کیٹ مڈلٹن کی کینسر سے صحتیابی کے مشکل سفر پر لب کشائی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
برطانوی شہزادی کیٹ مڈلٹن نے کینسر سے صحتیابی کے مشکل سفر پر لب کشائی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ علاج کے بعد کا مرحلہ سب سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر ٹھیک ہو گئے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
43 سالہ شہزادی آف ویلز اس وقت کینسر کے علاج کے بعد مکمل صحتیابی کی راہ پر گامزن ہیں، انہوں نے کولچیسٹر اسپتال میں واقع کینسر ویلبیئنگ سینٹر کے دورے کے دوران اپنی ذاتی کہانی بیان کی۔ کیٹ نے اس موقع پر دوسرے مریضوں سے ملاقات کی اور اپنے نام پر لگائے جانے والے پھول کیتھرین روز کی شجر کاری میں بھی حصہ لیا۔
شہزادی نے کہا کہ کینسر کی تشخیص زندگی بدل دیتی ہے اور جب علاج مکمل ہو جاتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ مریض بالکل ٹھیک ہو گیا ہے، لیکن وہ مرحلہ سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے حقیقت میں جسمانی اور ذہنی بحالی کا سفر تبھی شروع ہوتا ہے، بظاہر مسکراتے چہرے کے پیچھے ایک طویل جدوجہد چھپی ہوتی ہے جسے لوگ اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ طبی نگرانی سے باہر آ چکے ہوتے ہیں، مگر روزمرہ کی زندگی میں مکمل طور پر واپس نہیں جا پاتے، مریضوں کو ایک نئے معمول ’نیو نارمل‘ کی تلاش کرنی ہوتی ہے، جس کے لیے وقت، حمایت اور جذباتی طاقت درکار ہوتی ہے۔
شہزادی کیٹ نے اپنی صحت یابی کے لیے روایتی چینی طریقۂ علاج اکیوپنکچر کا سہارا لیا اور اس طریقہ علاج کو نہایت مؤثر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جسم، ذہن اور روح ان تینوں کی ہم آہنگی بحالی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذہن، جسم اور روح کا تجربہ مکمل صحتیابی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
کولچیسٹر اسپتال کے گارڈن میں کیٹ نے اپنے نام سے منسوب گلاب کا پودا لگایا،’کیتھرین روز‘ ایک خوبصورت گلاب ہے جس کی خوشبو میں ترکش ڈیلائٹ اور آم کی مہک شامل ہے۔
رائل ہارٹیکلچرل سوسائٹی (آر ایچ ایس) کے مطابق پورے برطانیہ میں ایسے 500 گلابی پودے عطیہ کیے جائیں گے، جنہیں کمیونٹی گارڈنز، کینسر مراکز اور اسپتالوں میں لگایا جائے گا۔
انہوں نے مریضوں کے ساتھ ذاتی نوعیت کی بات چیت کی، ان کے تجربات سنے اور کہا کہ ایسے مراکز کا قیام برطانیہ بھر میں ہونا چاہیے تاکہ ہر کوئی بروقت اور مؤثر مدد حاصل کر سکے۔
ملاقات کے دوران شہزادی ایک کپ چائے ہاتھ میں لیے مریضوں اور عملے سے باتیں کرتی رہیں، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بطور ماں، چائے کا کپ سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔
شہزادی نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ کینسر صرف مریض کو نہیں، بلکہ پورے خاندان کو متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی یہ پہچانا نہیں جاتا کہ اس کا اثر کتنا وسیع ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ایسی جگہیں ہوں جہاں افراد خود کو تنہا نہ محسوس کریں۔
شہزادی نے حال ہی میں اپنی آواز میں ایک ویڈیو سیریز کا آغاز بھی کیا ہے جس کا عنوان ’بہار‘ نئی امیدوں کی علامت ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے ہوتا ہے ہوتی ہے
پڑھیں:
اگر آپ روزانہ کدو کھائیں تو بلڈ شوگر پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے؟
کدو صدیوں سے مختلف کھانوں میں استعمال ہوتا آرہا ہے اور جدید طب میں اس پر ذیابیطس و بلڈ شوگر سے متعلق بھی تحقیقات ہوئی ہیں۔
کدو کا ذائقہ میٹھا ضرور ہے لیکن اس میں کیلوریز کم اور فائبر مناسب مقدار میں ہوتا ہے جبکہ اس کا گلائسیمک انڈیکس نسبتاً کم ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اعتدال میں کھایا جائے تو بلڈ شوگر کے مریضوں کیلئے یہ اچھا ہے۔
مزید برآں کدو میں بیٹا کیروٹین، پولی فینولز اور فلیوونائڈز جیسے اجزا ہوتے ہیں جو انسولین حساسیت بہتر کر سکتے ہیں اور آکسیڈیٹو اسٹریس کم کر کے شوگر کنٹرول میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ کچھ لیبارٹری مطالعات میں کدو کے بیج اور گودے کے اجزاء نے انسولین کے اخراج کو بہتر ثابت کیا ہے۔
تجربات میں کدو کے بیجوں نے جگر میں گلوکوز میٹابولزم پر اچھے اثرات ڈالے اور خون میں شوگر لیول کم کرنے میں مدد کی۔ اس میں فائبر اور پانی کی زیادہ مقدار کی وجہ سے بھوک کم لگ سکتی ہے جسکے نتیجے میں وزن بھی مستحکم رہ سکتا ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کیلئے اہم ہے۔
تاہم ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر ایک وقت میں زیادہ مقدار (خاص طور پر میٹھے پکوان جیسے کدو کی کھیر، حلوہ وغیرہ) کھائیں جائیں تو شوگر فوراً بڑھ سکتی ہے۔
ذیابیطس مریضوں کیلئے کدو کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کدو کو ابال کر یا بھاپ میں پکا کر استعمال کریں۔ پروٹین یا فائبر کے ساتھ کھانے سے بلڈ شوگر پر اس کا اثر مزید نرم اچھا ہوتا ہے۔
کدو کے بیج میگنیشیم اور صحت مند فیٹس کی وجہ سے بھی ذیابیطس کے مریضوں کیلئے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔