امریکا اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلیے دنیا پر دباؤ ڈال رہا ہے،لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملتان(نمائندہ جسارت) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل کی درندگی اور امریکا کی سرپرستی میں ہونے والا ظلم پوری امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکر ہے۔ امریکا اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے دنیا بھر میں دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن غزہ میں 60 ہزار شہادتیں امت کو بیدار اور متحد کر رہی ہیں۔ اگر عالم اسلام اتحاد و یکجہتی سے کام لے تو یہ تعصبات اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام بھی جلد دم توڑ دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں صحافی برادری کے اعزاز میں عشائیہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر
امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب سید ذیشان اختر، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی جنوبی پنجاب ثنا اللہ سہرانی، امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان صہیب عمار صدیقی، صدر ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب حافظ محمد اسلم، صدر الخدمت فاؤنڈیشن ضلع ملتان سید عبدالقادر شاہ سمیت صحافی برادری کی بڑی تعداد شریک تھی۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ برصغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نظریاتی بنیادوں پر پاکستان کا ایجنڈا دیا۔ آج بھی ملک میں سیاسی استحکام اور خوشحالی کا واحد راستہ اسلامی نظریات سے وابستگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ضلع ملتان کے زیر اہتمام صحافی برادری کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں بزرگ صحافیوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ملتان ہمیشہ سے صحافت کا مرکز رہا ہے اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہا کہ ملت اسلامیہ ماضی میں سرد جنگ کے دوران بھی تقسیم کا شکار رہی، امریکا جب سپر پاور بنا تو سب اس کی جی حضوری میں لگ گئے۔ لیکن 9/11 کے بعد دنیا پھر سے بائی پولر ہو گئی، پاکستان اور بھارت کی مختصر جنگ نے قوم کو متحد کیا اور سیاست میں نظریے کی طاقت کو دوبارہ زندہ کیا۔نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ بنگلا دیش میں پھانسیاں دی گئیں مگر حالات پلک جھپکتے بدل گئے۔ افغانستان کی مثال سب کے سامنے ہے کہ 3 سپر پاورز وہاں ناکام ہوئیں۔ ایران کی اسلامی حکومت نے شاندار کارکردگی دکھا کر ثابت کر دیا کہ نظریہ جب مضبوط ہو تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔انہوں نے بلوچستان میں بسوں سے لوگوں کو اتار کر قتل کرنے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوم پرستی نہیں بلکہ ظلم اوردرندگی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بدامنی کی صورتحال تشویشناک ہے، عوام کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔ مائنز اینڈ منرلز صوبوں کی ملکیت ہیں، وفاق کو اس پر قبضے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا فوری اجلاس بلا کر صوبوں کے حقوق اور وسائل کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ 78 سال سے عوام کو جھوٹ بول کر نظام چلایا جا رہا ہے۔ ہائبرڈ نظام اور فوج کو سیاست میں لا کر عوام کو مزید بے وقوف بنایا گیا، لیکن یہ حربے ناکام ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر یہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ سیاسی بحرانوں کا حل صرف سیاسی بات چیت سے ہی ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، 47 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں جبکہ حکمران بار بار پیسے مانگ کر پاکستان کو عالمی سطح پر بے عزت کر رہے ہیں۔ کرپشن اور اللے تللے ختم کیے جائیں، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اور پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ ظلم ہے۔ شہباز شریف پوری دنیا گھوم رہے ہیں مگر معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ رہا۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ امریکا جس طرح یہودی لابی کے شکنجے میں ہے اس سے مشرق وسطیٰ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ فلسطین کی حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کو اب اپنی ترجیحات میں امت کے مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنا ظلم ہے۔ قوم کو متحد کر کے کرپشن سے پاک، اسلامی اصولوں پر مبنی نظام ہی پاکستان کو بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا انہوں نے کہا کہ رہا ہے
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔