خلانورد نے خلا سے زمین پر نایاب برقی مظہر کی تصویر بنالی
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
زمین پر رونما ہونے والے غیر معمولی سائنسی مظاہر ہمیشہ سے انسان کے لیے تجسس کا باعث رہے ہیں، لیکن جب انہی مظاہر کو خلا سے براہِ راست عکس بند کیا جائے تو یہ مشاہدہ نہ صرف حیرت انگیز ہوتا ہے بلکہ سائنسی تحقیق کے لیے بھی ایک قیمتی سرمایہ بن جاتا ہے۔
حالیہ دنوں ایک ایسا ہی غیر معمولی لمحہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر موجود ایک امریکی خلانورد نے خلا سے ایک نایاب برقی مظہر کی حیران کن تصویر کھینچی، جسے سائنسی اصطلاح میں ’’اسپرائٹ‘‘کہا جاتا ہے۔
یہ واقعہ 3 جولائی کو پیش آیا جب نِکول ’ویپر‘ آئیرز، جو اس وقت خلائی مشن ایکسپیڈیشن 73 پر فلائٹ انجینئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے میکسیکو کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔
اس دوران انہیں زمین کے بالائی ماحول میں اچانک ایک سرخ روشنی کا دھماکا سا دکھائی دیا، جو دراصل ایک ’اسپرائٹ‘تھا۔ اس منظر کو دیکھتے ہی انہوں نے فوری طور پر اس کی تصویر لے کر سائنسی برادری کو حیران کر دیا۔
نِکول نے یہ تصویر سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی اور بتایا کہ یہ اسپرائٹس دراصل زمین پر شدید طوفانی برقی سرگرمیوں کے نتیجے میں بنتے ہیں، جن کا مشاہدہ محض مخصوص موسمی حالات میں ہی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مظہر زمین کے طوفانی بادلوں سے اوپر، تقریباً 50 سے 90 کلومیٹر کی بلندی پر پیدا ہوتا ہے اور لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے، اس لیے ان کا مشاہدہ انتہائی مشکل سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات اور موسمیات کے مطابق اسپرائٹس وہ غیرمرئی برقی چمک ہوتی ہے جو شدید آسمانی بجلی کی وجہ سے زمین کے برقی میدان میں اچانک تبدیلی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ ان مظاہر کا رنگ عام طور پر سرخ یا نیلا ہوتا ہے اور یہ بہت مختصر وقت کے لیے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن ان کی توانائی انتہائی طاقتور ہوتی ہے۔
اب تک اسپرائٹس کے مشاہدات زمین سے ہی کیے جاتے تھے، لیکن نِکول آئیرز کی کھینچی گئی یہ تصویر خلا سے لی جانے والی ان نایاب جھلکوں میں سے ایک ہے جو سائنس دانوں کے لیے ان مظاہر کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
نِکول آئرز کا تعلق امریکی خلائی ادارے ناسا سے ہے اور وہ رواں سال اپریل میں شروع ہونے والے ایکسپیڈیشن 73 مشن کا حصہ ہیں، جو نومبر 2024 میں مکمل ہوگا۔
ان کی یہ دریافت نہ صرف سائنسی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی گواہی ہے کہ خلا میں موجود انسانی آنکھ کس قدر قیمتی اور کارآمد ہو سکتی ہے۔ زمین سے ایسے مظاہر کو نہایت مشکل سے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، لیکن خلانوردوں کی مدد سے ہمیں زمین کے ماحول کے ایسے زاویے دیکھنے کو ملتے ہیں جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی نِکول کی جانب سے شیئر کی گئی اس تصویر پر حیرت کا اظہار کیا اور اسے ایک بصری شاہکار قرار دیا۔ ناسا نے بھی اس تصویر کو سائنسی ذخیرے میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مستقبل میں اسپرائٹس پر مزید تحقیقات ممکن بنائی جا سکیں۔
اس واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ خلا سے زمین کا مشاہدہ نہ صرف خوبصورت بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی بے حد مفید اور ضروری ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جاتا ہے زمین کے کے لیے خلا سے
پڑھیں:
لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایری گیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذاکر سیال نے خبردار کیا ہے کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔
ان کے مطابق شہر کی گلیاں، بازار اور گرین بیلٹس پختہ کر دی گئی ہیں جس کے باعث زمین بارش کے پانی کو جذب نہیں کر پا رہی۔ نتیجتاً لاہور کے ’’قدرتی پھیپھڑے‘‘ بند ہو گئے ہیں اور بارش کا پانی ضائع ہو کر نالوں اور گٹروں میں بہہ جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے بھی زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہو سکی اور صرف 15 لاکھ لیٹر پانی مصنوعی طریقے سے ری چارج کیا گیا، جب کہ باقی تمام پانی نکاسی کے نظام میں ضائع ہو گیا۔ یہ صورتحال لاہور کے لیے نہایت خطرناک ہے کیونکہ شہر میں پانی کی دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر سیال نے کہا کہ لاہور میں اس وقت پینے کا صاف پانی 700 فٹ کی گہرائی سے نکالا جا رہا ہے۔ شہر میں 1500 سے 1800 ٹیوب ویل چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں، جس سے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق بارش کے پانی کا صرف تین فیصد حصہ زیر زمین واٹر ٹیبل کو ری چارج کرتا ہے، جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پانی کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے ری چارجنگ کنویں بنانا ناگزیر ہیں، جب کہ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی تعمیر بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر آنے والے سالوں میں لاہور کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔