کیوبا کے صدر پر امریکی پابندیاں، عوامی احتجاج کو طاقت سے دبانے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
امریکا نے کیوبا کے صدر میگوئل دیاز کینیل پر پہلی بار پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے عوام کے خلاف مبینہ سخت کارروائیوں کو قرار دیا گیا ہے۔
یہ اقدام سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں کیوبا پر دباؤ بڑھانے کی تازہ کوشش ہے۔
Four years since the Cuban regime’s brutal crackdown on protestors, @StateDept is restricting visas for Cuban regime figureheads @DiazCanelB, López Miera, Álvarez Casas, and their cronies for their role in the Cuban regime’s brutality toward the Cuban people.
— Secretary Marco Rubio (@SecRubio) July 11, 2025
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا کہ امریکا دیاز کینیل اور دیگر اعلیٰ حکام پر ویزہ پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 12 ممالک پر سفری پابندی عائد کردی، کونسے ممالک شامل؟
یہ اعلان جولائی 2021 کے ملک گیر احتجاج کے چار سال مکمل ہونے پر سامنے آیا ہے۔
2021 کے مظاہرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںجولائی 2021 میں کیوبا بھر میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر آ کر بنیادی اشیا کی قلت اور خراب معاشی حالات کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ یہ مظاہرے فیڈل کاسترو کی 1959 کی کمیونسٹ انقلاب کے بعد سب سے بڑے احتجاج تصور کیے گئے۔
ان مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، ایک شخص ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ میں کیوبا پر امریکی پابندیوں کیخلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وہ ان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جو ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث‘ ہیں۔ ان میں کیوبا کے وزیر دفاع آلوارو لوپیز میئیرا اور وزیر داخلہ لازارو البرتو الواریز کاساس شامل ہیں۔
عدالتی اور جیل حکام بھی نشانے پرامریکا ان عدالتی اور جیل افسران پر بھی پابندیاں عائد کر رہا ہے جو ’جولائی 2021 کے مظاہرین کی غیر منصفانہ گرفتاری اور تشدد‘ میں ملوث پائے گئے ہیں۔
مارکو روبیو نے کہا کہ جب کیوبا کے عوام خوراک، پانی، دوا اور بجلی کی کمی کا شکار ہیں، تو حکومت اپنے قریبی لوگوں پر بے دریغ دولت لٹا رہی ہے۔
کیوبا کا ردِ عملکیوبا کے وزیر خارجہ برونو روڈریگز نے ایکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی پابندیاں کیوبا کے عوام یا اس کی قیادت کی مرضی کو نہیں توڑ سکتیں۔
اس سے قبل مئی 2025 میں کیوبا نے امریکہ کے سفیر کو طلب کر کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر احتجاج کیا تھا۔
The Cuban regime continues to torture pro-democracy activist José Daniel Ferrer.
The United States demands immediate proof of life and the release of all political prisoners.
— Secretary Marco Rubio (@SecRubio) July 11, 2025
امریکہ کی جانب سے کیوبا پر 6 دہائیوں سے تجارتی پابندیاں عائد ہیں۔
سیاسی قیدیوں کا مسئلہمارکو روبیو نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اپوزیشن رہنما خوسے ڈینیئل فیریر پر تشدد کیا ہے اور زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق جولائی 2021 کے مظاہروں میں شریک 700 سے زائد افراد تاحال جیلوں میں قید ہیں، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد 360 سے 420 کے درمیان ہے۔
کچھ مظاہرین کو حالیہ مہینوں میں سزا پوری ہونے پر رہا کیا گیا ہے۔ جبکہ کچھ، بشمول فیریر، کو ویٹی کن کی ثالثی کے تحت جنوری میں رہا کیا گیا، مگر اپریل کے آخر میں ان کی پیرول منسوخ کر دی گئی۔
ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکا نے کیوبا کو دوبارہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
امریکیوں کے لیے مزید پابندیاںامریکی محکمہ خارجہ نے ہوانا میں واقع 42 منزلہ نئے ہوٹل ’توری کے‘ کو بھی ممنوعہ اداروں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے تاکہ امریکی ڈالرز کیوبا کی حکومت کی سرگرمیوں کی مالی معاونت نہ کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیوبا کے سگار اور ان کے بیش قیمت منقش ڈبے دنیا بھر میں مقبول کیوں؟
یہ ہوٹل حال ہی میں کیوبا کے دارالحکومت کے مرکزی علاقے میں کھولا گیا تھا اور ایسے وقت میں بھاری سرمایہ کاری پر تنقید کی جا رہی ہے جب ملک میں سیاحت زوال کا شکار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی نائب صدر ٹرمپ کیوبا کیوبا پابندی کیوبا صدر کیوبا مظاہرے مارکو روبیوذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی نائب صدر کیوبا کیوبا پابندی کیوبا صدر کیوبا مظاہرے مارکو روبیو پابندیاں عائد کر مارکو روبیو میں کیوبا جولائی 2021 کیوبا کے کہا کہ
پڑھیں:
چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی وفد نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی تاکہ امریکی صنعت کے لیے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز قائم کرنے کے امکانات پر بات کی جاسکے، کیونکہ واشنگٹن کی عالمی نایاب معدنیات پر چین کی بالادستی کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی سربراہی رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم کر رہے تھے، جو امریکی حکومت کے تعاون سے قائم کردہ کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کے امکانات، سپلائی چین کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے کریٹیکل منرلز کے شعبے میں ذمہ دار اور پائیدار سرمایہ کاری کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکا اور بھارت نے دفاعی تعاون کے لیے 10 سالہ فریم ورک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کی توجہ اسٹریٹجک خطرے پر مرکوز ہے، جو بیجنگ کے ان وسائل پر کنٹرول سے پیدا ہوا ہے، اسٹریئر نے سی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپنے واحد مضمون میں لکھا کہ ’چین کا کریٹیکل منرل سپلائی چینز پر غلبہ امریکی قومی سلامتی، اقتصادی مسابقت اور طویل المدتی اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے‘۔
اسٹریئر نے پاکستان کو بتایا کہ سی ایم ایف دنیا بھر، خصوصاً ابھرتی ہوئی منڈیوں میں امریکی صنعت کے لیے قابلِ اعتماد سپلائی چینز کے قیام پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فورم کی توجہ نایاب اور مخصوص دھاتوں پر مرکوز ہے جن میں تانبا اور اینٹیمونی شامل ہیں اور اس کا مقصد مالی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاری کے خطرات کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور امریکی نجی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے فروغ کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
بیان کے مطابق اسٹریئر نے اعتراف کیا کہ امریکا، پاکستان کے سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو ایک مسابقتی برتری سمجھتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں کریٹیکل منرلز کی ترقی کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وفد کے ہمراہ موجودہ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں امریکی تجارتی مصروفیات کی حمایت کرتا ہے اور معدنیات کے شعبے میں مضبوط سرمایہ کار اعتماد اور مؤثر ریگولیٹری فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اہم قانونی و ضابطہ جاتی اصلاحات پر کام کر رہا ہے اور منظم تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تعاون کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک کے ساتھ واپس آئیں، پاکستان اسے ذمہ دار سرمایہ کاری اور باہمی مفاد کو یقینی بنانے کے تناظر میں جانچے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں توازن قائم کر رہا ہے اور اپنی مضبوط شراکت داریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی تعلقات کے ایک تعمیری موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان۔امریکا تعلقات میں نئی جان، چین کے ساتھ آزمودہ تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس کی مثال ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا معدنی شعبہ ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جو معیشت کو ’کھپت پر مبنی چکروں سے برآمدات پر مبنی ترقی‘ کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایک مضبوط معدنیات پالیسی فریم ورک پاکستان کو بار بار آنے والے مالیاتی خسارے کے دباؤ سے نکالنے اور مستقبل میں کثیرالجہتی اداروں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔
وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران کئی عالمی مالیاتی اداروں، بشمول دیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
امریکی فریق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ چین عالمی کریٹیکل منرلز پر اپنا کنٹرول تیزی سے بڑھا رہا ہے۔
رابرٹ لوئس اسٹریئر نے کہا کہ چین کی بالادستی، خاص طور پر معدنیات کی پراسیسنگ میں سرکاری سبسڈی، عمودی انضمام اور کمزور ماحولیاتی ضوابط کی بدولت ہے، جو توانائی اور تعمیل پر مبنی شعبہ ہے، اس کے برعکس امریکا نے اس میدان میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے مطابق، کریٹیکل منرلز جدید معیشت اور ریاستی طاقت کی بنیاد ہیں، توانائی، دفاع اور تجارتی ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں، یہ مواد لڑاکا طیاروں کے لیے مقناطیسی پرزوں سے لے کر برقی گاڑیوں کی بیٹریوں تک استعمال ہوتے ہیں۔
کونسل نے خبردار کیا کہ ان سپلائی چینز میں ’نہایت نازکیت‘ پیدا ہو چکی ہے، جو چند ممالک تک محدود ہیں، زیادہ تر چین میں ریفائن ہوتی ہیں اور شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔
مزید کہا گیا کہ چین نے اپنی بالادستی کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی‘ دکھائی ہے، جیسا کہ اس نے امریکا کے تجارتی کنٹرول کے جواب میں گریفائٹ اور اینٹیمونی جیسے مواد پر برآمدی پابندیاں سخت کر دی ہیں۔
تاہم رابرٹ لوئس اسٹریئر نے تسلیم کیا کہ امریکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداواری لاگت اور معدنی قیمتوں میں غیر معمولی و غیر یقینی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال ’منفعت کے خواہشمند سرمایہ کاروں کے لیے ایک سرد اثر ‘ رکھتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں خطرے کے مقابلے میں متوقع منافع زیادہ ہو۔