کے سامنے رکھی جائیں گی۔
ایجنڈے میں شامل ایک اور اہم بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کی منظوری ہے، جس کا تعلق عدالتی طریقہ کار، بینچوں کی تشکیل اور عدالت عظمیٰ کے انتظامی اختیار سے ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ تینوں قوانین قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اب ایوانِ بالا سے منظوری کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے موقع پر سامنے آ رہی ہے جب قومی اسمبلی پہلے ہی 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ 2025 کی منظوری دے چکی ہے۔ اس نئے ایکٹ میں آرمی چیف کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز کے نام سے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، جس کے بعد اعلیٰ عسکری عہدے کی مدت دوبارہ سے شمار ہوگی۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں عسکری اسٹرکچر کے اندر اختیارات کی نئی ترتیب طے ہوگی، جسے ملکی سیاست، دفاعی نظام اور سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف بطور چیف آف ڈیفنس، افواج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ کے ذمے دار ہوں گے۔ یہ اختیار مستقبل میں ایک متحد، مربوط اور زیادہ منظم کمانڈ سسٹم کی بنیاد بنے گا۔ بل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کمانڈر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ 3 سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا، جس میں مزید 3 سال کی توسیع کا اختیار بھی شامل ہے۔ یہ اہم عہدہ وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر تعینات کریں گے۔
ایک اور نمایاں تبدیلی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کا خاتمہ ہے، جو 27 نومبر سے مؤثر ہو جائے گا۔