Express News:
2025-07-09@03:23:55 GMT

دور کے ڈھول سہانے

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

سویرا 30 سالہ غریب عورت کا شوگر لیول خطرناک حد تک بڑھنے اور جسم پر پھوڑے نکلنے کے مرض کے علاج کے لیے کراچی کے ایک سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے مریضہ کے معائنہ کے بعد اس کو میڈیکل وارڈ میں داخل ہونے کی ہدایت کی۔

مریضہ کو طویل انتظار کے بعد میڈیکل وارڈ منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے مریضہ کا علاج شروع کیا اور لواحقین کو ہدایت کی کہ وہ شوگر جانچنے کے لیے اسٹرپ، انجکشن لگانے کے لیے سرنج اور انسولین بازار سے خرید کر لائیں۔ یہ خاندان اتنا غریب ہے کہ اس مریضہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر اورکئی میل کا فاصلہ طے کر کے اسپتال لایا گیا، چونکہ ان لوگوں کو مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی ایمبولینس سروس سے رابطہ کے طریقہ کار سے واقفیت نہیں ہے اور یہ لوگ رکشہ یا آن لائن ٹیکسی کا کرایہ ادا نہیں کرسکتے۔

یہ مریضہ، اس کی ماں، بہنیں گھروں میں کام کرتی ہیں یوں ان لوگوں نے اپنے مالکان سے پیسے جمع کیے اور ایک ہفتے تک اسپتال کے اخراجات پورے کیے۔ اس غریب خاندان کو سویرا کی جان بچانے کے لیے40 ہزار روپے کے قریب رقم خرچ کرنا پڑی۔ اس اسپتال میں بہترین کینسر وارڈ ہے۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی شہریوں کے عطیات سے کینسر کے علاج کے لیے جدید ترین مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ ایک معروف صحافی کے بھائی کینسرکے مرض میں مبتلا ہوئے تو انھیں یہاں علاج کے لیے بھیجا گیا۔ ڈاکٹروں نے کیموتھراپی تجویزکی۔ کیمو تھراپی کی یہ دوائی 70 سے 90 ہزار روپے کی ہے۔

مخصوص میڈیکل اسٹور پر دستیاب ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے کیمو تھراپی ہونی چاہیے، یوں مریض کے لواحقین کو بازار سے یہ دوائی خریدنی پڑی۔ جب اس صورت حال کا ذکر اخبارات میں ہوا تو پھر شاید انتظامیہ کو کچھ خیال آیا، مگر اس مریض کا قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک اور مریض کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انھیں آپریشن کے لیے ضروری سامان بازار سے خریدنا پڑا۔ اسپتال انتظامیہ نے اس صورتحال کو نئے مالیاتی سال کے بجٹ سے منسلک کیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گرانٹ آنے تک صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی مگر جب 6 ماہ بعد یہ بجٹ خرچ ہو جائے گا تو پھر ایسی صورتحال دوبارہ پیدا ہوگی۔

کراچی میں دل کے امراض کے اسپتال میں بھی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ایک مریضہ کا انتہائی پیچیدہ آپریشن اس اسپتال میں ہوا تھا۔ ڈاکٹروں نے آپریشن کی کامیابی کا اعلان کیا مگر آپریشن تھیٹر یا وارڈ میں پھیلے ہوئے انفیکشن کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہارگئیں۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ اس اسپتال میں صفائی کی صورتحال خراب ہے جس کی وجہ سے انفیکشن ہونے کے بہت زیادہ امکانات رہتے ہیں۔

کراچی کے اس سرکاری اسپتال کے سینئر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آزادی کے وقت یہ ایک چھوٹا سا اسپتال ہوا کرتا تھا۔ پھر یہ ترقی کرتا گیا، آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد تک یہ وفاق کی تحویل میں آیا، پھر یہ صوبائی حکومت کی تحویل میں چلا گیا۔ عدالت عالیہ نے اسے وفاق کی تحویل میں دینے کا حکم جاری کیا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے سے انکارکیا اور یہ اسپتال دوبارہ حکومت سندھ کی نگرانی میں آگیا۔ حکومت سندھ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالیاتی سال کے لیے 2.

137 بلین روپے کی ضروری اشیاء اور آلات کی فراہمی کے لیے مختص کیے ہیں اور 640 ملین روپے کی اضافی گرانٹ مختص کی ہے۔

گزشتہ سال کے بجٹ میں 7.196 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی تھی۔ اسی طرح کراچی کا ایک اور سرکاری اسپتال ہے۔ حکومت نے 334 بلین روپے کی رقم اس اسپتال کے لیے مختص کی تھی۔ لیور انسٹی ٹیوٹ کے لیے علیحدہ 750 ملین مختص کیے ہیں مگر اس اسپتال میں بھی چند امراض کی او پی ڈیز ہیں جہاں مریضوں کو دوائیاں دی جاتی ہیں مگر دیگر امراض کی او پی ڈیز کا برا حال ہے۔ مریضوں کو سرکاری طور پر بہت کم دوائی دی جاتی ہے۔ اگرکوئی بالکل ہی نادار مریض داخل ہوجائے یا کسی مریض کے لواحقین زیادہ شور مچائیں تو انھیں زکوۃ فارم تھما دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ڈاکٹر مریض کو یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ مرض کے فوری علاج کے لیے باہر سے اعلیٰ معیارکی دوائی خریدنا ہوگی۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اور ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T) واحد سرکاری ادارہ ہے جہاں گردوں کی تبدیلی کے آپریشن اور ڈائیلاسز جیسے مہنگے پروسیجر سمیت تمام علاج مفت ہیں۔ ایک بڑے انگریزی اخبارکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اور سرکاری اسپتال اس سال کے آغاز سے شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ اس اسپتال میں پورے سندھ کے علاوہ بلوچستان اور افغانستان سے بھی مریض آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اسپتال میں مریضوں کو فراہم کیا جانے والا کھانا جس میں ناشتہ بھی شامل ہے کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسپتال مریضوں کو ڈائیٹ پلان کے بجائے طویل عرصے سے صرف آلو کا سالن فراہم کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح اسپتال میں ایکسرے، ایم آر آئی اور دیگر ٹیسٹ کی سہولت بھی خاصے عرصے سے معطل ہے، مگر معاملہ صرف کراچی یا حیدرآباد کے اسپتالوں کا نہیں ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکھر میں بجلی کی سپلائی بند ہونے سے تمام آپریشنز رک جاتے ہیں۔ یہاں جنریٹر یا سولر سسٹم موجود نہیں ہے۔ سکھر میں روزانہ بجلی کا بند ہونا معمولی کی بات ہے مگر جب بجلی جاتی ہے تو آپریشن سمیت تمام کام معطل ہوجاتے ہیں۔

طویل عرصے سے صحت کے موضوع پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ماسوائے چند کے شدید مسائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ صحت کی سہولتوں کے دعوؤں کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہورہی ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بناء پر حکومت سندھ ہر سال صحت کے بجٹ میں اضافے کا اعلان کرتی ہے۔

اگرچہ پورے سندھ میں ایس آئی یو ٹی وغیرہ میں حالات خاصے بہتر ہیں مگر باقی اسپتالوں کا برا حال ہے۔ بعض صحافیوں کا بیانیہ ہے کہ محکمہ صحت میں میرٹ پر تقرریوں کا رجحان بہت عرصہ قبل ختم ہوچکا ہے۔ اب اسپتالوں میں اہم عہدوں پر تقرری کے لیے ’’چمک‘‘ یا ’’سفارش‘‘ انتہائی اہم عنصر سمجھے جاتے ہیں۔ فنڈز کے استعمال میں شفافیت کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں اسپتالوں میں فراہم کی جانے والی سہولت کم ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو ہی اس صورتحال کا مداوا کرسکتے ہیں۔ سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے بارے میں یہ محاورہ برحق ہے ’’دور کے ڈھول سہانے۔‘‘

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرکاری اسپتال اس اسپتال میں کا کہنا ہے کہ علاج کے لیے حکومت سندھ ڈاکٹروں نے اسپتال کے مریضوں کو ہے کہ اس نہیں ہے مختص کی ایک اور روپے کی سال کے کے بعد

پڑھیں:

کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں تین افراد زخمی

کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں تین افراد زخمی ہوگئے جس میں ایک شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 انبالہ بیکری کے قریب فائرنگ سے ایک شخص شدید زخمی ہوگیا جسے انتہائی تشویشناک حالت میں چھیپا کے رضا کاروں نے جناح اسپتال پہنچایا۔

ریسکیو حکام کے مطابق مضروب کی شناخت 30 سالہ عمران کے نام سے کی گئی جسے پیٹ پر گولی لگی تھی جبکہ واقعہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے پیش آیا ہے۔

اورنگی ٹاؤن خیر آباد امن چوک پیٹرول پمپ کے قریب فائرنگ سے 28 سالہ محمد علی زخمی ہوگیا جسے طبی امداد کے لیے عباسی شہید اسپتال لیجایا گیا۔

منگھوپیر پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ ذاتی جھگڑے کے دوران پیش آیا جس کی مزید تحقیقات کی جا ری ہے۔

دریں اثنا شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے نیشنل ہائی وے منزل پمپ کے قریب فائرنگ سے نوجوان زخمی ہوگیا جسے جناح اسپتال لیجایا گیا۔

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ نوجوان کی شناخت 24 سالہ انور شاہ کے نام سے کی گئی جسے ٹانگ پر گولی لگی تھی جبکہ فوری طور پر فائرنگ کی وجہ کا معلوم نہیں ہوسکا اس حوالے سے پولیس مزید معلومات حاصل کر رہی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں تین افراد زخمی
  • گھوٹکی: مبینہ طور پر اسپتال میں غلط انجکشن لگنے سے بچی جاں بحق
  • میرپورماتھیلو ،تعلقہ اسپتال گھوٹکی میں ترقیاتی کاموں کا افتتاح
  • الائیڈ اسپتال کی ایم آرآئی مشین کی خرابی تشویشناک ہے
  • جیکب آباد میں باپ وبیٹا حرکت قلب بند ہونے سے چل بسے
  • کراچی، پولیس اور ڈاکوؤں میں مقابلے، 3 ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار
  • کراچی میں کار کی ٹکر سے 22 سالہ نوجوان جاں بحق
  • کراچی: قومی امراض قلب اسپتال میں 40 ارب کی مبینہ کرپشن سامنے آ گئی
  • سندھ میں سرکاری اسپتالوں کی جانب سے کم معیاد ادویات کی خریداری جاری