بغدادی میں عمارت گرنے کے واقعے کے ذمہ دارمستعفی ہوں، نبیل گبول کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
لیاری میں عمارت گرنے کے مقام کے دورے کے دوران لیاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بدعنوان ادارہ ہے، ڈی جی ایس بی سی اے اُن کا فون تک نہیں اٹھاتے۔ اسلام ٹائمز۔ لیاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے بغدادی میں عمارت گرنے کے واقعے کے ذمہ داروں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ عمارت گرنے کے مقام کے دورے کے دوران نبیل گبول کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) بدعنوان ادارہ ہے، ڈی جی ایس بی سی اے اُن کا فون تک نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ کیا سعید غنی سے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کریں۔؟ کہا جاتا ہے ایس بی سی اے کا ڈی جی ڈان ہے، اس کو کچھ کہیں گے تو اوپر سے فون آجائے گا۔
راہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ جب سے ایم این اے بنا ہوں کئی عمارتیں گروائیں، 3 ماہ بعد دوبارہ تعمیر ہوجاتی ہیں، دو چار افسران کو میں نے ٹرانسفر بھی کرایا، وہ بلڈر سے پیسے لیتے ہیں۔ نبیل گبول نے مزید کہا کہ لوگ غیر قانونی تعمیرات کی طرف کیوں جاتے ہیں، لوگوں کو شعور دینا ہے، 122 عمارتوں کے خلاف کیسے آپریشن کریں گے، لوگوں کو گھروں سے نکالنا مذاق نہیں، بہت بڑا آپریشن ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمارت گرنے کے ایس بی سی اے نبیل گبول
پڑھیں:
کراچی: لیاری میں 5 منزلہ خستہ حال عمارت گرنے سے 13 افراد جاں بحق، امدادی کارروائیاں جاری
لیاری کے علاقے بغدادی میں جمعہ کی صبح ایک خستہ حال 5 منزلہ رہائشی عمارت زمیں بوس ہوگئی، افسوسناک واقعے میں اب تک 13 افراد جاں بحق اور 9 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ کئی افراد تاحال ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
ریسکیو ادارے ایدھی اور ریسکیو 1122 کے مطابق حادثہ بغدادی کے علاقے 8 چوک میں 24 گھنٹہ کلینک کے قریب پیش آیا۔ سول اسپتال کراچی اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹراما کے مطابق 9 لاشیں اسپتال لائی گئیں، جبکہ 4 افراد دورانِ علاج دم توڑ گئے۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے جاں بحق افراد کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مرنے والوں میں 2 خواتین اور متعدد مرد شامل ہیں۔ جاں بحق افراد میں فاطمہ دختر بابو (55 سال)، پریم (32 سال)، وسیم ولد بابو (35 سال)، حور بائی دختر کشن (55 سال)، پرانتک ولد آرسی (21 سال) اور دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر صابر میمن کے مطابق 6 زخمیوں کو طبی امداد دی گئی جن میں سے 5 کی حالت بہتر ہے جبکہ ایک زخمی کی حالت تشویشناک ہے۔ زخمیوں میں راشد، یوسف، سنیتہ، فاطمہ اور چندہ شامل ہیں۔
ایس ایس پی سٹی نے بتایا کہ اب تک ملبے سے 7 لاشیں اور 8 زخمیوں کو نکالا گیا ہے، جبکہ 20 سے 25 افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے تصدیق کی ہے کہ بھاری مشینری کے ذریعے ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔
ریسکیو اداروں کو موبائل سگنلز کی بندش کے باعث اطلاع دیر سے ملی۔ تنگ گلیوں اور گھنے رہائشی علاقے کے باعث امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں، جبکہ مقامی افراد اور فلاحی تنظیمیں بھی اپنی مدد آپ کے تحت امداد فراہم کر رہی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق عمارت میں 12 سے زائد فلیٹس اور نیچے دکانیں تھیں جو واقعے کے وقت کھلی تھیں۔
وزیر بلدیات سعید غنی نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے متعلقہ افسران کو معطل کر دیا ہے اور 3 روز میں رپورٹ پیش کرنے والی تحقیقات کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
وزیر بلدیات نے بتایا کہ متاثرہ عمارت کو 2 جون 2025 کو خطرناک قرار دے کر آخری نوٹس جاری کیا گیا تھا، یوٹیلٹی سروسز ختم کرنے کے لیے خطوط بھی ارسال کیے گئے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مئی 2024 میں بھی عمارت خالی کرنے کا خط جاری کیا گیا تھا۔
وزیر بلدیات نے کہا کہ امدادی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے، اور تمام ادارے موقع پر موجود رہ کر کام کی نگرانی کریں۔ ان کے مطابق ہماری اولین ترجیح ملبے تلے دبے افراد کو نکالنا اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنا ہے۔
وزیراعلیٰ، صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا اظہار افسوس
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو فوری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور خستہ حال عمارتوں کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔ انہوں نے سندھ حکومت کو امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جاں بحق افراد کے لیے دعا اور ورثا سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور ریسکیو آپریشن تیز کیا جائے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔
شہر میں 570 سے زائد خطرناک عمارتیں موجود
واضح رہے کہ دسمبر 2024 میں سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو ہنگامی طور پر خالی کرایا جائے۔ SBCA کے مطابق:
کراچی میں 570 عمارتیں خطرناک ہیں
حیدرآباد میں 80
میرپور خاص میں 81
سکھر میں 67
لاڑکانہ میں 4 عمارتیں مخدوش قرار دی گئی تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں