دوست اور دشمن، سب عمران کو نشانہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں، قریبی ساتھی کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حالیہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مخصوص نشستوں سے محروم ہونے کے بعد ہچکولے کھارہی ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے اسے ’ادارہ جاتی داؤ پیچ اور اندرونی غلطیوں‘، خاص طور پر پارٹی کے اندرونی انتخابات کے پورے معاملے کا نتیجہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر عمران خان کو سیاست سے نکالنے کا ’مائنس عمران پلان‘ ہے۔
’ڈان‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان، ان کی اہلیہ کے ترجمان نیاز اللہ خان نیازی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک جامع اور سوچا سمجھا منصوبہ عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سیاسی بغاوت ہے، جو قانونی انجینئرنگ اور اندرونی غداری کی مدد سے ترتیب دی گئی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اپنی قیادت کی خاموشی اور بے عملی نے اسے ممکن بنایا۔
نیاز اللہ خان نیازی نے کہا کہ یہ سازشیں محض بیرونی دباؤ یا عدالتی حدود سے تجاوز کا نتیجہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں کے اندر سے ہونے والی غداری کا نتیجہ بھی ہیں۔
نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ’سیاسی انجینئرنگ کا ایک مربوط آپریشن‘ کیا گیا، جس میں پی ٹی آئی کی قیادت، عدالتی فیصلے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی کارروائیاں شامل تھیں تاکہ پارٹی کے بانی کو سیاست سے ہٹایا جا سکے۔
’خود پر لگایا گیا زخم‘
نیاز اللہ نیازی کی گفتگو اس وقت سامنے آئی ہے جب مخصوص نشستوں سے متعلق آئینی بینچ کے فیصلے کا پس منظر موجود ہے۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات کو خود پر لگایا گیا زخم قرار دیا، اور مخصوص نشستوں کے عدالتی فیصلے کو اندرونی غلطیوں اور عدالتی عمل کی انجینئرنگ کا نتیجہ قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیاز اللہ نیازی (جو پی ٹی آئی کے فیڈرل چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اندرونی انتخابات کی نگرانی کر رہے تھے) نے پارٹی کی قیادت کے ایک گروپ پر ان غلطیوں کا الزام لگایا، جن کے باعث پارلیمان میں پارٹی کی عددی طاقت ٹوٹ گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کی جانب سے نصف درجن سے زائد امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا الیکشن کمیشن کو نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے قانونی جواز فراہم کر گیا، اور آخرکار سپریم کورٹ نے پارٹی کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔
ان افراد میں اکبر ایس بابر، محمود خان، نرین فاروق، بلال اظہر رانا، محمد مزمل سندھو، احمد حسن، محمد یوسف، اور اسد اللہ خان شامل تھے۔
اکبر ایس بابر (جنہوں نے پارٹی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کا کیس بھی دائر کیا تھا) کے سوا دیگر امیدوار سیاسی طور پر نمایاں شخصیات نہیں تھے۔
پی ٹی آئی اور اکبر ایس بابر کے درمیان تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے، اور وہ جب سے پارٹی سے نکالے گئے، ہر قانونی راستہ آزما چکے ہیں تاکہ پارٹی پر اپنا دعویٰ قائم کر سکیں۔
لیکن نیاز اللہ نیازی نے دعویٰ کیا کہ ان امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کا فیصلہ ان سے مشورہ کیے بغیر کیا گیا تھا۔
انہوں نے اسے اندرونی تخریب کاری کی سوچی سمجھی کارروائی قرار دیا، کیوں کہ یہی افراد بعد میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے، ان کی گواہی ان وجوہات میں شامل تھی جن کی بنیاد پر اُس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیا۔
پی ٹی آئی کے اپنے انتخابی فریم ورک کے مطابق، امیدواروں کو پینل کی صورت میں الیکشن لڑنا ہوتا ہے، نیاز اللہ نیازی کے مطابق اگر ان افراد کو الیکشن میں حصہ لینے دیا جاتا، تو ان کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال میں مسترد ہو جاتے، اور یوں انتخابی عمل کی قانونی حیثیت محفوظ رہتی۔
نیازی نے بتایا کہ وہ 2009 اور 2012 میں بھی کامیابی سے پارٹی کے اندرونی انتخابات کروا چکے ہیں، جب وہ پی ٹی آئی اسلام آباد کے ریجنل ہیڈ تھے، اور ان انتخابات کو الیکشن کمیشن نے منظور بھی کیا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پہلے یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان 8 امیدواروں کی الیکشن میں دلچسپی کا علم ہی پولنگ کے دن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی بانی تمام تر مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن کچھ قائدین اب بھی اسٹیبلشمنٹ-عدلیہ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے اور اپنے قید رہنما کو ریلیف دلانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے بجائے، جمود کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مجھے نااہلیوں کا علم پولنگ کے دن ہی ہوا، اس بات کو مجھ سے چھپایا گیا، اور یہ ایک سوچا سمجھا عمل تھا، بعد میں انہوں نے یہ معاملہ پارٹی قیادت کے سامنے اٹھایا، لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اب جا کر یہ بات کیوں کی، تو ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔
نیازی کے ان دعوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے پارٹی کے لوگوں کے بجائے نظام کو ذمہ دار ٹھہرایا، اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں کوئی بھی عمران خان کو مائنس کرنا نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ علیمہ خان نے بھی وضاحت کی ہے کہ وہ نظام کی بات کر رہی تھیں، نہ کہ پی ٹی آئی کی شخصیات کی، یہ حقیقت ہے کہ نظام کافی عرصے سے عمران خان کو مائنس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزیدپڑھیں:پاکستانی فنکاروں کا نوحہ خوانی کے ذریعے حضرت امام حسینؓ کو خراجِ عقیدت
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اندرونی انتخابات نیاز اللہ نیازی عمران خان کو پی ٹی آئی کے نے کہا کہ انہوں نے نے پارٹی کہ پارٹی پارٹی کے کا نتیجہ قرار دیا نیازی نے
پڑھیں:
پشاور KPK کابینہ کی تشکیل پر عمران خان کی ہدایات نظر انداز؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خیبر پختونخوا میں نئی صوبائی حکومت نے 13 رکنی کابینہ بنا لی ہے۔
تاہم پارٹی ذرائع کے مطابق یہ کابینہ عمران خان کی اصل ہدایات کے خلاف تشکیل دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے واضح پیغام دیا تھا کہ کابینہ زیادہ سے زیادہ 5 سے 8 وزراء پر مشتمل ہو اور کابینہ “سنگل ڈیجٹ” میں رکھی جائے، لیکن اس کے باوجود 13 وزراء کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جمعہ کے روز گورنر کے پی نے کابینہ سے حلف بھی لیا۔
پارٹی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ عمران خان نے کچھ مخصوص ناموں کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، جن میں:
عاقب اللہ خان (اسد قیصر کے بھائی)
فیصل ترکئی (شہرام ترکئی کے بھائی)
سابق وزیر شکیل خان
لیکن اس کے باوجود ان ناموں کو شامل کر لیا گیا۔ اسی وجہ سے پارٹی کے اندر ایک بار پھر مشاورت اور فیصلوں کے درمیان اختلافات سامنے آرہے ہیں۔
دوسری جانب صوبائی وزیر مینا خان آفریدی نے اس تاثر کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے صرف یہ کہا تھا کہ کابینہ مختصر رکھی جائے، تاہم سہیل آفریدی کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی ٹیم خود منتخب کریں۔ مینا خان نے مزید کہا کہ:
کابینہ میں ردوبدل کسی بھی وقت ممکن ہے
عمران خان اگر کہیں تو کوئی بھی تبدیلی ہو سکتی ہے
کابینہ میں سینئر بھی موجود ہیں اور نوجوانوں کو بھی جگہ دی گئی ہے
اس صورتحال نے ایک بار پھر سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا پارٹی قیادت کی ہدایات پر عمل ہو رہا ہے یا صوبائی سطح پر فیصلے اپنی مرضی سے کیے جا رہے ہیں۔