ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کے اقتدارف پر قابض ہونے والے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اور رجعت پسندانہ دور میں جب سچ لکھنا اور بولنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا، تب معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر نے حق گوئی کا علم بغاوت بلند کیا اور اپنے قلم کو ایک شمشیر بے نیام کی صورت استبداد کے سینے میں پیوست کر دیا۔
پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ صحافت کے ممتاز استاد، وارث میر ان معدودے چند اہلِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے پاکستانی تاریخ کے ایک سیاہ ترین دور میں صدائے حق بلند کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ جانتے تھے کہ لکھنے والا صرف اپنے عہد کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے تاریخ کی شمع بھی روشن کرتا ہے۔ لیکن جب حالات اس قدر مسموم ہوں کہ سچ بولنا گناہ قرار پائے، تو ایک لکھاری کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑا رہے۔ وارث میر نے ایسا ہی کیا۔
جنرل ضیاء کی آمریت نے ریاستی بیانیے کو انتہاپسندی اور سامراجیت کا لبادہ پہنا کر پاکستانی عوام کے اذہان پر قبضہ جمانے کی جو کوشش کی، پروفیسر وارث میر نے اْس کا پردہ چاک کیا۔ضیاء الحق رجیم پاکستان کو ایک رجعت پسندریاست میں تبدیل کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے اس نے پورا کام بھی کیا اور اسے دائیں بازو کے لوگوں کی مکمل مدد اور سپورٹ بھی حاصل تھی لیکن پروفیسر وارث میر ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کی استعماریت اور رجعت پسندنظریات کے خلاف صف آرا تھے۔
رجعت پسند نظریات کو سرکاری طاقت سے قوم پر مسلط کیا جا رہا تھا۔اس دور میں درباری صحافی یہ چورن بیچ رہے تھے کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک بنیاد پرست مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے، اور یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 کی قومی اتحاد کی احتجاجی تحریکِ جسے تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا‘ درحقیقت ایک عوامی استصواب تھا۔
پروفیسر وارث میر نے اس سرکاری جھوٹ کو اپنی علمیت، تحقیق، اور تاریخی حوالوں سے چیلنج کیااور اس کا پردہ بے نقاب کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ضیاء حکومت کی مسلط کردہ آمریت اور قوانین نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روحِ سے بھی میل نہیں کھاتے۔ انھوں نے اسلام کی غلط تشریح کرنے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ اسلام ضیائی آمریت کی تنگ نظری کا قائل نہیں بلکہ روشن خیالی کا قائل ہے اور جس میں اجتہاد کی گنجائش بھی موجود ہے۔
پروفیسر وارث میر کی تحریریں ایک وسیع تر فکری جدوجہد کا حصہ تھیں، جس میں عوام کے آزادی اظہار، جمہوریت، سیکولرازم، آمریت، غیر جماعتی انتخابات، آئینی ترامیم اور انسانی حقوق جیسے موضوعات شامل تھے۔ ضیاء الحق نے پاکستان کے کلچر اور نظام تعلیم کو تباہ کرنے کے لیے جو کچھ کیا ،خواتین کے حوالے سے ضیاء الحق کے جو خیالات تھے ‘پروفیسر وارث میر نے علمی بنیادوں پر اس کی نفی کرتے ہوئے جوابات دیے۔
9جولائی 1987کو صرف 48 برس کی عمر میں اپنی اچانک موت تک، پروفیسر وارث میر اپنے قلم کے ذریعے روشن خیالی اور ترقی پسندی کی ایک نئی روایت رقم کرتے رہے۔ اْن کی تحریریں نہ صرف فکری بلندی کی آئینہ دار تھیں بلکہ ان میں مغرب کی فکری روایت، انسانی حقوق، اور شہری آزادیوں پر مدلل بحث کے ساتھ یہ پہلو بھی موجود تھا کہ ان اصولوں کو پاکستانی سیاق میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہ تحریریں سیکولر فکری زاویے کی حامل تھیں، جو تب کی ریاستی سوچ کے برعکس تھیں اور اسی لیے حکمران کے لیے باعثِ اضطراب بھی تھیں۔ چنانچہ انھیں جنرل ضیا کے حواریوں کی جانب سے غدار اور ملک دشمن قرار دیا جانے لگا۔
پروفیسر وارث میر کو ضیاء جنتا کے خلاف بغاوت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ انھیں نہ صرف پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا، بلکہ اْنہیں فوجداری کیسوں میں بھی الجھا دیا گیا۔ لیکن ان مشکل ترین حالات میں بھی انھوں نے بڑی جرات مندی کے ساتھ آمرانہ اقتدار کی مخالفت کی اور اسلام کے نام پر اپنے آمرانہ اقتدار کو طول دینے کی ضیائی کوششوں کو بے نقاب کیا، پروفیسر وارث میر چاہتے تھے کہ مسلمان، بالخصوص پاکستانی، جدید سائنسی علوم حاصل کریں اور سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنائیں۔ ان کی جنگ دراصل جہل، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ زندگی بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا تھا۔
وارث میر کو ہم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گے مگر آج بھی ان کی پر مغز اور فکر انگیز تحریوں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے جن بھی موضوعات پر لکھا، وہ آج بھی تازہ ہی لگتے ہیں حالانکہ ان کے دور میں ذرایع ابلاغ محدود تھے، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یوٹیوب، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتے ہوئے سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو۔ اس دور میں اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی۔
پاکستان میں ایسے دانشور کم ہی گزرے ہیں جنھوں نے اپنے نظریات کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ہو۔ پروفیسر وارث میر کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی آخری سانس بھی اپنے نظریات کے پرچار کی نذر کردی۔ اپنی ایک تحریر میں انھوں نے قدیم یونانی دیو مائی داستان کے یونانی دیوتا پرومی تھیئس کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ: ’’اگر سینے میں دل ہو گا، تو اسے نوچنے کے لیے گدھ بھی آئیں گے‘‘۔ بلاشبہ، پروفیسر وارث میر کے سینے میں بھی ایک بہادر دل تھا، لہٰذا اسے نوچنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وارث میر آخری دم تک لڑتے ہوئے وہیں اپنے مورچے میں مارا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پروفیسر وارث میر نے ضیاء الحق انھوں نے کے خلاف اور اس ا مریت بلکہ ا کے لیے
پڑھیں:
سول جج لاہور محمد رمضان ڈھڈی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
لاہور (نیوز ڈیسک) سول جج لاہور محمد رمضان ڈھڈی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع کے مطابق محمد رمضان ڈھڈی گیارہ سال، چار ماہ اور سات دن اس منصب پر فائز رہے، رمضان ڈھڈی نے ذاتی وجوہات کی بنا پر عہدے سے استعفی دیا۔
رمضان ڈھڈی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اب میں نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، میں دل کی گہرائیوں سے اپنے ساتھیوں اور سینئرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔