روہنگیا تو زمین کا بوجھ ہیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
یوکرین اور فلسطین پونے تین برس سے عالمی ذرایع ابلاغ کے ریڈار پر یقیناً میرٹ کی بنیاد پر چھائے ہوئے ہیں۔مگر اس کے نتیجے میں دیگر المیوں کو نہ ہونے کے برابر کوریج مل رہی ہے جن میں لاکھوں انسان زندگی اور موت کے درمیان جھولتی الگنی سے لٹک رہے ہیں۔
مثلاً سوڈان میں اپریل دو ہزار تئیس سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں لوگوں کی بے گھری ، ہزاروں ہلاکتیں اور اجتماعی ریپ بطور ہتھیار عالمی میڈیا کی فرنٹ لائن خبر ہی نہیں۔
ان المیوں کے بیچ پچھلی ایک دہائی سے بالخصوص اگر دنیا میں کوئی اقلیت لاوارث ترین کہی جا سکتی ہے تو وہ میانمار کے روہنگیا ہیں۔ اکثر نے سرحد پار بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے۔
مگر اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزینان ( یو این ایچ سی آر ) اور دیگر فلاحی و انسانی حقوق تنظیموں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود روہنگیوں کی حالت سال بہ سال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش نے کچھ عرصے تو میانمار کی سرحد سے متصل چٹاگانگ اور کاکسس بازار کے سرحدی علاقے میں قائم کیمپوں میں ان کی میزبانی کی۔مگر سابق حسینہ واجد حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری دور میں ان کیمپوں میں رہنے والوں کو خلیج بنگال کے دو نسبتاً غیر آباد جزیروں میں منتقل کرنے کی کارروائی کی اور ہزاروں پناہ گزینوں کو جبراً ایسے ماحول میں دھکیل دیا گیا جہاں زندہ رہنے سے بہتر مرنا طے پایا۔
اور پھر حسبِ توقع اس جہنم سے فرار ہو کر نامعلوم منزلوں کی طرف سفر کرنے والے روہنگیوں کی کشتیاں ڈوبنے کی خبریں آنے لگیں۔گزشتہ مئی کی اٹھائیس تاریخ کو پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے تصدیق کی کہ نو اور دس مئی کو دو کشتیوں میں سوار چار سو ستائیس روہنگیا مرد ، عورتیں ، بچے خلیجِ بنگال میں میانمار کے ساحل کے قریب ڈوب گئے۔ صرف ستاسی زندہ بچے۔
کسی ایک حادثے میں اتنے روہنگیوں کی ہلاکت پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ابھی یہ تصدیق ہونی ہے کہ ان کشتیوں میں میانمار سے فرار ہونے والے تارکِ وطن تھے یا بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں سے فرار ہونے والے روہنگیا تھے۔
دو ہزار سترہ میں میانمار کی فوج اور دائیں بازو کے متشدد بودھ گروہوں کے مظالم سے بچنے کے لیے سرحدی صوبے رخائن سے دس لاکھ سے زائد روہنگیا نے جبری نقلِ مکانی کی۔اس برس اپریل میں میانمار حکومت نے ان میں سے ایک لاکھ اسی ہزار پناہ گزینوں کو اپنا قانونی شہری تسلیم کر لیا۔
چنانچہ بنگلہ دیشی حکومت نے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔تاہم ان میں سے کوئی بھی واپس جانے کو تیار نہیں۔ ان کا سب کچھ پہلے ہی چھن چکا ہے اور واپسی کی صورت میں بھی وہ خوف کی اسی مسلسل کیفیت میں زندگی کاٹیں گے جس سے ڈر کے آٹھ برس پہلے بھاگے تھے۔
بقول ایک روہنگیا کارکن ہم میانمار کے بجائے کسی بھی جہنم میں خوشی خوشی رہنے کو تیار ہیں۔ان میں سے بہت سے اب ڈیپورٹیشن کے ڈر سے بنگلہ دیش سے بھی بھاگ رہے ہیں۔کچھ خوش قسمت سمندر کی لہروں پر ہچکولے کھاتے کھاتے تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتے ہیں اور بہت سے راستے میں ڈوب جاتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ میں اسلامی کانفرنس تنظیم کے مغربی افریقی رکن گیمبیا نے پیش کش کی کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنانے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ متمول ممالک منتقلی کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ ایک بھی مسلمان ملک گیمبیا کی مدد کو نہیں آیا۔( کاش گیمبیا کے صدر کا نام ٹرمپ ہوتا تو اس کی جیبیں اتنی بھر دی جاتیں کہ پھٹ جاتیں )۔
حالیہ برسوں میں کئی ہزار روہنگیا بھارت بھی آن پہنچے۔ان میں سے اکثر کو آسام اور جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا۔یہ سب یو این ایچ سی آر سے رجسٹرڈ ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی عالمی تنظیمیں اٹھاتی ہے۔
مگر ان کی اکثریت کو شکائیت ہے کہ حکومت چونکہ ہمیں بن بلائے مہمان سمجھتی ہے لہٰذا بھارتی میڈیا اکثر ان کے مسلمان ہونے کے ناتے دھشت گرد ہونے کا تاثر پھیلاتا رہتا ہے۔پولیس رقم اینٹھنے کے لیے جھوٹے مقدمات بناتی رہتی ہے اور گرفتاریاں بھی کرتی ہے۔مقصد یہی ہے کہ کسی طرح روہنگیا یہاں سے کہیں بھی چلے جائیں۔
اس پس منظر میں ڈیڑھ ماہ قبل بھارت سے ایسی خبر آئی جس نے یو این ایچ سی آر سمیت انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں کو جھنجھوڑ ڈالا ۔ہوا یوں کہ چھ مئی کو رات گئے دہلی پولیس نے لگ بھگ ایک سو روہنگیا پناہ گزینوں کو تین علاقوں سے اٹھایا اور یہ بتا کر تھانے لے گئے کہ ہم آپ کو فنگر پرنٹس لے کر چھوڑ دیں گے۔ان میں عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، بیمار سب ہی شامل تھے اور سب کے سب اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں میں رجسٹرڈ تھے۔
اگلے چوبیس گھنٹے ان سب کو بلا وارنٹ مختلف تھانوں میں رکھا گیا اور کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ پھر انھیں ایک نظربندی مرکز میں یکجا کیا گیا۔ان کے فنگر پرنٹس لیے گئے۔ان میں سے اڑتیس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے اور ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کے بذریعہ طیارہ جزائر انڈمان کے دارالحکومت پورٹ بلئیر پہنچایا گیا۔
پھر انھیں بحریہ کے ایک جہاز پر منتقل کیا گیا۔ مارا پیٹا گیا اور میانمار کی بحری حدود میں لائف جیکٹس دے کر سمندر میں اتار دیا گیا۔ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کو انڈونیشیا کی سمندری حدود میں چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ لوگ بارہ گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد بھی ساحل تک زندہ پہنچ گئے اور باقیوں کی قسمت نامعلوم ہے۔
دہلی میں دو وکلا نے سپریم کورٹ میں ان روہنگیوں کے اغوا کی درخواست دی ہے اور حکومتِ بھارت کو فریق بنایا ۔درخواست میں کہا گیا کہ پناہ گزینوں کو خاموشی سے سمندر میں دھکیلنے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ملک بدری کے بین الاقوامی قواعد و ضوابط پوری طرح پامال کیے گئے۔اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اہلکار واردات کی چھان پھٹک کر کے اپنی رپورٹ مرتب کر رہے ہیں۔
اب تک تو ہم یہ سنتے آئے تھے کہ انسانی اسمگلرز بیچ سمندر میں انسانوں کو پھینک دیتے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست نے اس طرح کا جرم کیا ہو۔ حقائق سامنے آبھی گئے تو کیا فرق پڑے گا ؟ روہنگیا تو ویسے بھی زمین کا بوجھ ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یو این ایچ سی ا ر پناہ گزینوں کو میں میانمار بنگلہ دیش رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭