تمباکونوشی ترک کرنیکی کوششوں کو حصہ بنانا چاہیے ،ٹی ایچ آر
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان کو ٹوبیکو ہارم ریڈکشن (ٹی ایچ آر)اور تمباکونوشی ترک کرنے کی ارزاں خدمات و سہولیات کو ٹوبیکو کنٹرول کی قومی کوششوں کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ملک میں تمباکو کی مصنوعات کے بڑھتے استعمال پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ان بالغ تمباکونوشوں کی مدد کی جا سکے جو روائتی طریقوں سے اپنی اس عادت کو ترک کرنے میں ناکام ہیں۔آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشی ایٹیو (اے آر آئی)اور اس کی ممبر تنظیم(ہیومینٹیرین آرگنائزیشن فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پاکستان (HOSDP) نے ایک مشترکہ بیان میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے صحت عامہ کے تحفظ کیلئے پاکستان کو شواہد پر مبنی جدید سائنسی طریقوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ٹی ایچ آر تمباکو کے نقصانات میں کمی لانے کا ایک جدید سائنسی تصور ہے جس کے مطابق اگر نکوٹین کے حصول کیلئے ایسی محفوظ مصنوعات یا طریقوں کا استعمال کیا جائے جن میں تمباکو کا جلنا شامل نہ ہو تو نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ اے آر آئی اور ( ہیومینٹیرین آرگنائزیشن فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پاکستان) کا کہنا ہے اگر انسداد تمباکونوشی کی موجودہ کوششوں میں جدید سائنسی طریقوں کو شامل کیا جائے تو تمباکو سے پاک پاکستان کا حصول ممکن ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کے باوجو د تمباکونوشی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں تین کروڑ دس لاکھ افراد مختلف شکلوں میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے ایک کروڑ ستر لاکھ سگریٹ نوش ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں تمباکونوشی ترک کرنے کی ناکافی خدمات و سہولیات کی وجہ سے ایک سال میں تین فیصد سے بھی کم تمباکونوش اپنی اس عادت کو چھوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔انہوں نے حکومت کی موجودہ کاوشوں میں تعاون کی فراہمی کا اعادہ کرتے ہوئے پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ تمباکونوشی ترک کرنے میں ٹی ایچ آر کے کارآمد ہونے سے متعلق عالمی سطح پر سامنے آنے والے شواہد کا جائزہ لیں۔بیان میں سویڈن کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو دنیا کا پہلا تمباکو سے پاک ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ جس ملک کے بالغ افراد میں تمباکو کے استعمال کی شرح 5 فیصد سے کم ہو جائے تو اسے تمباکو سے پاک ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ سویڈن نے صرف گزشتہ 15 برس کے دوران تمباکو کی متبادل کم نقصان دہ مصنوعات کے طور پر سنوس، نکوٹین پاجز اور ویپ کے استعمال کی توثیق کی اور تمباکونوشی کی شرح 15 فیصد سے 5.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تمباکونوشی ترک میں تمباکو ٹی ایچ ا ر
پڑھیں:
پاکستان میں کینسرکیوں تیزی سے پھیل رہا ہے، اس سےکیسے محفوظ رہا جائے؟
کینسر دنیا بھر میں موت کی ایک بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے، اور پاکستان میں بھی یہ ایک تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ہے۔ اس مہلک بیماری کی شدت، شرح اموات، اور پیچیدہ علاج نے نہ صرف مریضوں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی ذہنی، جسمانی اور مالی بحرانوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس مضمون میں ہم پاکستان میں کینسر کی موجودہ صورت حال، اسباب، عوامی احتیاطی تدابیر، اور حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے۔
آغا خان یونیورسٹی کی مرتبہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ پچاسی ہزار (185,000) افراد کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ نیشنل کینسر رجسٹری آف پاکستان کی حالیہ مرتبہ رپورٹ کے مطابق اندازاً سوا لاکھ (125,000) کے قریب لوگ اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
عورتوں میں چھاتی کا کینسر سب سے عام ہے، جبکہ مردوں میں منہ، پھیپھڑوں، اور جگر کا کینسر زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر مریض اس وقت علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں جب بیماری اپنے آخری مراحل میں ہوتی ہے، جس سے علاج کی کامیابی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں کینسر کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
تمباکو نوشی اور نسوار کا استعمال: سگریٹ، گٹکا، نسوار اور پان کے استعمال سے منہ، گلے، اور پھیپھڑوں کا کینسر عام ہوتا جا رہا ہے۔
غیر صحت مند خوراک: پراسیسڈ فوڈ، چکنائی سے بھرپور اشیاء اور آلودہ پانی کا استعمال بھی کینسر کے خطرات کو بڑھاتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی: صنعتی فضلہ اور آلودہ پانی، خاص طور پر شہری علاقوں میں، ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔
وائرس اور انفیکشنز: ہیپاٹائٹس بی اور سی، اور HPV جیسے وائرس بھی کینسر کے اہم اسباب ہیں۔
شعور اور تعلیم کی کمی: عوام کی اکثریت کینسر کی ابتدائی علامات اور اسکریننگ کی اہمیت سے لاعلم ہے۔
کینسر سے بچاؤ اور اس کا بروقت علاج عوامی سطح پر چند بنیادی اقدامات کے ذریعے ممکن ہے:
آگاہی پیدا کرنا: لوگوں کو کینسر کی علامات، اسباب اور علاج کے بارے میں شعور دینا انتہائی ضروری ہے۔
تمباکو نوشی سے اجتناب: سگریٹ، نسوار، گٹکا، اور حقہ جیسی اشیاء کا استعمال ترک کرنا چاہیے۔
باقاعدہ طبی معائنہ: خاص طور پر خواتین کو چھاتی کے کینسر کی اسکریننگ کرانی چاہیے۔
صحت مند طرزِ زندگی اپنانا: متوازن غذا، ورزش، نیند اور ذہنی سکون کینسر سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ویکسینیشن: HPV اور ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین مہلک وائرس سے بچاؤ فراہم کرتی ہے۔
کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ موثر اور دیرپا پالیسی سازی کرے:
قومی سطح پر آگاہی مہمات: میڈیا، اسکولوں، اور کمیونٹی سینٹرز میں معلوماتی مہمات چلائی جائیں۔
کینسر رجسٹری قائم کرنا: ایک جامع ڈیٹا بیس بنایا جائے تاکہ مرض کی شدت اور اقسام کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔
سرکاری اسپتالوں میں مفت یا سبسڈی شدہ علاج: غریب اور متوسط طبقے کے لیے سستا اور معیاری علاج مہیا کیا جائے۔
ہر ضلع میں اسکریننگ سینٹرز کا قیام: خاص طور پر دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات مہیا کی جائیں۔
انسدادِ تمباکو پالیسی: تمباکو مصنوعات پر سخت پابندیاں اور بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں۔
تحقیق اور تربیت کا فروغ: مقامی سطح پر تحقیق کو فروغ دیا جائے اور ماہر طبی عملے کی تربیت کی جائے۔
کینسر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے صرف طبی میدان میں نہیں، بلکہ معاشرتی اور حکومتی سطح پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر عوام اور حکومت مل کر اس بیماری کے خلاف مؤثر اقدامات کریں، تو نہ صرف اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ ہزاروں قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
آگاہی، احتیاط، اور بروقت علاج ہی کینسر کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔
Post Views: 7