نوازشریف کو مانسہرہ سے شکست کیوں ہوئی؟کیپٹن(ر)صفدر کا اہم بیان سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
مانسہرہ (نیوز ڈیسک)مسلم لیگ ن کے رہنمااور سابق رکن قومی اسمبلی کیپٹن(ر) صفدرکا نواز شریف کی مانسہرہ سے شکست پر اہم بیان سامنے آ گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں کیپٹن(ر)صفدر کا رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھا کہ تین انجم گزرے ہیں ،اب وہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ورنہ میں بھی کسی عدالتی کٹہرے میں ان کوبھی بلاتااورکہتا کہ الیکشن کا رزلٹ 10تاریخ کو آتا ہے، آپ کی ایجنسیاں کہتی ہیں کہ نوازشریف ہار گیا ہے یہاں سے نکلو، فائرنگ ہو رہی ہے۔یہ کیا تھا،میں اب کھری بات کروں گا تو پھر ۔
رپورٹر کاکہنا تھا کہ کریں کریں آپ نے ہمیشہ کھری باتیں ہی کی ہیں،اس پر کیپٹن صفدر نے کہاکہ تب ہی تو دھوپ میں کھڑے ہیں،ورنہ ایئرکنڈیشنڈ،آپ کے ساتھ اس وقت سموسے قیمے والے کھا رہے ہوتے۔
رپورٹر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کیپٹن صفدر کی جو رائے تھیں وہ میاں صاحب کو کاٹنی پڑیں،آپ نے کیسی تجاویز دی تھیں،آپ سے تجاویز بھی ٹھیک نہیں دی گئیں۔
کیپٹن صفدر کاکہناتھا کہ ہم وہ ہیں ہم جیل میں تھے تو قوم نے سیٹ ہمیں دے دی تھی،کیپٹن صفدر نے کہا کہ میں سب سے لڑ سکتا ہوں لیکن نظام سے تو نہیں جھگڑسکتا۔
لیگی رہنما کاکہناتھا کہ میں فوجی آدمی ہوں،میں گارنٹی لینے والا نہیں ہوں،میں ایک سال پہلے رات دن الیکشن مہم شروع کی ،آج بھی جس گاؤں میں جاتا ہوں کہتے ہیں قسم خدا کی ووٹ توسارے گاؤں نے ڈالے ہیں،رات کو جس وقت رزلٹ آیا ہے ۔
تو میں نے کہاکہ تم سوتے رہے کہ ڈبے ادھر ادھر ہوا ہے،گاؤں والوں کاکہناتھا کہ کچھ ہوا ہے جی،ہم اتنے بے وفا نہیں،ہم اتنے بے مروت نہیں،کہ ایک ووٹ نوازشریف کو نہ دیں،جس نے ہماری نسلیں سنوار دیں۔
“میں نے ہمیشہ کھری بات ہی کی ہے اس لئے تو دھوپ میں کھڑا رہتا ہوں،” نواز شریف کے داماد اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے خاوند کیپٹن صفدر کے تاثرات!
آج کل کیپٹن صفدر صاحب نہ جانے کیوں بجھے بجھے اور مایوس نظر آتے ہیں حالانکہ انکی بیگم وزیر اعلی اور چچا سسر وزیر اعظم ہیں۔ pic.
— Shahid Aslam (@ShahidAslam87) July 27, 2025
Post Views: 1
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کیپٹن صفدر
پڑھیں:
نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
ڈاکٹر سلیم خان
بھاگوت اور مودی کی درمیان تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف کردی سالگرہ پر مضمون لکھ دیا اس کے باوجود سرسنگھ چالک نے مودی کے جنم دن پرمبارکباد کا دو سطری پیغام تک نہیں لکھا ایسے میں کس منہ سے یہ پروچن کیا جارہا ہے ؟ بھاگوت کا اعتراف درست ہے کہ سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی اور نہ انہیں متحد کرنے کاآلہ ٔکار بن سکتی ہے بلکہ وہ اتحاد کو بگاڑنے کا ہتھیار ہے ۔ یہ بات اس ہندوتوا کی سیاست پر ہو بہو صادق آتی ہے جس کی کمان بھاگوت اور مودی کے ہاتھ میں ہے ۔بھاگوت جی نے جب یہ انکشاف کیا کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے تو یہ سن کر سنگھ پریوار کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا ہوگا ۔ گرو گولوالگر اور روحانی پیشوا ساورکر کی آتما کو تکلیف پہنچانے کے لیے موہن بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ‘ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں’کیونکہ ساورکر نے تو شیواجی کے ہندو نواب کی بہو کے ساتھ حسنِ سلوک پربھی اعتراض کیا تھا ۔خطاب کے بعد سوال و جواب کے دوران بھاگوت نے یہ انکشاف کردیا کہ:”ہندو اور مسلمان ایک ہیں… اس لیے ان کے درمیان اتحاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؛ صرف ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ہیں۔ اتحاد کس بات کا کرنا ؟ کیا بدلا ہے ؟ صرف عبادت کا طریقہ بدلا ہے ؛ کیا یہ واقعی کوئی فرق پیدا کرتا ہے ”؟
بھاگوت جی نہیں جانتے کہ عبادت اور اس کے طور طریقہ پر عقائد کو سبقت حاصل ہوتی ہے اور جب وہ بدل جاتا ہے تو انسان کی زندگی کا نصب العین اور مقصد حیات تک ساری چیزیں بدل جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اسلام زمانہ قدیم سے ہندوستان میں ہے اور آج تک قائم ہے ، اور مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔یہ خیال کہ اسلام باقی نہیں رہے گا، ہندو سوچ نہیں ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ”۔ بھاگوت ایک طرف تو سارے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں اور پھر اسلام کے باقی رہنے کی پیشنگوئی بھی فرماتے ہیں ۔ اس تضاد بیانی پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بھاگوت مسلم ناموں والی سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں لیکن یوگی تو دور ان کی گود میں پلے بڑھے اور سنگھ کی شاکھا سے نکلے ہوئے فڈنویس تک ان کی سن کر نہیں دیتے تو کوئی غیر کیوں مانے ؟ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کااصرار اس بات پر ہے کہ سڑکوں یا شہروں کے نام جابر حملہ آوروں کے نام پر نہ رکھے جائیں تو کیا سارے ہندو راجہ مہاراجہ انصاف پسند تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اور اپنی رعایہ پر ظلم نہیں کیا۔ بھاگوت جی کیا ایسے پیشواوں کے نام پر شہروں اور سڑکوں کو رکھنے کی مخالفت کریں گے جنھوں شودروں پر فرعون اور ہٹلر سے زیادہ مظالم کیے ۔ وہ بولے اے پی جے عبدالکلام، عبدالحمید کے نام ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ گجرات میں لاشوں کے سوداگر نریندر مودی کو احمد آباد میں ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل کر اپنا نام رکھنے کی اجازت کس نے دی اور کم از کم بھاگوت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ؟ دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل بھاگوت جی کو اپنے اور پریوار کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے ، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچے گا”۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بنیاد پرستی کی خاطر منافرت کو سنگھ پریوار فروغ دے رہا ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود بھاگوت کو یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے مگر یوگی تک ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرنے کے بجائے سنبھل کی مسجد کا تنازع کھڑا کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ بھاگوت کے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کاشی اور متھرا تنازع میں سنگھ ملوث نہیں ہوگا مگر پھر مسلمانوں کو یہ دونوں عباتگاہیں ہندووں کے حوالے کردینے کا مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انہوں نے مسلم سماج کو بھی اپنی طرح بیوقوف سمجھ رکھا ہے ؟
دن رات ہندو راشٹر کے قیام کی مالا جپنے والے سنگھ پریوار کا سر براہ جب کہتا ہے کہ ”ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں”۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ” مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے ” تو بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے ۔ موہن بھاگوت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں نے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی سعیٔ جمیل سے پھیلا۔ مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ملک کی جنوبی ریاست کیرالا میں پہلی مسجد تعمیر ہوگئی تھی جبکہ وہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر عقیدے کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کی ۔ ہندو راجاوں اور مسلم بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کا کام ہندوتوا نوازوں نے کیا ہے ۔ سر سنگھ چالک سمیت وزیر اعظم واسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر دراندازی یعنی گھس پیٹھیا کی سیاست اور این آر سی کے ذریعہ اپنے ہی ملک کے باشندوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے ویسے تو طبِ حیوانی کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر کبھی کبھار وہ بڑی دانشورانہ باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًانہوں نے ہندوستان کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کا مزاج جدوجہد یا ٹکراؤ کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے ۔ہندوستان کی اکائی زمین، وسائل اور معرفتِ ذات کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ماتا اور ہمارے بزرگوں کے تئیں عقیدت ہی سچے ہندو کی پہچان ہے ۔ان بلند بانگ دعووں کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے بودھ مت کا دیش نکالا کس نے کیا ؟ اس معاملے کو افہام تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کے بجائے بودھوں کو نسل کشی سے ڈراکر ملک بدری کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ آج کے دور میں علی
الاعلان نسل کشی کی ترغیب کون دے رہا ہے ؟ کیا نیپال میں چند سال قبل اقتدار کی خاطر اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ولیعہد ہندو نہیں تھا ۔ اس وقت تو وہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی؟ ا بھی حال میں نیپال کے سابق وزیر اعظم کی بیوی کو زندہ جلا دینے والے کون تھے ؟ اس سے قبل بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اقتدار تبدیل ہوا مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ لداخ میں اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے ہندو ہے یا نہیں؟
آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے عصرِ حاضر میں اپنی تنظیم کی غرض و غایت اس طرح بیان کی کہ سنگھ کی حقیقی معنویت تبھی ہے ، جب بھارت وشوگرو (عالمی رہنما) بنے ۔ عالمی قیادت کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔ وہ بغیر چیلوں کے وشو گرو دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سیاست کی بساط چین اور امریکہ مودی جی سے کھیل ر ہے ہیں ۔ ٹرمپ ایک دن ڈانٹتے ہیں تو دوسرے دن دوست کو گنوانے پر افسوس کا اظہار کرکے امید جگاتے ہیں ۔ تیسرے دن تعریف کرکے پچکارتے ہیں اور چوتھے دن اپنے وزیر خزانہ نے مزید ٹیرف کے بڑھانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بچے کو پہلے ڈانٹا جائے اور وہ منہ بسور کر بیٹھ جائے تو لالی پاپ پکڑا کر خوش کردیا جائے ۔وہ اسے لے کر اچھلنے کودنے لگے اور پھر سے شرارت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو دوبارہ ڈانٹ ڈپٹ دیا جائے ۔ امریکہ یہی کررہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بذاتِ خود امریکہ جانے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ حل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو پنڈت نہرو نے غیر جانبدار ممالک کا عالمی رہنما بنایا تھا مودی جی جیسے نام نہاد وشوگرو نے اس مقامِ بلند سے بھی ہندوستان کو محروم کردیا ہے ۔ اس انحطاط میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے نہیں بلکہ سنگھ کے سیوک( خادم ) ہیں۔کاش کے یہ بات موہن بھاگوت کی سمجھ میں آجائے کہ ملک کو وشو گرو بنانا کم از کم مودی جی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا لیکن سوال یہ کہ کون ہماری پروا کرتا ہے ۔ چین، امریکہ، روس اور سعودی عرب سبھی تو پاکستان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ بھاگوت اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لوگ ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ‘دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔